• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زمانہ گزر گیا جب سرکاری ٹی وی پر طنز و مزاح سے بھر پور ’’ففٹی ففٹی‘‘ پروگرام پیش کیا جاتا تھا۔ ایک خاکے میں مشہور اداکار‘ ماجد جہانگیر نے کندھے پر کُدال اُٹھائے‘ کان کُن کے رُوپ میں انٹرویو دیا۔ سوال ہوا کہ پاکستان میں ابھی تک زمین سے تیل کیوں نہیں نکلا؟ جواب تھا کہ صحیح جگہ پر کُدال چلانے کی اجازت نہیں ملتی۔

مزید وضاحت کی کہ فیصل آباد کی پِچ کھودنے کا موقع ملے تو تیل کا چشمہ جاری ہو جائے کیونکہ اِس جگہ میں دُنیا کے عظیم فاسٹ بائولروں کا تیل موجود ہے۔ لطیف پیرائے میں فیصل آباد کے اقبال سٹیڈیم کی بے جان پِچ پر طنز‘ حقیقت پر مبنی تھا۔

اُسی برس آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تھی۔ پہلا میچ کراچی کی سپننگ وکٹ پر ہوا۔ اقبال قاسم اور توصیف احمد نے میچ جِتوایا تو فیصلہ ہوا کہ باقی میچوں کے لئے بے جان وکٹوں کا انتخاب کیا جائے۔

آسٹریلیا کی ٹیم میں دُنیا کے خطرناک ترین فاسٹ بائولر‘ ڈینس للی بھی شامل تھے۔ یہ فیصل آباد کی پِچ کا کمال تھا کہ اُس میچ میں ڈینس للی نے اکیس اوورز میں نوے رن دے کر بھی کوئی وکٹ حاصل نہ کی۔

خبر کے مطابق ڈینس للی نے میچ کے بعد وصیت کی کہ ’’مرنے کے بعد مجھے اِسی پِچ میں دفن کیا جائے۔‘‘ مقامی وکٹوں کی تیاری ہمیشہ متنازع رہی ہے۔ ٹرف وکٹ سے پہلے‘ (Matting) میٹنگ پِچ کا رواج تھا۔ جب ٹرف کا رواج ہوا تو اِس مشکل اور تکنیکی عمل پر کسی کو عبور حاصل نہیں تھا۔

آہستہ آہستہ گرائونڈ سٹاف کو علم ہوا کہ پِچ کی جگہ کھودنے کے بعد ‘مختلف مٹیریل کی تہیں بچھائی جاتی ہیں۔ موزوں مٹی کا انتخاب اور نامیاتی مادوں کی موجودگی سے وکٹ کی سطح پر گھاس اُگانے کا عمل جاری رکھا جاتا ہے۔اِس تکنیکی کام کیلئے مناسب مہارت درکار ہوتی ہے۔

عام مالی‘ پِچ کی تیاری میں محنت سے بچنے کی خاطر اُسے سیمنٹ کے فرش کی طرح سخت کر کے جان چھڑا لیتے ہیں۔ نتیجہ نکلا کہ مقامی میچوں میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بہتر رہتی ‘ مگر ہم غیر ملکی دوروں میں بُری طرح ہار جاتے۔ یہ کیفیت آج بھی بہت حد تک قائم ہے۔ 1954ء میں قومی ٹیم نے انگلینڈ میں چار ٹیسٹ میچ کھیلے۔ اُن دنوں بارش کی صورت میں پِچ کو ڈھکنے کا رواج نہیں تھا۔

دو میچ بارش نے بچا لئے ،ہماری ٹیم اوول ٹیسٹ جیتی تو ملک میں عام تعطیل کا اعلان ہوا۔ جب ہندوستان کی ٹیم 1955ء میں اپنے پہلے دورے پر پاکستان آئی تو ہم کسی صورت حریف ملک سے میچ ہارنا نہیں چاہتے تھے۔

چنانچہ ہر میدان میں ایسی پِچ بنائی گئی جہاں دو اننگز میں کسی ایک ٹیم کا آئوٹ ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ پانچ ٹیسٹ کھیلے گئے اور نتیجہ صفر۔ پاکستان کا آئندہ دورہ ہندوستان کا تھا۔ یہاں بھی‘ پانچوں ٹیسٹ میچ بے نتیجہ رہے۔ اِس سیریز پر مرحوم قمرالدین بٹ نے (Playing for a Draw) کتاب لکھی۔ عنوان میں چھُپے ہوئے طنز سے ظاہر تھا کہ بے جان وکٹوں پر دونوں ٹیمیں جیتنے کی بجائے میچ برابر رکھنے کیلئے کھیل رہی ہیں۔

ہندوستان سے سیریز کھیلنے کے بعد 1962ء کے موسم گرما میں ٹیم نے انگلستان کا دورہ کیا۔ اِس دفعہ بارش مدد کو نہ آئی اور ہم انگلستان میں تمام میچ ہار گئے۔ 1962ء کے بعد 1967ء‘ 1971ء اور 1974ء میں ہم انگلینڈ کے خلاف تمام سیریز ہارتے رہے۔ٹیم کی مسلسل شکست کا سلسلہ آسٹریلیا کے دوروں میں بھی جاری رہا۔

راقم سرکاری نوکری کے دوران 1977ء سے مقامی سطح پر بین الاقوامی کرکٹ میچ کی انتظامیہ کا حصہ رہا ہے۔ اِسی ضمن میں 1977ء کے دوران انگلینڈ ٹیم کا دورۂ پاکستان یاد آ رہا ہے۔ اُن دنوں آسٹریلین چینل 9 کے مالک ‘کیری پیکر نے دُنیا کے مشہور کھلاڑیوں کوبھاری معاوضوں کی پیشکش سے ورلڈ کرکٹ سیریز کھیلنے پر راضی کر لیا۔

پاکستان کے چار نامور کھلاڑی ‘ آصف اقبال‘ ظہیر عباس‘ ماجد جہانگیر اور پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم ‘عمران خان بھاری معاوضوں کی خاطر ورلڈ الیون میں شامل ہو گئے۔ پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ نے اِن چاروں کھلاڑیوں پر پابندی لگا دی۔ وسیم باری کپتان مقرر ہوئے۔

انگلستان کی ٹیم سے بھی پانچ کھلاڑی اِسی لالچ میں اپنی قومی کرکٹ ٹیم چھوڑ چکے تھے۔ جناح سٹیڈیم میں کرکٹ کا ایک روزہ مقابلہ ہونا تھا۔ ڈپٹی کمشنر میاں جمیل نے کھیل میں میری دلچسپی دیکھتے ہوئے مجھے میچ کا انچارج بنا دیا۔ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ہم نے مقامی ماہرین کی مدد سے پِچ تیار کی۔

لاہور سے ایک تجربہ کار گرائونڈمین حاجی بشیر بھی ہماری مدد کو پہنچے۔ جب پِچ تیار ہوئی تو اُس پر گھاس موجود تھی۔ میچ شروع ہونے سے ایک دن پہلے مدثر نذر نے پِچ کا جائزہ لیا۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے ہم عصر اور دوست تھے۔ گھاس دیکھ کر ناراض ہوگئے۔ جب وسیم باری گرائونڈ میں پہنچے تو اُنہوں نے حاجی بشیر کو حکم دیا کہ فوری طور پر کینوس کے پچاس جوڑے‘ جوتوں کا انتظام کیا جائے۔

پھر آئندہ چار پانچ گھنٹوں کے دوران بیس پچیس ورکرز نے پِچ پر جوتے رگڑ کر گھاس کو مکمل ختم کر دیا۔ پاکستان کی ٹیم میں مدثر کے علاوہ صادق محمد‘ جاوید میاں داد اور وسیم راجہ شامل تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ گھاس کے خاتمے سے بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو فائدہ نہ ہوا۔ ہم صرف ایک سو پچاس رنز بنا سکے اور پاکستان چھ وکٹوں سے میچ ہار گیا۔ یہ پہلا موقع تھا۔ بعد میں بھی راقم کو ضلعی انتظامیہ میں تعیناتی کے دوران‘ ملتان‘ فیصل آباد اور سیالکوٹ میں غیر ملکی ٹیموں کے ساتھ میچ کے انعقاد کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔

تقریباً دو سال‘ پی سی بی کے گورننگ بورڈ کا رُکن بھی رہا‘ مگر وکٹوں کی تیاری بارے‘ ہماری حکمتِ عملی تبدیل نہیں ہوئی۔ یقین اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ پِچ کی تیاری میں ہم شکست خوردہ ذہنیت کے حامل رہے ہیں۔ ماہرین کرکٹ کو ادراک ہے کہ اگر پاکستان کی ٹیم نے بیرونِ ملک دُوسری ٹیموں کو ہرانا ہے تو اُس ملک میں جیسی وکٹیں دستیاب ہیں‘ ٹیم کو اُن پر پریکٹس کی ضرورت پڑے گی۔

اِس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کیلئے‘ رمیز راجہ نے پی سی بی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے زیادہ زور مناسب پِچوں کی تیاری پر دیا ہے۔ کرکٹ بورڈ کو علم ہوتا ہے کہ ہم آئندہ کس ملک میں کرکٹ کھیلنے جائیں گے اور وہاں ہمارے کھلاڑیوں کا کس قسم کی وکٹوں سے پالا پڑے گا۔

اگر دورے سے پہلے ہم اُس ملک کے موسم کے مطابق اپنے ہاں مناسب جگہ کا انتخاب کریں اور وہاں اُس طرح کی پچ پر پریکٹس کریں جہاں ہمارا مقابلہ ہونا ہے تو ہمارے کھلاڑی مُفید تجربہ حاصل کر لیں گے۔ ابھی تک رمیز راجہ ایک مضبوط چیئرمین کی زبان بول رہے ہیں۔ اُنکی تشخیص اور دعوے تو درست ہیں۔

تازہ ترین