کراچی (انصار عباسی) لگتا ہے پی ٹی آئی حکومت میں راولپنڈی اور لاہور میں 6؍ کمشنرز اور گجرانوالہ میں سات کمشنرز کو تبدیل کرکے اچھی طرز حکمرانی کو ثابت کرنے میں کوئی کسر رہ گئی تھی اسلئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے گزشتہ چالیس ماہ کے دوران اپنے ہی آبائی شہر ڈیرہ غازی خان کے دس کمشنرز کو بھی تبدیل کیا ہے۔
اس طرح ہر کمشنر کے عہدے کی اوسط معیاد صرف چار ماہ رہی، یہ تین سے چار سال کی مطلوبہ معیاد کے برعکس ہے۔ پنجاب کی تاریخ میں چالیس ماہ کے عرصے میں دس کمشنرز کو تبدیل کرنے کا واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا لیکن وزیراعظم عمران خان کے وسیم اکرم پلس نے اپنے ہی ڈویژن میں یہ کام کر دکھایا ہے۔
تیزی سے جن دس کمشنرز کو ڈی جی خان سے تبدیل کیا گیا ہے ان کے نام یہ ہیں: رانا گلزار (اکتوبر 2018)، طاہر خورشید (اپریل 2019)، اسد اللہ فیض (جولائی 2019)، مدثر ریاض ملک (نومبر 2019)، نسیم صادق (اپریل 2020)، ساجد ظفر (اکتوبر 2020)، ڈاکٹر ارشاد احمد (اگست 2021)، سارہ اسلم (نومبر 2021)، ذیشان لاشاری (دسمبر 2021) اور لیاقت چٹھہ (دسمبر 2021)۔
تیزی سے کی گئیں ان تبدیلیوں سے ان افسران کو عہدے کی معیاد میں اوسطاً چار ماہ ہی ملے۔ اطلاعات ہیں کہ ان افسران کو عہدے پر لگانے سے قبل وزیراعلیٰ نے خود ان کا انٹرویو کیا تھا۔ بیوروکریسی کے ذرائع نے واضح کیا ہے کہ ڈویژن کو پاکستان میں گورننس کا اہم انتظامی یونٹ سمجھا جاتا ہے۔ کمشنر ڈویژنل لیول پر حکومت کا نمائندہ ہے اور صوبائی دارالحکومت سے دور ہے۔
تمام صوبائی محکموں کی نگرانی کرنا اور تمام ڈپٹی کمشنرز کی اے سی آرز لکھنا اور اسسٹنٹ کمشنرز دیگر صوبائی محکموں کے سربراہان کی اے سی آرز پر کائونٹر سائن کرنا اُن کی ذمہ داری میں آتا ہے۔ وہ کچھ اہم وفاقی اداروں کی نگرانی کا کام بھی کرتے ہیں۔ پنجاب میں انتظامی لحاظ سے 9؍ ڈویژنیں ہیں جن میں راولپنڈی، گجرانوالہ، سرگودھا، لاہور، ساہیوال، ملتان، بہاولپور، فیصل آباد اور ڈی جی خان شامل ہیں۔
انتظامی اور سیکورٹی نقطہ نظر سے ڈی جی خان اہم ڈویژن ہے۔ اس میں مظفرگڑھ، راجن پور، لیہ اور ڈی جی خان ضلع آتے ہیں۔ اس کی سرحدیں سندھ، بلوچستان اور کے پی سے ملتی ہیں اور اس میں راجن پور اور ڈی جی خان کا کچھ قبائلی علاقہ بھی شامل ہے جو ڈی جی خان کے کمشنر کی براہِ راست ذمہ داری میں شامل ہیں جو بلوچ ملٹری پولیس کو کنٹرول کرتے ہیں۔
یہ وہ ملیشیا ہے جو ڈی جی خان کے قبائلی علاقے کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس ملیشیا کے اثر رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچ ملٹری پولیس میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے بھائی عمر بزدار ’’لیویز حوالدار‘‘ ہیں۔
ایک سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ اس ڈویژن میں کئی اہم سیکورٹی تنصیبات موجود ہیں اور یہاں توانائی سے جڑا انفرا اسٹرکچر اور انڈس ہائی وے بھی موجود ہے جو ملک کے شمالی ریجن کو کراچی سے جوڑتی ہے اور یہ شاہراہ ڈی جی خان سے ہو کر گزرتی ہے۔
سیکورٹی کے لحاظ سے یہ ڈویژن فرنٹ لائن پر ہے کیونکہ یہ بلوچستان، کے پی کے قبائلی علاقہ جات سے جڑی ہے جبکہ مقامی سطح پر امن عامہ کی صورتحال بھی پر خطر ہے کیونکہ یہاں کئی جرائم پیشہ گینگز موجود ہیں۔ ایک سرکاری ذریعے نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حساس انتظامی ریجن میں عدم استحکام کیلئے آخری حربہ انتظامی عدم استحکام ہو سکتا ہے۔ اس خطے میں ترقی کا فقدان ہے اور یہاں کے لوگ پنجاب کے غریب ترین عوام ہیں۔
یہاں کے کلچر پر سردار کا غلبہ ہے اور علاقہ انتہائی حد تک جاگیردارانہ طرز کا ہے، اور اس طرح کے کلچر میں موثر، غیر جانبدار اور پیشہ ور سرکاری ملازمین ہی مقامی عوام کی آخری امید ہیں۔
سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ جاگیردار سردار کے غلبے میں پی ٹی آئی کی حکومت نے ڈی جی خان ڈویژن میں اہم ترین سرکاری عہدے کو مضحکہ خیز اور راستے کا پتھر بنا کر رکھ دیا ہے۔ کئی بیوروکریٹس کیلئے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ صوبائی حکومت کو ساڑھے تین سال میں ایسا کوئی قابل افسر نہیں ملا جو وزیراعلیٰ کے اپنے آبائی شہر کی اہم ترین انتظامی ذمہ داری کو سنبھال سکے۔