بیجنگ /کراچی (نیوز ڈیسک) چین کے صدر شی جن پنگ نے بڑے ممالک سے کہا ہے کہ وہ دنیا میں کورونا کی وجہ سے جاری معاشی خطرات سے نمٹنے کیلئے مل کر کام کریں۔ ورلڈ اکنامک فورم سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں ’’خوشحالی کی مشترکہ پالیسی‘‘ اختیار کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس مثال کے تحت عمل کرنا پڑے گا کہ پہلے ہمیں کیک کو بڑا کرناپڑے گا اور اس کے بعد ادارتی انتظامات کے ذریعے آپس میں تقسیم کرنا ہوگا، جیسے ایک اونچی اُٹھتی لہر تمام کشتیوں کو اوپر اٹھا دیتی ہے ویسے ہی تمام ممالک کو بھی فائدہ ہوگا جو عوام تک مساوی انداز سے پہنچانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں عالمی معیشت کو بحران سے ریکوری کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا، جس کیلئے ضروری ہے کہ میکرو پالیسی کو آرڈینیشن کا راستہ اختیار کیا جائے۔ بڑی معیشتوں کو چاہئے کہ وہ دنیا کو ایک معاشی کمیونٹی کی نظر سے دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ چین غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے کھلا ہے، قانون اور ضوابط کے مطابق ہر طرح کا سرمایہ لا کر چین میں لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سرد جنگ کی سوچ ترک کرنا ہوگی اور بقائے باہمی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایسے حالات پیدا کرنا ہوں گے جن میں سب کا فائدہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ نے ہر مرتبہ ہمیں یہ بتایا ہے کہ تنازع اور تصادم سے تباہ کن نتائج سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہماری دنیا پرسکون ماحول سے کہیں زیادہ دور ہوگئی ہے، ایسا بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے جس سے نفرتیں اور تعصب بڑھ رہا ہے، دھونس، دبائو اور کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے سے سب کا نقصان ہوگا اور یہ ویسے بھی دنیا کے امن اور سلامتی کیلئے ٹھیک نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ کشیدگی اور تنازع سے مسائل حل نہیں ہوتے کیونکہ اس سے تباہ کن نتائج سامنے آتے ہیں۔ عسکریت پسندی اور مطلق العنانیت کی سوچ سے کسی کو تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسی سوچ آخر کار سب ہی کو نقصان پہنچاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی ترقی کا واحد راستہ ترقی اور مشترکہ کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کیخلاف دنیا کی مشترکہ کوششوں سے ہی سب کا فائدہ ہوگا، سب کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی، ویکسین کی مساوی انداز سے تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا، ویکسین لگانے کے عمل میں تیزی لانا پڑے گی تاکہ لوگوں کی زندگی اور صحت کو محفوظ بنایا جا سکے۔ چین نے ہمیشہ اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے، ہم نے 120؍ ممالک کو دو ارب سے زائد خوراکیں فراہم کی ہیں۔ چین افریقی ممالک کو مزید ایک ارب خوراکیں فراہم کرے گا جن میں سے 600 ملین خوراکیں عطیہ ہوں گی جبکہ آسیان ممالک کو بھی 150؍ ملین خوراکیں فراہم کی جائیں گی۔