• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بولٹن کی ڈائری۔ ابرار حسین
منی بجٹ سے متعلق بحث کی بازگشت وطن عزیز کے علاوہ برطانیہ میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی میں بھی سنائی دے رہی ہے کیونکہ اوورسیز پاکستانیوں کے تمام معاملات اندرون ملک کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں بادی النظر میں منی بجٹ کا پاس ہونا عمران خان کے اقتدار کے لیے نیک شگون قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اس پر حزب اختلاف کو سخت تحفظات تھے اور بعض تجزیہ نگاروں کی نظر میں حکومت کے لیے حالات ناسازگار بتائے جاتے تھے مگر پھر بھی منی بجٹ پاس ہو گیا جسے پی ٹی آئی اپنی حکومت کی کامیابی سے تعبیر کر رہی ہے تاہم بعض جائزوں کی رو سے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کے تحت منی بجٹ کی منظوری سے مہنگائی کی چکی میں پہلے سے پسے عوام کی حالت مزید خراب ہو جائے گی۔منی بجٹ پیش کرتے ہوئے تقریباً 150 اشیا پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ کو ختم کر دیا گیا ہے مگر حکومت کو اپنے خزانے میں 343 ارب روپے اضافے کی توقع ہے۔حزب اختلاف کا ردعمل یہ ہے کہ اس منی بجٹ سے مہنگائی کی نئی لہر ابھرے گی تاہم وزیر خزانہ نے بجٹ کا دفاع کرتے ہوئے اس سے غریبوں کے متاثر ہونے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ چھوٹ درآمدی اشیا پر ختم کی گئی جو غریب آدمی استعمال نہیں کرتا۔ البتہ حکومت کے دعوؤں کے برعکس معیشت اور تجارت سے وابستہ افراد اس جواز کومسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق منی بجٹ نہ صرف مہنگائی میں اضافہ کرے گا بلکہ اس کی وجہ سے ملک کی معاشی شرح نمو پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے جس کی وجہ خام مال پر لگنے والا سیلز ٹیکس یا ان پر دی گئی چھوٹ کا خاتمہ ہے جو ملک میں پیداواری عمل کو سست کر سکتا ہے۔ شاید اسی لیے حزب اختلاف اور بعض غیر جانبدار مالیاتی اور اقتصادی تجزیہ کار شدید تحفظات کا اظہار کر رہے تھے مگر شاید حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے تحت ہی بجٹ کی منظوری کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ احتجاج کے باوجود حکومت اسے ایوان سے منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں۔ صنعتی و کاروباری طبقے اور ماہرین معاشیات کے مطابق خام مال مہنگا ہونے سےمعیشت سست روی کا شکار ہو گی جو روزگار کے مواقع کم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ ہم نے جو تفصیل جمع کی ہے اس کے مطابق فنانس بل کی منظوری کے بعد درآمدی زندہ جانوروں اور گوشت، انڈوں، اور تحائف پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں ایڈز اور کینسر کی تشخیص، گونگے بہرے اور اندھے لوگوں کے علاج اور بحالی کیلئے درآمدی طبی آلات، غیر منافع بخش اداروں کی طرف سے درآمد کئے جانے والے سازوسامان پر بھی سیلز ٹیکس استثنیٰ کوختم کر دیا گیا ہے۔ساتھ ہی درآمدی کمپنیوں کی طرف سے نمائشوں اور تجارتی میلوں کیلئے درآمدی سامان اور خدمات پر بھی ٹیکس چھوٹ ختم ہو گئی ہے۔بیرون ملک سے آ نے والے 200 ڈالر سے زیادہ قیمت والے موبائل فون پر فکسڈ سیلز ٹیکس ختم کر کے قیمت کے تناسب سے17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو کردیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ ٹیکس بڑھنے سے ملک بھر کی موبائل فون مارکیٹوں میں کاروبار میں شدید مندی آ گئی ہے۔شیرخوار بچوں کے دودھ، ادویات کی مصنوعات کے خام مال، بیکریوں میں تیار روٹی کی مصنوعات، سرخ مرچ پر بھی ٹیکس لگے گا۔ حتی کہ مانع حمل ادویات، نمک، پولٹری اشیاء اور کپاس کے بیج پر ٹیکس لگے گا۔ چاندی اور سونے پر جی ایس ٹی 1 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد اور زیورات پر بھی 17 فیصد ہو جائے گا۔ اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور سیاحوں کے ذریعے درآمد کیے گئے ذاتی استعمال کے ملبوسات اور ذاتی سامان پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ پرسنل ماچس پر بھی 17 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ ڈیری پروڈکٹس بنانے میں استعمال ہونے والی مشینری اور سامان پر پانچ فیصد کی جگہ 17 فیصد ٹیکس لگے گا۔ موبائل فونز پر فکسڈ ریٹ کی جگہ 17 فیصد ٹیکس لگے گا اور موبائل فون کالز پر ٹیکس بھی 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کیا جائے گا۔ موبائل فونز مقامی طور پر بنانے والی انڈسٹری کو بھی مشینری کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اب ایک سو روپے کے موبائل فونکارڈ پر صارفین کو 72 روپے کا بیلنس ملے گا۔ سیلز ٹیکس زرعی بیجوں، پودوں ، آلات اور ادویات پر بھی عائد کیا گیا ہے حالانکہ محنت کش کسان طبقہ پہلے ہی معاشی مسائل کی چکی میں پس رہا تھا اور تازہ اقدامات سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اسی طرح نیوزپرنٹ، کتابوں کاپیوں پر بھی ٹیکس کے اضافے سے ملک کے اندر تعلیم و تدریس کی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے سو منی بجٹ سےحکومت کو ایک ارب ڈالر کا قرضہ تو مل جائے گا اور آئی ایم ایف کے ایجنڈے کی تکمیل ہو جائے گی مگر اس کے نتیجے میں عام لوگوں کی قوت خرید بری طرح متاثر ہو گی اور روزمرہ زندگی کے معاملات چلانا دشوار ہو جائے گا جبکہ عام لوگ پہلے سے ہی مہنگائی کے گرداب میں پھنسے ہوے تھے برطانیہ کے اندر بسنے والے پاکستانیوں کی اکثریت اب وطن عزیز کے اندر رہنے والے اپنے خاندانوں کے حوالے سے سخت پریشان ہے کہ وہ مہنگائی کے اس نئے طوفان کا اخر کیونکر مقابلہ کرپائیں گے؟ جبکہ برطانیہ کے پاکستانیوں کی اپنی حالت بھی اب کئی طرح کی تبدیلی کے عوامل سے گزر رہی ہے یہاں پر بھی مہنگائی نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اب ماضی کی طرح وہ وطن عزیز میں اپنے پیاروں کی مدد کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ یہاں پر توانائی کی قیمتوں میں ا انتہائئ اضافہ ہوا ہے عوامی رائے میں پی ٹی آئی حکومت کو کوئی ایسی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے جس پر عملی طور پر اس بارے میں سوچا جا سکے اور ایک بات جو سامنے نظر آتی ہے کہ وطن عزیز سے ملنے والے لوگوں کے تبصرے اور تاثرات نہایت تشویش ناک ہیں کہ اب وہ اپنے بجٹ سے نئے کپڑوں کی خریداری نکال چکے ہیں ، لوگ نئے جوتے اورموبائل کریڈٹ خریدنے کی استطاعت سے بھی محروم ہو رہے ہیں حتی کہ فروٹ تک خریدنا عام لوگوں کے بس سے باہر ہو جائے گا لیکن اس تناظر میں اگر دیکھا جاے تو یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ حکومت کے دعوؤں کے برعکس عوامی ردعمل خاصا مختلف کیوں ہے۔
یورپ سے سے مزید