’’میں نے انٹر کا امتحان پاس کیا تھا کہ بابا نے مجھے گھر سے در بدر کردیا میں چاہ کر بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ سکی ،کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ اس گھر میں میرے لیے کوئی جگہ نہیں ، دوسروں سے کیا گلہ کروں مجھے تو میرے اپنوں نے دکھ دیے ہیں، بابا نے گھر سے نکالا تو مڑ کر دیکھنے کا حوصلہ نہ رہا۔ اس گھر کے دروازے مجھے پر ہمیشہ کے لیے بند ہوچکے ہیں،جہاں میری ماں ،بہن ،بھائی ہے۔
ماں کی آغوش ،باپ کی شفقت اور بہن ،بھائیوں کے پیار سے لمحہ بھر میں محروم ہو گئی وجہ تو سب کو پتا چل ہی گئی، اس لیے کچھ کہنے سے کیا حاصل ہوگا ،البتہ جب گھر اور اپنوں کو یاد کرتی ہوں تو بے چین ہو جاتی ہوں، بند آنکھوں سے اکثر گھر کی دہلیز پر کھڑی ہوجاتی ہوں۔ شکر ہے کہ ماں مجھ سے ہمیشہ رابطے میں رہیں، میں ان کو اپنی ایک ایک بات بتاتی ہوں، جب کبھی پارٹی میں ناچنے کی وجہ سے پیروں میں درد ہوتا تو تکلیف سے مجھے رونا آتا تو میرے ماں وہاں گھر میں روتی تھی۔
وہ میری محبت میں ہر لمحے تڑپتی تھیں، وہ وقت میرے لیے کتنا مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے ،یہ مجھے سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ مجھے بچپن سے معلوم تھا کہ میں ’’ٹرانس جینڈر ‘‘ ہوں ،خواجہ سرا کی کمیونٹی کا حصہ ہوں،مگر خود اس بات کو قبول نہیں کرپا رہی تھی ،میرے لیے یہ بات ہضم کرنا بھی بہت مشکل تھاکہ سگنلز پر کھڑے بھیک مانگے والے اور میں ایک ہی قبیلے سے ہیں۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں مجھے کافی وقت لگا ،جب گھر کی دہلیز چھوڑی تو اُس وقت میرے ذہن میں ہزاروں سوالا ت جنم لے رہے تھے کہ اب میں کیا کروں گی ،کس کے پاس رہوں گی ،کس کو حال ِدل سنائوں گی، کون مجھےسہارا دے گا ،کیوں کہ معاشرہ تو ہمیں حقارت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے، لوگ تو ہمیں دھتکارتے ہیں ،بھیک مانگنے پر جھڑک دیتے ہیں، عجیب جملے کہتے ،طنز کرتے ہیں ،کوئی بھی محبت و شفقت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، ہمیں عجیب و غریب مخلوق سمجھتے ہیں ،اپنے بچوں کو ہمارے بارے میں نہیں بتاتے ،کسی کو ہم پر ترس نہیں آتا۔
میں جب بھی اپنے ماضی کے بارے میں سوچتی ہوں تو میری روح کانپ جاتی ہے ،کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ اگر ہم ٹرانس جینڈر پیدا ہوئے ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمارے ماں باپ معاشرے کے دباؤ اور خاندان والوں کی تنقید ی باتوں کی وجہ سے ہمیں گھروں سے کیوں نکال دیتے ہیں ،ہمیں کس بات کی سزادی جاتی ہے۔
لوگوں کا رویہّ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے ،اس سے ہماری بہت دل آزری ہوتی ہے‘‘۔ یہ خیالات ہیں، ڈاکٹر سارہ گل کے ،جس نے حال ہی میں ایم بی بی ایس کی ڈگری اپنے نام کی ہے ۔چند دن قبل ہم نے ان کے دفتر واقع ڈیفنس فیز2 میں تفصیلی ملا قات کی ،ذاتی زندگی سے تعلیم کے میدان تک راہ میں آنے والی مشکلات کے بارے میں چوچھا ، ہمارے سوالات سارہ کے جوابات کی روشنی میں،آئیے آپ بھی جانیے کہ گھر کی دہلیز پار کرنے سے ڈاکٹر بننے تک کی بابت۔
……٭٭……٭٭……٭٭……
س: سب سے پہلے ہمارے قارئین کو اپنے بارے میں بتائیں۔ مثلا ًپیدائش، والدین، بہن ،بھائی ،خاندان وغیرہ؟
ج: میرا تعلق کراچی سے ہے ،اسی شہر میں پیدا ہوئی ،ہوش سنبھالا تو علم ہوا کہ میں خواجہ سرا کی کمیونٹی کا حصہ ہوں لیکن میں یہ حقیقت قبول نہیں کرنا چاہتی تھی ،کیوں کہ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے یہ بات تسلیم کرلی تو شاید زندگی میں کچھ نہیں کرسکوں گی، ایک عجیب سی گھبراہٹ ہر وقت طاری رہتی تھی،جو مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہی تھی ۔لیکن جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی مجھے یہ اندازہ ہوتا گیا کہ اس بات کو قبول کرنے میں شرمنا کیسا ، میرے اختیار میں تو نہ تھا ،اب مجھے اپنی زندگی اسی شناخت کے ساتھ گزارنی ہے۔بالآخر میں نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ۔میری دو بہنیں اور ایک بھائی ہے ،اپنے خاندان کے بارے میں کچھ نہیں بتانا چاہتی ،کیوں کہ کچھ باتیں ذاتی ہوتی ہیں ،جن کو بتانا نہیں چاہتی ۔
س: اپنی تعلیم کے بارے میں ہمارے قارئین کو بتائیں ؟کس اسکول ،کالج سے پڑھا ؟اسکول کالج کا پہلا دن کیسا گزرا ؟
ج: میری اسکولنگ پاکستان ائیر فوربیس مسرور کی ہے وہ اُس وقت کا اعلیٰ درجے کا اسکول تھا ، انٹر بحریہ کالج سے کیا ۔انٹر تک کی تعلیم کے اخراجات میرے والد نے پورے کیے، عمر کے اس حصے تک تو والد کی بہت زیادہ سپورٹ تھی ۔لیکن اس کے بعد کی تعلیم میں نے ایک خود مختار ٹرانس کے طور پر حاصل کی،’’جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے’ایم بی بی ایس ‘‘ مکمل کیا ۔ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے تمام تر اخراجات میں نے خود اُٹھائے کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا۔
میں رات کو مختلف تقریبات میں ناچ کے پیسے کماتی ،صبح ایک این جی او میں نوکری کرتی تھی، تب کہیں جاکر فیس ادا کرپاتی تھی ،کئی مرتبہ تو میں نے فیس نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایک پیپر بھی دئیے اور کئی کئی مہینوں کا بریک بھی لیا ۔ ایک سیمسٹر کی فیس دینے کے بعد مجھے اگلے کی فکر ہوتی تھی ۔مالی پریشانیوں کے باعث کئی سال میں ایم بی بی ایس مکمل کیا ۔لیکن مجھے فخر ہے کہ میں پہلی خود مختار ٹرانس وویمن ہو جو اپنے بل بوتے پر ڈاکٹر بننی۔
ایک عام لڑکے /لڑکی کے مقابلے میں میرے لیے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا معاشرے کی تفریق کی وجہ سے زیادہ مشکل تھا اور دوسرا یہ کہ مالی طور پر مجھے سپورٹ کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ دوران ِتعلیم بھی مجھے لوگوں کے سخت اور تلخ رویوں کا سامنا کرنا پڑا ،مگر اس کے باوجود میں نے کبھی ہار نہیں مانی ،بہادری کے ساتھ ہر طر ح کے رویوں کو برداشت کرکے آگے قدم بڑھاتی رہی۔
س: آپ نے اپنی تعلیم خواجہ سرا کی شناخت سے ہی مکمل کی لیکن شروعات میں تو اسناد میں جینڈر کچھ اور ہوگا، وہ کیسے تبدیل کروایا ، اس حوالے سے کیا مشکلا ت پیش آئیں ؟
ج: میں نے تعلیم خواجہ سرا کی شناخت سے تو حاصل کی ہے لیکن میرے ڈاکومنٹس میں نام ابھی بھی پرانا ہی ہے جو مجھےتبدیل کروانا ہے۔ میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کے بعد میں نے بال کافی زیادہ چھوٹے کر والیے تھے، جس کی وجہ سے میری شکل سے واضح طور پر لگنے لگا تھا کہ میں ٹرانس وویمن ہو، پھر میں نے بھی لوگوں سے نہیں چھپایا اور ویسے بھی چھپائی وہ چیز جاتی ہے جو کہ غلط ہو ،کوئی برا کام کیا ہو اور ٹرانس جینڈر ہونا میرے اختیار میں نہیں تھا ۔(سارہ نے اپنا اصل نام نہیں بتایا)
س: سارہ گل نام کس نے رکھا ؟
ج: جب مجھے گھر سے نکالا گیا تو میں بغاوت پر اُتر آئی ،میں نے سوچا جب بابا نے مجھے اپنی اولاد ماننے سے انکار کردیا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ ان کا نام میرے نام کے ساتھ منسلک ہو تو میں کیوں ان کا نام لگاؤں، اسی لیے میں نے نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ، ایک دن انٹرنیٹ پر سرچ کررہی تھی تو مجھے نہایت عام نام ’’گل ‘‘ملا ،پتا نہیں کیوں مجھے اُس وقت لگا کہ میرے لیے یہ نام بہت خوش قسمت ثابت ہوگا ، اس طرح میں نے اپنا نام سارہ گل کر لیا۔
س: ڈاکٹر بننا بچپن کا خواب تھا ؟ یا کسی سےمتاثر ہوکر بننے کا ارادہ کیا؟
ج: اگر میں یہ کہوں کہ ڈاکٹر بننے کا خواب میں بچپن سے دیکھتی آرہی تھی تو غلط نہیں ہوگا ،جب بچپن میں ٹی وی ڈراموں میں ڈاکٹرز کو دیکھتی تو اُس وقت سوچتی تھی کہ ایک دن میں بھی سفید کوٹ پہنوں گی ،مریضوں کا علاج ، اُن کی دل جوئی کروں گی۔ ڈاکٹروں کی شخصیت اور سفید کوٹ سے میں بہت زیادہ متاثر ہوتی تھی۔ لیکن ذہن میں ہمیشہ سے یہی تھا کہ میں ڈاکٹر بن کر اپنی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ قوم کی بھی خدمت کروںگی ،اس کے علاوہ میرا ایک خواب یہ بھی ہے کہ میں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے پاک فوج میں شمولیت اختیار کروں۔ فوجی نوجوانوں کا علاج کروں۔ اپنے اس خواب کو پورا کرنے کی تگ ودو ابھی بھی کررہی ہوں ۔
س: پڑھائی کے دوران کن مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑا ؟
ج: سب سے زیادہ جو مشکلا ت پیش آئیں وہ مالی تھیں ،علاوہ ازیں طالب علموں کےعجیب رویّوں کو برداشت کرنا پڑا ،میں یہ سمجھتی ہوں کہ ایک عام لڑکے یا لڑکی کے لیے کسی ٹرانس کو اپنے برابر میں بیٹھا دیکھنا آسان نہیں ہوتا اور پہلی مرتبہ کوئی ٹرانس وویمن کسی میڈیکل کالج میں پڑھ رہی تھی، تو اساتذہ اور طلبا کے لیے بھی ایک نئی بات تھی، اسی لیے اس کو قبول کرنا تھوڑا مشکل تھا ، اساتذہ کے لیے مشکل یوں تھا کہ وہ کیسے کلاس میں بٹھائیں ،طلبا اعتراضات کرسکتے تھے، ان کے والدین کو ایشو ہوسکتا ہے کہ ہمارے بچے ایک ٹرانس جینڈر کے ساتھ کیسے تعلیم حاصل کریں گے ،ایسا ہوا یا نہیں مجھے علم نہیں۔ ویسے ہم اس طرح کے رویوں کے عادی ہوتے ہیں، پھر جب ہمارے اپنے ہمیں تسلیم نہیں کرتے، والدین نکال سکتے ہیں تو دوسروں سے کیسا شکوہ ۔ گھر والوں کے لیے اپنا نا مشکل تھا تو دنیا والوں کے لیے کیسے آسان ہوسکتا ہے ۔
س:کن لوگوں نے سپورٹ کیا اور کس نے راہ میں روڑے اٹکائے؟
ج: مشکلا ت کا آغاز تو اسی دن سے ہوگیا تھا، جب گھر سے نکل کر سڑک پر آگئی تھی۔ روڑے تو تقریبا ًسب ہی نے اٹکائے لیکن جہاں برے لوگ ہوتے ہیں وہیں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں ،بس کچھ اچھے لوگوں نے میرا ساتھ دیا ۔سب سے زیادہ ساتھ میری کمیونٹی نے دیا، اگر وہ مجھے تقریبات میں نہ لے کر جاتے تو میں کبھی ڈاکٹر نہیں بن سکتی تھی ،گرچہ یہ سچ ہے کہ میں ڈانس نہیں کرنا چاہتی تھی، یہ کام کرنا میرے لیے کسی صدمے اوراذیت سے کم نہیں تھا لیکن اُس وقت میرے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔
اسکول اور کالج تک تو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا،ہر کام آسانی سےہوگیا تھا ،کیوں کہ اُس وقت شناخت کا علم کسی کو نہیں تھا، لڑکا بن کر داخلہ لیا تھا۔ اُس وقت تک گھر والے میرے ساتھ تھے۔ میرے ہر قدم پر میرے ساتھ کھڑے ہوتے تھے ،میں اکیلی نہیں تھی اور پڑھائی میں شروع سے بہت اچھی تھی ہمیشہ ’’اے ون ‘‘ گریڈ ‘‘آتا تھا ،البتہ میڈیکل کالج میں داخلےکے بعد پریشانیاں لاحق ہوئیں ۔
س: دوران ِتعلیم دوسرے طالب علموں کا رویہ آپ کے ساتھ کیساتھا؟
ج: شروع میں جو ’’بیچ‘‘ یعنی گروپ تھا ان کا رویہ کافی عجیب تھا وہ کسی کام میں مجھے اپنے ساتھ شامل نہیں کرتے تھے اگر کوئی لیکچر مس ہو جاتا تو بتاتے تک نہیں تھے اور نہ ہی اسائمنٹس گروپ میں شامل کرتے تھے ،معیوب نظروں سے دیکھتے تھے لیکن آخری سیمسٹر کے طلباء اس کے بالکل بر عکس تھے، ان سب نے میرے ساتھ ہرکام میں بہت تعاون کیا۔
ہر اسائمنٹ میں میری مدد کی، اگر میں کبھی کلا س میں لیٹ ہوجاتی یا نہیں جاتی تھی تو فون کرکےخیریت پوچھتے ،کبھی کوئی مسئلہ ہوتا تو مدد کے لیے فور ی حاضر ہوتے۔ ہر قدم پر میرا ساتھ دیا، انہوں نے پورے سال مجھے یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ میں ٹرانس جینڈر ہوں ،ان سب کے لیے میرے دل سے دعا نکلتی ہے اور میں ان کے والدین کو سلام پیش کرتی ہوں کہ انہوں نے اپنے بچوں کی بہترین تر بیت کی ہے۔
س: سنا ہے آپ خواجہ سرا کی ویل فیئر کمیونٹی کوبھی سپورٹ کررہی ہیں، اس بارے میں کچھ بتائیں ؟
ج: کمیونٹی کو اس طر ح سپورٹ کرتی ہوں کہ میں خواجہ سرائوں کے کچھ اداروں کے ساتھ منسلک ہوں، جن کو دیگر خواجہ سرائوں کے ساتھ مل کر چلا رہی ہوں جن میں ایک’’جینڈر انٹر ایکٹیو الائنس ‘‘ اور دوسرا ’’مورت انٹر ایکٹیو سوسائٹی ‘‘ ہے ،جہاں پر میں خواجہ سرائوں پر ہونے والے تشدد کو نہ صرف ریکارڈ کرتی ہوں بلکہ ڈاکومنٹ بھی کرتی ہوں۔
ہم وکیل اور پولیس کی حساسیت کی ٹریننگ کرواتے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ سوشل پارٹیز ،سیاسی پارٹیز اور الائنسس کے ساتھ مل کر کمیونٹی کی خود مختاری پرکام کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہم ’’ایچ آئی وی ایڈز ‘‘ کا ایک پروجیکٹ چلا رہے ہیں ،جس میں ہم خواجہ سرائوں کی مفت میں ایچ آئی وی ایڈز کی ٹیسٹنگ کرتے ہیں ،اس حوالے سے ان کو آگاہی فراہم کرتے ہیں ۔اگر کسی کو یہ بیماری ہوتی ہے تو اس کو گورنمنٹ سے رابطہ کروا کر مفت ادویات مہیاکرتے ہیں۔
س: پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد کیسا محسوس کررہی ہیں ؟
ج: اپنی خوشی، حساس اور جذبات کو لفظوں میں بیان کرنا کافی مشکل ہے، اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لفظ سننے کے لیے میرے کان ترستے تھے ،یقین کریں اس عہدے کو اپنے نام کے ساتھ جوڑنے کے لیے میں نے بہت زیادہ تگ ودو کی ہے ۔دن رات محنت کی، جب کہیں جاکر یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ اب میں اپنے آپ کو بلندی پر دیکھ رہی ہوں ۔
س: گھر والوں سے رابطہ ہے ؟
ج: جی بالکل ،اب پوری فیملی سے رابطے میں ہوں ۔ماں نے تو کبھی بھی لاتعلق نہیں کیا تھا ۔میری بہنیں مجھے سے بے انتہا محبت کرتی ہیں، بھائی کا تھوڑا مسئلہ تھا لیکن اب سب نے خوشی خوشی اپنا لیا ہے۔ میرے بابا کو لگتا تھا کہ میں تعلیم حاصل نہیں کررہی ،ان سے جھوٹ بولتی ہوں۔ لیکن جب اچانک ان کو پتا چلا کہ میں نے جو کہا تھا ،وہ کر دکھایا، ڈاکٹر بن گئی تو پہلی مرتبہ انہوں نے مجھے گلے لگایا اور بیٹی کہہ کر پکارا ۔
اب وہ کہتے ہیں کہ تم میرا فخر ہو۔آج تم نے میرا سر فخر سے بلند کردیا۔ بابا کی اس بات سے میں پچھلے سارے غم بھول گئی۔ پہلے خاندان والے میرے باپ کو باتیں سناتے تھے آج میرے باپ کو مبارک دی کی کال کررہے ہیں ۔یہ میرے لیے اعزا ز کی بات ہے۔
س: بطور ٹرانس جینڈر معاشرے کو کیسا پاپا ؟
ج: بہت تلخ لیکن اب معاشرے سے اچھائی کی خواہش مند ہوں اور یہ چاہتی ہوں کہ جو میرے ساتھ ہوا وہ کسی اور ٹرانس جینڈ رکے ساتھ نہ ہو، جیسا میرا ماضی بہت تلخ تھا ،ویساکسی دوسرے کا نہ ہو ۔ میں تو برداشت کر گئی، ہوسکتا ہے دوسرے نہ سہہ پائے ۔
س: آپ ٹرانس جینڈر کی تعلیم وترقی کے لیے کچھ کررہی ہیں یا کچھ کرنے کا ارادہ ہے ؟
ج: تعلیم کے حوالے سے ٹرانس جینڈرز کے لیے میری پاکستان میڈیکل کونسل سے درخواست ہے کہ میڈیکل کے نصاب میں ایم بی بی ایس یا اس سے آگے کی سطح پر ٹرانس جینڈر ہیلتھ کے حوالے سےایک باب شامل کیا جا ئے ،کیوںکہ ہمارے نصاب میں ٹرانس ہیلتھ کے بارے میں کچھ نہیں ہے ،میں نے ڈاکٹری میں ایک مرد وعورت کے بارے میں تو پڑھ کیا لیکن ایک ٹرانس پرسن کی حیثیت سے اپنی ہیلتھ کے بارے میں کچھ نہیں پڑھا تو کوئی بھی ڈاکٹر کسی ٹرانس جینڈر کا علاج کیسے صحیح طر ح سے کرسکتا ہے۔؎
دوسری میری وزیر اعلٰی تعلیم سے مختلف جگہوں پر اسکولوں کے انعقاد کے سلسلے میں بات ہورہی ہے۔ تیسرےیہ کہ گورنمنٹ کے ساتھ مل کرٹرا نس جینڈرز کے لیے نوکری میں 0.5 فی صد کوٹہ کروایا ہے اورچوتھی چیز یہ کہ میں’’ endocrinology hormones‘‘پر کام کرنا چاہتی ہوں ،جو کہ میری کمیونٹی کا بہت بڑا مسئلہ ہے ۔
س: اپنے ساتھیوں کو تعلیم کے حوالے سے کوئی مشورہ دینا چاہتی ہیں؟
ج: میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ تعلیم حاصل کرنا تھوڑا مشکل تو ہے لیکن تعلیم ہی آپ کو معاشرے میں وہ عزت اور مقام دلائی گی ،جس کا آپ نے کبھی گمان بھی نہیں کیا ہوگا ۔
س: کیا میڈیکل کے کسی شعبے میں اسپشلائزکرنے کا پلان ہے؟
ج: جی بالکل ! میرا ایف سی پی ایس اور ایم پی ایچ کرنے کا ارادہ ہے۔
س: مستقبل میں مزید کچھ کرنے کا سوچا ہے ؟
ج: ایم بی بی ایس تو بس شروعات ہے ،مستقبل میں بہت کچھ کرنے کا سوچا ہے ،نیت بھی اچھی ہے،جب تک زندگی ہے اُس وقت تک کچھ نہ کچھ کرتی رہوں گے ،آج پاکستان کا نام ایک ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جہاں ایک کام یاب ٹرانس جینڈر ڈاکٹر ہے، اب میں اپنا نام پاکستان کے کام یاب ترین ڈاکٹر ز میں دیکھنا چاہتی ہوں۔
س: عام قارئین اور ٹرانس جینڈر کو کیا پیغام دینا چاہیں گی ؟
ج: ٹرانس جینڈر کے ماں پاب کو اتنا زیادہ برا بھلا نہ کہو،ان کو باتیں نہ سنائو، طعنے نہ دو کہ وہ مجبور ہو جائیں کہ اپنے ہی جگر کے ٹکڑوں کودر بدر کردیں، ماں باپ سے یہ کہنا چاہوں گی کہ خاندان کی باتوں کی وجہ سے اپنے جگر گوشوں کوگھروں سے نہ نکالیں۔
یہ معاشرہ بہت برا ہے ،جو کچھ میں نے ماضی میں زندہ رہنے کے لیے کیا ہے، اگر میں آج بتادوں تو لوگ رو پڑیں گے اور اپنے ساتھیوں سے یہ کہنا چاہوں گی کہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ چوری نہیں کررہے، کسی کا قتل نہیں کررہے بھیک مانگ کر کسی طر ح گزرا کررہے ہیں میں آپ کا مسئلہ سمجھتی ہوں ہمیں جب ماں ،باپ قبول نہیں کرتے، ہماری تعلیم، نوکریوں کے لیے کسی نے کچھ نہیں کیا تو ہم کیا کریں ۔
میری پوری ہمدردی آپ کے ساتھ ہے ،کیوں کہ میں بھی آپ ہی کا حصہ ہوں ،بس ایک چھوٹی سی گزارش کرنا چاہوں گی کہ جو بھی کام آپ کررہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کوشش کرکے پڑھائی کی طرف بھی راغب ہوں ،اس معاشرے نے مجھے بھی اتنی ہی گالیاں دیں ،اتنا ہی للکارا ،بے عزت کیا ،طعنے دیئے ،ہزار باتیں سنائیں ،جتنا کہ آپ کو سنا رہے ہوں گے لیکن آج اسی معاشرے نے صرف میری تعلیم کی وجہ سے مجھے عزت دے کر سر آنکھوں پر بٹھا یا ہےاور ہم عزت کے ہی بھوکے ہیں ،مگر اس سے زیادہ میں حکومت پاکستان سے درخواست کروں گی کہ خواجہ سرائوں کی تعلیم اورنوکریوں کو تمام گورنمنٹ اور پرائیوٹ اداروں میں یقینی بنائیں ،ہمیں مینڈیٹ میں شامل کیا جائے۔
جس طر ح ایک اچھے معاشرے کے لیے مرد و عورت کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے بلکہ اسی طر ح معاشرے کی بہتری کے لیے خواجہ سرائوں کا پڑھا لکھنا ہونا لازمی ہے۔ ہم بھی قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں، جب ایک ٹرانس ڈاکٹر آپ کو اس بات کا یقین دلا رہی ہے کہ وقت آنے پر سر حد پر جاکر فوجیوں کی خدمت کرے گی تو ا س کا مطلب ہے کہ ہمیں بھی اپنی قوم اور وطن سے اتنی ہی محبت ہے جتنی آپ کو ہے۔ پاکستان سے مجھے ہمیشہ سے محبت تھی ،ہے اور رہے گی ۔ معاشرے نے ہمیں الگ سمجھا ہے لیکن ہم معاشرے کو الگ نہیں سمجھتے ۔