ہمزہ کے استعمال کے ضمن میں بعض نکات پر اب اکثر اہل علم متفق ہیں ، مثلاً یہ کہ ’’لیے ‘‘ میں ہمزہ نہیں آئے گا۔ لیکن افسوس کہ بعض اخبارات اور رسائل اب بھی ’’لیے‘‘ کو ’’لئے‘‘لکھ رہے ہیں۔ ’’لیے ‘‘کا درست املا ’’ل ی ے‘‘ ہے اور اس کو ’’لئے ‘‘لکھنے کا مطلب اس کا املا ’’ل ء ے‘‘ ماننا ہے اور یہ بالکل غلط ہے کیونکہ اس طرح ’’لِیے ‘‘ کا صحیح تلفظ ظاہر نہیں ہوتا اور اسے ’’لَئے ‘‘ پڑھنا پڑے گا (اس کی تفصیل آگے آرہی ہے )۔
کچھ عرصے قبل حیدرآباد (سندھ) میں ابتدائی جماعتوں کی اردو کی چند درسی کتب دیکھنے کا اتفاق ہوا جن کے سرورق پرفلاں جماعت کے ’’لئے‘‘ چھپا ہوا تھا۔ بہت افسوس ہوا کہ جو لوگ املا کے بنیادی مسائل سے واقف نہیں ہیں وہ ابتدائی درجے کی نصابی کتب کی تیاری اور چھپائی میں مشغول ہیں حالانکہ ابتدائی جماعت کے طالب علم کی عمر ایسی ہوتی ہے جس میں بنیادیں پڑ رہی ہوتی ہیں اور یہ غلط املا پھر تا عمر ذہن میں رہتا ہے۔
ہمزہ کے سلسلے میں کچھ اصول ،جن پر اکثر اہل علم کا اتفاق ہے، یہ ہیں:
۱۔ ہمزہ اردو کے چو ّن (۵۴)حروفِ ِ تہجی میں شامل ہے اوریہ الف کا قائم مقام ہے۔
۲۔ جن الفاظ میں ہمزہ آئے گا ان کے لیے شرط ہے کہ ا ن میں:
(۱ول)ہمزہ سے پہلے الف(ا) ہو، جیسے: آئیے، جایئے، لایئے، فرمایئے،کھائیے وغیرہ۔ ان سب میں ہمزہ چاہیے(لیکن لفظ ’’چاہیے‘‘ میں ہمزہ نہیں چاہیے )۔
(دوم)یا ہمزہ سے پہلے واو(و) ہو، جیسے :کھوئیے، رویئے، دھوئیے، سویئے ، بوئیے، وغیرہ ۔ یہ الفاظ ہمزہ کے ساتھ درست ہیں۔
(سوم)ایک اور صورت ہمزہ کے استعمال کی یہ ہے کہ ہمزہ سے پہلے والے حرف پر زبر ہو، جیسے: گَئے،نَئے۔
۳۔جن الفاظ میں کسی حرف کے نیچے زیر ہو ان الفاظ میں زیر والے حرف کے بعد ’’ی‘‘ لکھی جائے گی اور یہاں ہمزہ کا استعمال درست نہیں ہوگا ۔ مثلاً لفظ ’’لیے ‘‘ کا املا دراصل لِ ی ے (لیے)ہے۔ اس میں لام کے نیچے زیر ہے اور اس لام کے بعد ہمزہ نہیں آسکتا۔ یہاں ’’ی ‘‘ چاہیے۔اس لیے اسے ’’لئے ‘‘ (یعنی ل ء ے) نہیں لکھنا چاہیے۔ لئے، کئے ، دئے ، سئے، جئے، لیجئے، کیجئے، دیجئے وغیرہ لکھنا غلط ہے ۔ ان کے تلفظ میں ہمزہ کا کوئی کام نہیں اور ان کا درست املا بغیر ہمزہ کے بغیر یعنی لیے، کیے، دیے، سیے، جیے، لیجیے، کیجیے، دیجیے وغیرہ ہے، کیونکہ ان الفاظ میں مثلاً’’ کیجیے ‘‘ کا املا ’’ک ی ج ی ے‘‘ ہے ۔ اسے ’’ ک ی ج ء ے‘‘ لکھنا کس طرح درست ہو سکتا ہے ، کیونکہ اس طرح تو اس کا تلفظ بھی ٹھیک طرح سے ادا نہیں کیا جاسکتا۔
۴۔’’چاہیے ‘‘میں بھی ہمزہ نہیں چاہیے، یعنی’’ چاہیے ‘ ‘کو ’’چاہیئے ‘‘ نہیں لکھنا چاہیے ۔اسی طرح جمع کے لیے ’’چاہییں ‘‘ درست ہے، یعنی دو ’’ی‘‘ کے ساتھ ، اور ہمزہ کے بغیر۔
۵۔جب یہ طے ہوگیا کہ ہمزہ الف کا قائم مقام ہے تو بعض الفاظ میں الف کی بجاے ہمزہ لکھاگیا ، مثلاً ’’جائے‘‘کا املا اگر تلفظ کی وضاحت کی خاطر لکھا جائے تو ’’ج ا +اے ‘‘ ہوگا ۔ لیکن اسے ’’جااے ‘‘ لکھنے کی بجاے ’’جائے ‘‘ لکھا گیا۔گویا ’’جائے ‘‘کے املا میں شامل ہمزہ دراصل الف ہے اور اسے ’’الف ‘‘اور’’ ے ‘‘کے درمیان میں لکھا ہوا ہونا چاہیے۔ یعنی اسے اصولاًیوں لکھنا چاہیے : ’’جا ء ے‘‘ مگر ہمزہ کو سطر پر لکھنے کی بجاے اوپر اٹھا کر لکھا گیا ہے، اگرچہ ڈاکٹر عبدالستا ر صدیقی جیسے فاضل ِ اجل ّنے اردو املا کی اصلاح کے ضمن میں تجاویز پیش کیں تو کہا کہ ایسے الفاظ مثلاً آئے ، جائے وغیرہ میں ہمزہ کو اوپر لکھنے کی بجاے الف اور یاے مجہول(ے) کے درمیان لکھا جائے یعنی ان کو’’ آء ے‘‘ ،’’ جاء ے‘‘ وغیرہ لکھا جائے ۔ لیکن جہاں ان کی بعض تجاویز کو قبول کرلیا گیا وہاں اس تجویز کو پذیرائی نہیں ملی۔ لیکن یہ املا (یعنی ہمزہ کو اوپر اٹھا کر لکھنا)اب رائج و مقبول ہے اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے لہٰذا اسے بدلنے کی ضرورت نہیں۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے الفاظ کے املا میں ہمزہ آخر میں آتا ہے، یعنی’’ آ ے ء‘‘ وغیرہ۔ یہ بات درست نہیں ہے اور درست املا ’’آ ء ے‘‘، ’’جا ء ے ‘‘ وغیرہ ہے۔ بس ہم یہ کرتے ہیں کہ ہمزہ کو اوپر اٹھا کر لکھتے ہیں اور اسی لیے کچھ لوگوں نے ہمزہ کو ’’محض علامت ‘‘کہنا شروع کردیا ہے۔ لیکن ہمزہ محض علامت نہیں ہے ۔ یہ اردو کے حروف ِ تہجی میں شامل ہے اور ترتیب میں ’’ہ‘‘ اور ’’ی ‘‘کے درمیان آتا ہے یعنی ترتیب یہ ہوگی : م۔ن۔ و۔ ہ۔ ء۔ ی۔ ے۔
۶۔آزمائش ، نمائش، فرمائش وغیرہ کے ضمن میں رشید حسن خاں صاحب نے فارسی کی سند دی ہے کہ فارسی میں ایسے موقعوں پر ہمزہ کی بجاے ’’ے‘‘ لکھی جاتی ہے یعنی آزمایش، فرمایش، نمایش وغیرہ۔ عرض یہ ہے کہ اردو کے لیے فارسی کی سندلانا بنیادی طور پر غلط ہے۔ اگر فارسی کی سند دیں گے تو پھر ہر معاملے میں دی جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر اردو لکھنے کی ضرورت ہی کیا؟پھر فارسی ہی کیوں نہ لکھی جائے۔ ہاں جب فارسی لکھیں گے تو فارسی کے اصولوں کی ضرور پیروی کی جائے گی۔ سرِ دست اردو لکھ رہے ہیں لہٰذا اردو کے اصولوں پر عمل ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ ان الفاظ میں ہمزہ لکھنے ہی سے اس کا وہ تلفظ پیدا ہوتا ہے جو اردو میں رائج ہے یعنی مثلاً فرمائش کا صحیح تلفظ ’’فرما اِش‘‘ہے۔ گویا اس میں بھی ہمزہ الف کے قائم مقام کا کام کررہا ہے اور ہمزہ کی بجاے ’’ی‘‘ لکھنے سے اس کا تلفظ ’’فرما یِش‘‘ کرنا پڑے گا یا ’’فرما یَش‘‘۔ اور یہ دونوں اردو کے تلفظ نہیں، فارسی کے ہوں تو ہوں۔
گویا درست املا یوں ہوگا:نمائش، فرمائش، آزمائش، ستائش، فہمائش، آلائش، آسائش، آرائش، گنجائش۔