• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو بہت سے خونی رشتوں سے نوازا ہے، جس میں ماں باپ کے بعد سب سے طاقتور رشتہ ’’بہن بھائی ‘‘ کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب رشتوں میں سب سے طویل رشتہ ہے جو عموماً پیدائش سے لیکر زندگی کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔

بہن بھائی ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں ، لڑتے جھگڑتے ہیں، سوتے جاگتے ہیں، ہنستے بولتے ہیں اور ان کی آپس کی یہ محبت ایک دوسرے کو طاقت فراہم کرتی ہے۔ اب میں آتی ہوں اپنے دلچسپ مشاہدے کی طرف جو شاید آپ لوگوں کو سو فیصد تو نہیں لیکن اسی نوے فیصد ضرور صحیح لگے گا۔ 

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سب بہن بھائی شکل و صورت ، قدو قامت اور رنگ و روپ میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہونے کے باوجود کوئی نہایت گورا چٹا ہوتا ہے تو کوئی سانولا سلونا ، کوئی لمبا ہوتا ہے تو کوئی چھوٹے قد کا رہ جاتا ہے ، کوئی بڑی بڑی غزالی آنکھوں والا تو کوئی چھوٹی چھوٹی آنکھوں والا ہوتا ہے ۔ 

ظاہر ہے کہ ان سب بہن بھائیوں کے تمام نقش ونگار بھی ان کو کہیں نہ کہیں سے وراثت میں ہی ملے ہوتے ہیں جس کو ’’ جینز ‘‘ میں ملے کہا جاتا ہے لیکن ہمارے اس حسن پرست معاشرے کا کیا کیا جائے جو سب سے پہلے ظاہری حسن دیکھ کر چشم زدن میں اچھے برے کا فیصلہ کرلیتا ہے اور یہ فیصلہ کر کے اپنے تک نہیں رکھتا بلکہ اس کا اعلان بھی کردیتا ہے۔ مثلاً چھوٹی چھوٹی بچیوں کے سامنے ،’’تمہاری دوسرے نمبر والی بیٹی تو اتنی خوبصورت ہے جوان ہوکر غضب ڈھائے گی ‘‘۔

ساتھ ہی ماں کو مشورہ بھی مل جاتا ہے کہ ’’بڑی بیٹی کی شادی جلدی کردینا ورنہ دوسری کے سامنے اسے کوئی پسند نہیں کرے گا ‘‘۔یا پھر اگر دو تین بھائی ہیں تو ان میں سے گورے چٹے اچھی شکل والے بچے کو ’’شہزادہ ‘‘ ، ’’ پرنس ‘‘ کہہ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ اکثر اس بچے کے سامنے حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ تو بہت ہی خوبصورت ہے یہ کس پر گیا ہے ؟ پیشن گوئی کردی جاتی ہے کہ یہ تو ’’ماڈل ‘‘ بنے گا یا فلموں میں ’’ہیرو ‘‘ آئے گا۔ 

بچے لوگوں کی باتیں سنتے ہیں اور سن کر انکا اثر بھی لیتے ہیں۔ نتیجتاً بچپن سے ہی لوگوں سے اپنی تعریفیں سن سن کر بچے خود پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر والدین لوگوں کی اس قسم کی باتوں سے خوش ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے ان کی اولاد کی تعریف ہورہی ہوتی ہے اس لئے انہیں اچھا لگتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ ماں خود  ’’خوبصورت بچے ‘‘ کو اپنے دوسرے بچوں پر فوقیت دے رہی ہوتی ہے جو زندگی میں آگے جاکر بچوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ لڑکیاں اپنے آپ کو سچ مچ کوئی شہزادی سمجھنے لگتی ہیں ۔ ناز نخرہ ، دوسروں سے خود کو برتر سمجھنا یعنی ان کارنگ و روپ انہیں غرور میں مبتلا کر دیتا ہے جب ہی شاعر نے کہا ہے کہ:

خودپسندی اس قدر اچھی نہیں

سامنے ہر دم دھرا ہے آئینہ

اور عملی زندگی میں یہ غرور انہیں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی تکلیف پہنچنے کا باعث بنتا ہے ۔ اسی طرح لڑکے اپنے خوبصورت خدوخال اور قدوقامت کے فخر میں سچ مچ اپنے آپ کو کوئی شہزادہ یا نواب سمجھنے لگتے ہیں اور زیادہ تر ’’نواب بے ملک ‘‘ ثابت ہوتے ہیں یعنی خوبصورتی کے نشے میں کچھ نہیں کر پاتے کبھی کبھی یہ شہزادے ’’ پریوں ‘‘ میں گھرے رہنا بھی پسند کرتے ہیں ۔ 

ان کی خود پسندی خود سری میں بھی بہت جلد تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسی لئے زیادہ تر خود پسند لوگ خود سر بھی ہوتے ہیں اور یہ خودسری انہیں عملی زندگی میں آگے نہیں بڑھنے دیتی ۔ ہمارا مذہب ہمیں زبان کو کنٹرول کرنا سکھاتا ہے ہم سب کو اس بات پر سختی سے عمل کرنا چاہیے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کی شکل وصورت کی ان کے اپنے بہن بھائیوں کے سامنے اس طرح تعریف نہ کریں کہ وہ تعریف سن کر پہلے خود پسند اور پھر خود سر بن جائیں اور ان کے دوسرے بہن بھائی احساس کمتری میں مبتلا ہوں ۔

اس پورے معاملے میں والدین پر تو بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اگر ان کا ایک بچہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ خوش شکل ہے تو کبھی اس کو احساس برتری میں مبتلا نہ ہونے دیں اور لوگوں کو بھی نرمی سے ایسی باتیں کرنے سے روکیں، جس سے دوسرے بچوں کے احساسات مجروح ہوں اور اپنے خوبصورت بچے کو ہمیشہ سکھائیں کہ :

روبرو چہرے کی توصیف پسندی سے پرے

خود کو کردار کے آئینے میں رکھ کر دیکھو