• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یسری اصمیٰ

آدھی رات کو فون کی میسج ٹون پر چونک کر اسکرین دیکھی۔ یونیورسٹی کے زمانے کی ایک پیاری لڑکی کا نام جگمگا رہا تھا۔ ’’میں بہت پریشان ہوں‘‘۔ پیارا ہنستا مسکراتا چہرہ نظروں میں گھوم گیا۔ ’’خدا خیر کرئے‘‘۔ سہیلی بھی بہن جیسی ہوتی ہے چاہیں تو بات شئیر کر سکتی ہیں۔ انشااللہ آپ کی بات ہمیشہ امانت رہے گی میرے پاس‘‘۔ دوسری جانب الجھن آمیز ہچکچاہٹ دیکھ کر تسلی دی۔ زخم یک دم کسی کے سامنے کھول کر رکھ دینا یقیناً آسان نہیں ہوتا۔ 

کہنے کی دیر تھی کہ ہچکیوں سسکیوں کے ساتھ جیسے کوئی کانچ بکھر سا گیا۔ ’’میں کچھ بھی کرلوں وہ خوش نہیں ہوتیں‘‘میں سب کرتی ہوں ,سب کا خیال رکھتی ہوں , مہمانوں کی آگے بڑھ کر مکمل خوشدلی سے تواضع کرتی ہوں اپنے لحاظ سے تو ہر کسی کا اپنی ذات سے بڑھ کر خیال رکھتی ہوںخدمت کرتی ہوں لیکن کوئی خوش نہیں ہوتا۔

تنقید ،نکتہ ،چینی طنز تو ہر وقت ہوتا ہے لیکن کبھی نہ ایک جملہ تعریف، نہ ایک مسکراہٹ، نہ کبھی کوئی دعا، ناقدری سی ناقدری ہے۔ ہر رات اگلی صبح کا خیال مجھے ہولاتا ہے پھر وہی نخوت زدہ رویے ،ہر حسن اخلاق اپنا حق سمجھ کر قبول کرنا۔ میں نفسیاتی مریض بن جاؤں گی یہاں۔ وہ بہت دیندار ہیں نمازیں ، تہجد دعائیں وظیفے عبادات سب دیکھ کر رشک آتا ہے لیکن یہ سب ان کے دل کو نرم کیوں نہیں کرتا ان کو ان کےرویے کی بدصورتی کا احساس کیوں نہیں دلاتا۔ ’’تکلیف کی ایک لہر تھی جو کہیں دل میں اُٹھی۔

کیسے ایک ہنستی مسکراتی لائق فائق لڑکی روتی بلکتی اپنی بقا کی جنگ لڑتی لڑکی میں تبدیل ہوئی۔ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا سوائے چند تسلیوں کے۔ اچھے وقت کی اُمید دلانے کے۔ صبر کے ساتھ وقت گزارنے کے مشورے اور اللہ کے آگے دل کھول کر رکھ دینے کے سوا کیا کہا جاسکتا تھا۔اپنے دل کا بوجھ بانٹ کر وہ کچھ دیر کے لیے مطمئن ہو گئی۔ لیکن پیچھے بڑی تلخ حقیقتیں چھوڑ گئی۔ 

رشتوں میں تنگ دلی، ناقدری ، احسان فراموشی، ناانصافی کیسے کسی کی ذات کے پرخچے اڑا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ کہانی کسی ایک دو لڑکیوں کی نہیں ہے ،یہ کہانی ہمارے اس معاشرے میں بسنے والی ہر دوسری لڑکی کی کہانی ہے۔ شادی جیسے خوبصورت بندھن میں بندھ کر آنے والی بیشتر لڑکیاں بلکہ بیشتر جوڑے اس بندھن سے لطف اندوز ہونے کے بجائے گھر خاندان کے دیگر افراد یا عرف عام میں سسرالی رشتوں کے رویوں کی بنا پر ایک پیچیدہ صورتحال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 

ان حالات کی بدولت اکثر نہ تو میاں بیوی کے درمیان ذہنی مطابقت جنم لے پاتی ہے اور نہ وہ محبت و مُودّت یعنی پیار ،محبت ،دوستی جو اس رشتے کی اصل روح ہے۔ شادی کے بعد ابتدائی سال عام طورپر نئی آنے والی کے لیے سخت ترین امتحان کے سال ہوتے ہیں جن میں وہ اپنے سسرال کا دل جیتنے کے لیے ہر جتن کرتی ہے اور شوہر زن مریدی کے طعنوں سے بچنے کے لیے چاہ کر بھی اکثر اس کی حمایت نہیں کر پاتا یا خود بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر ممتحن بن کر بیوی کے ہر عمل کو کڑی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے۔ 

یہ رویے اس رشتے کو ایک بوجھ بنا دیتے ہیں۔ وہ ہڈی جو نہ اگلی جا سکے نہ نگلی جاسکے۔ ان تکلیف دہ حالات سے گزر کر کتنی ہی کومل من موہنی، کھلکھلاتی گلاب جیسی لڑکیاں مرجھا جاتی ہیں۔ یہ اعصاب شکن جنگ جو ان کے نئے رشتے ان پر مسلط کرتے ہیں ان کی شخصیت کو تباہ کر دیتی ہے۔ اس لیے خدارا۔ بس اس قدر گزارش ہے۔ جنت جیسے گھر بنانے کی خواہش لیے کسی کے ماحول میں رچ بس جانے کا عزم لیے جب کوئی اچھی لڑکی کسی آنگن میں اترے تو اسکا ایسا سواگت نہ کریں کہ وہ زندگی سے ہی بیزار ہو جائے۔

یقین کریں جن لڑکیوں کو لا کر آپ ان کاکریا کرم کرتے ہیں وہ بھی آپ کی بیٹیوں کی طرح کسی کے دل کا ٹکڑا ہوتی ہیں۔ اگر فی زمانہ جب ایک طرف اچھی گھر بسانے والی سسرال کو اپنا لینے کی خواہش رکھنے والی لڑکیاں ملنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے اور ایسے میں آپ کےگھر اللہ نے اپنی رحمت سے آپ کی نسلوں کی امین آپ کے گھر کی رونق سب کو سمیٹ لینے کا جذبہ لیے کوئی اچھی نیک سیرت لڑکی بھیج دی ہے تو اس کی اچھائی کی قدر کریں۔ 

اس کی اچھائی کو اس کی کمزوری بنا کر اس کوخون کے آنسو نہ رلانے لگیں۔یہ پاگل ہوئی تو گھر آپ کے بیٹے کا بھی اجڑے گا آپ کی اپنی نسل بھی رل جائے گی۔ حسد اور تنگ دلی کی یہ آگ خود آپ کےگھر آپ کے خاندان آپ کی نسلوں کو اذیت دے گی۔ رشتوں میں خداخوفی کو جگہ دیں، تاکہ ایک ہی گھر کسی کے لیے جنت کسی کے لیے عقوبت خانے کسی کے لیے کشتی کے اکھاڑے کا درجہ نہ پالے۔