اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کو آگے بڑھانے والے ادارے یو این ای پی نے سال 2021ء کا ایوارڈ جو زمین کے چیمپئن کے نام سے موسوم ہے ماحولیات سدھار اور آلودگی میں کمی کے لئے جدوجہد کرنے والی خواتین کی ٹیم کو دیا گیا ہے۔ زمین کے چیمپئن کا ایوارڈ برائے سال 2021ء میں جن خواتین کو دیا گیا، ان میں یوگنڈا کی، ڈاکٹر گلاڈی اکسونا، جزیرہ باربوڈوس کی وزیراعظم مایا موٹلے، کینافاسو کی ماریہ کولوسنیکو ہیں۔
سمندری ماحولیات کی رضاکار خواتین کی ٹیم میں تیس سے زائد خواتین ہیں، یہ غیرسرکاری تنظیم ایک عرصے سے دُنیا کے سب سے خوبصورت سمندر خطّے کو جو گریٹ بیریئر ریف کہلاتا ہے اور سات ملین مربع کلومیٹر پر محیط ہے، کام کر رہی ہیں۔ یہ کورل ٹرینگل کا خطّہ درحقیقت آسٹریلیا کے ساتھ مغرب میں بحرالکاہل کا سمندری خطّہ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں ہے، شمال میں فلپائن اور پاپوائے نیوگنی اور جزیرہ فیجی مشرق میں واقع ہے۔
گریٹ بیریئر ریف جو مونگے اور مرجان کی چٹانوں سے گھرا ہوا ہے، بحرالکاہل اور بحرہند کے اہم تجارتی روٹ کو ملاتا ہے، اس وجہ سے بھی سات ملین مربع کلومیٹر سمندری خطّے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ مگر آسٹریلیا کے سات بڑے دریائوں کے آلودہ پانی نے اس آبی خطّے کو تیزی سے آلودہ کرنا شروع کر دیا ہے، جس کی وجہ سے دُنیا کا سب سے حسین اور طویل گریٹ بیریئر کا خطہ آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خلاء سے کورل ٹرینگل اور دیوار چین کو دیکھا جا سکتا ہے، مگر اقوام متحدہ سمیت دیگر اہم غیرسرکاری تنظیموں کو شدید تشویش ہے کہ آسٹریلیا اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود گریٹ بیریئر ریف کے قدیم ترین اور حسین ترین خطّے میں سمندری آلودگی میں اضافے کو کم کرنے یا روکنے میں ناکام نظر آتا ہے۔
دُنیا کے آثار قدیمہ کی دیکھ بھال کرنے والے عالمی ادارہ ورلڈ ہیری ٹیج نے کہا کہ دُنیا کے آٹھویں عجوبے اور حسین ترین سمندری خطّے کو محفوظ بنانے کے لئے جدوجہد کرنا سب کا فرض ہے۔ عالمی آثار قدیمہ کے حالیہ کنونشن میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ، آسٹریلیا اپنے تمام ذرائع استعمال کر کے گریٹ بیریئر ریف کو تحفظ فراہم کرے، آلودگی پر قابو پائے۔ سٹریلیا کے شمالی شہروں میں صنعتی کارخانوں کا طویل سلسلہ قائم ہے۔
ان کارخانوں کا پانی دریائوں میں بہایا جا رہا ہے پھر یہ پانی سمندر میں گر رہا ہے جس سے یہ حسین ترین سمندری خطّہ آلودہ ہو رہا ہے اور اس کو شدید خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ اس کو تحفظ دینا ضروری ہے۔ عالمی تحفظ آثار قدیمہ کا ادارہ بھی تشویش میں مبتلا ہے کہ 2016ء میں آسٹریلیا کو مطلع کر دیا گیا تھا کہ گریٹ بیریئر ریف کے سمندری علاقے میں آلودگی کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے اس کو روکا جائے مگر مقامی انتظامیہ اور حکومت نے اس ضمن میں خاطرخواہ کارروائی نہیں کی جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی غیرسرکاری تنظیمیں اس حوالے سے آواز اُٹھاتی رہی ہیں مگر حکومت نے اس حوالے سے نہ قانون سازی کی اور نہ کوئی جامع پالیسی وضع کی۔
تاہم ملینزیا خواتین کی ٹیم نے اس ضمن میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر کے 2021ء کے ایوارڈ اپنے نام کر لئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس گریٹ بیریئر ریف کے سمندری علاقے میں انواع و اقسام کے سمندری پودے، مچھلیاں، جھینگے اور بے شمار سمندری حیاتیات پائی جاتی ہیں جن کی اقسام کو شمار کرنا مشکل ہے۔ موسمی تغیّرات کے حوالے سے اب کچھ اقدام کئے جا رہے ہیں مثلاً اس وقت دُنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ماحولیات میں سُدھار لانا اور آلودگی میں اضافے کو روکنا ہے۔ اس سلسلے میں دُنیا کے بیش تر تعلیمی اور تحقیقی اداروں نے شارٹ کورس کا آغاز کر دیا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی نے ماحولیات کے حوالے سے خصوصی کورس میں داخلے دینا شروع کر دیئے ہیں۔ حالیہ موسمی تبدیلیوں کے جائزے میں ایمزون کے جنگلات آسٹریلیا کے جنگلات کی آگ اور انڈونیشیا، ملائیشیا سے فلپائن میں طوفانی بارشوں سمیت افریقی ممالک میں ژالہ باری، بارشوں سمیت کینیڈا وغیرہ میں برفباری کی خبریں عام ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقوں خاص طور پر کوہ مری کے علاقے میں حالیہ زبردست برفباری نے سب کو چونکا دیا ہے۔ یہ موسمی تغیّرات کا شاخسانہ ہے، ہمارا محکمہ موسمیات اس سے غافل رہا۔ ادارے کارکردگی میں صفر رہی۔ دُنیا کے بیش تر ممالک میں اسکولوں کی سطح پر بچوں اور نوجوان طلبہ کو ماحولیات، موسمی تغیّرات اور اس بگاڑ کے مضمرات سے آگہی فراہم کرنے کے لئے نصاب میں قدرے رَدّ و بدل کیا جا رہا ہے۔
دُنیا کی اہم شخصیات اور اقوام متحدہ بار بار پوری دُنیا کو خبردار کر رہے ہیں کہ اپنے اپنے سیاسی مفادات، آپس کی رنجشیں اور تنازعات کو فی الفور تیاگ کر کرّۂ اَرض اور انسانیت کے تحفظ کے لئے ایک ہو جائو۔ کبھی سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کا نعرہ تھا کہ دُنیا کے مزدورو ایک ہو جائو مگر اب اس میں ماحولیات کی صورت حال نے بڑی تبدیلی کر دی ہے اور آج کا نعرہ ہے کہ ’’دُنیا کے تمام سربراہان ایک ہو جائو۔‘‘
اس تمام تر صورت حال میں دُنیا کو حال ہی میں ماحولیاتی بگاڑ نے وبائی امراض بھی سر پر مسلط کر دیئے ہیں۔ دو ڈھائی سال میں کورونا وائرس سے 56 لاکھ افراد ہلاک ہوگئے اور ٹریلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔ تمام معاشروں کی معاشرت میں تبدیلیاں رُونما ہوگئیں۔ اب اس کی نئی لہر، اومی کرون تباہی پھیلا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارۂ صحت نے انکشاف کیا ہے کہ مزید وبائی بیماریاں پنپ رہی ہیں جن کے حملوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے، مگر ساتھ ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں بھی بعض بااثر طبقات موسمی تغیّرات اور ماحولیات کے مسائل کو محض سائنس دانوں کے ایک گروہ کا پروپیگنڈہ قرار دیتے ہیں۔
حال ہی میں گلاسگو اور جی۔20گروپ کی کانفرنس میں ترقّی پذیر ممالک کے زیادہ تر سربراہان مملکت نے امیر ممالک کو آلودگی میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ وہ تمام مشینری برقی آلات اور زرعی ادویات کا زیادہ استعمال کرتے ہیں جس سے آلودگی پھیلتی ہے۔ اس فہرست میں امریکہ، چین، بھارت اور برازیل سرفہرست ہیں، لہٰذا ان ممالک کو ماحولیات کے بین الاقوامی فنڈز میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینا چاہئے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کانفرنس میں اس حوالے سے نمایاں رہے کہ ان کے دو بڑے حریف چین کے صدر اور روس کے صدر نے شرکت نہیں کی۔
اس مسئلے پر امریکی صدر بائیڈن نے ان دونوں پر نکتہ چینی کی۔ امریکی صدر نے کہا کہ امریکہ بہت تیزی سے متبادل انرجی اورسولر انرجی کے ضروری اقدام کر رہا ہے اور امریکہ کے بیشتر بڑے صنعتی اداروں نے ماحولیات میں سُدھار اور آلودگی میں کمی کرنے کے لئے بہت کچھ کیا اور مزید کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بین الاقوامی فنڈ برائے ماحولیات میں ایک سو ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا۔
کہا جاتا ہے کہ اس ایک سو ملین ڈالر کی منظوری کانگریس نے دی ہے۔ جرمنی کی، چانسلر انجیلا مرکل نے کہا کہ کرّۂ اَرض کا تحفظ ہم سب کی بلالحاظ نسل، مذہب اور زبان فرض ہے، یہ مسئلہ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ پوری انسانیت اور ہماری زمین کا ہے۔ آئندہ نسلوں کے تحفظ کا ہے، ہمیں اپنی نسلوں اور ان کی بقا کے بارے میں سوچنا ہے۔ جرمنی نے سولر انرجی اور متبادل انرجی پر بہت کام کیا ہے دُوسروں کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہئیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ یا عالمی گرماہٹ عالمی دہشت گردی سے کئی گنا خطرناک ہے اور یہ پوری انسانیت کا اوّلین مسئلہ ہے۔ ہم اس گھمبیر مسئلے سے آنکھیں نہیں چُرا سکتے۔ پینے کا پانی کم ہو رہا ہے۔ پانی آلودہ ہو رہا ہے، فضا آلودہ ہو رہی ہے، کاروں کی تعداد گزشتہ بیس برسوں میں تین گنا بڑھ چکی ہے۔ ایئرکنڈیشن ریفریجریٹر اور دیگر برقی آلات ہمارے اطراف کی فضا کو متاثر کر رہے ہیں، زرعی کھاد فصلوں پر چھڑکنے والی ادویات، فصلیں بوتے وقت زرعی زمین پر کیمیکل کا چھڑکائو یہ سب نہایت مضر ہیں جو زمین کو شدید متاثر اور آلودہ کر رہے ہیں، پھر کارخانوں، فیکٹریوں کا استعمال شدہ آلودہ پانی جس کو سمندر میں بہا دیا جاتا ہے وہ آبی حیاتیات کو بُری طرح متاثر کر رہے ہیں ۔
آبی حیات اور کئی قسم کی مچھلیاں رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہیں۔ فضا میں کارخانوں، ٹرانسپورٹ، فضا میں اُڑنے والے ہزاروں طیاروں کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے، بہت سے نایاب پرندے معدوم ہو چکے ہیں۔ سانس لینے میں دُشواری ہوتی ہے۔ پھیپھڑوں کی بیماریاں اور کینسر پھیل رہا ہے۔ آنکھوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم نظام شمسی اور اطراف میں واحد سیّارہ ہیں جو نہ صرف خوبصورت ہے بلکہ اس پر صرف ہم بستے ہیں اور واحد آباد سیّارہ ہے۔
ہم نے خلائی جہازوں اور دیوہیکل ٹیلی اسکوپس کے ذریعے اپنی کہکہشاں اور اطراف کا مشاہدہ کیا اور مزید کر رہے ہیں مگر زندگی کہیں نظر نہیں آتی۔ ہم نے تخیّلاتی خلائی مخلوق کے بارے میں اَن گنت کہانیاں گھڑلیں، ناولیں لکھ دیں اور فلمیں بنالیں مگر خلائی مخلوق سے تاحال کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ امریکی خلائی ادارے کے ماہرین اور بیش تر سائنس دانوں کا مشورہ اور انتباہ ہے کہ اگر کوئی خلائی مخلوق ہے اور وہ ہم تک پہنچ گئی تو سب سے پہلے وہ ہمیں ختم کر دے گی ،وہ کبھی ہماری دوست نہیں ہو سکتی ،اس لئے اس کی تلاش چھوڑ دو۔ شہرۂ آفاق سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ کا آخری پیغام تھا کہ زمین کے سپوتو، تم زمین پر پیدا ہوئے ہو تم زمین کی مخلوق اگر کسی سیّارے پر پہنچ کر وہاں آباد ہونے کی خواہش رکھتے ہو تو اس مسئلہ کو بھول جائو کیوں کہ انسان کسی اور جگہ زندہ نہیں رہ سکتا۔
واقعی یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ ہم خلائوں میں نئے سیّارے یا زندگی تلاش کرنے کے لئے بھٹک رہے ہیں، سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور اس حسین منفرد سرزمین کرّۂ اَرض کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ ستم ظریفی نہیں ہے تو پھر کیا ہے۔ زمین انسانیت اور اس پر موجود تمام حیاتیات کی ماں ہے، پالن ہار ہے۔ قدرت کا عظیم حسین اور منفرد تحفہ ہے۔ انسانوں کو اس کی قدر اور فکر کرنا ضروری ہے۔ سب سے بڑی اہم بات یہ ہے کہ ہم اس کے نگراں ہیں، یہ ہمارے پاس آئندہ نسلوں کی امانت ہے جس میں ہم کوئی خیانت نہیں کر سکتے، مگر افسوس کہ ہم جنگلات کاٹ کر لکڑی فروخت کر رہے ہیں اور قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور بھی بہت کچھ غلط کر رہے ہیں۔
پوپ فرانسس نے گلاسگو کانفرنس کے شرکاء کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ اس حسین سرزمین اور اس پر موجود حیاتیات کو ماحولیات اور موسمی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچانے کے لئے فوری اقدام کریں، کرّۂ اَرض کے تحفظ کے لئے سب ایک ہو جائو۔ آلودگی میں اضافہ کے ہم سب ذمہ دار ہیں اگر ہم نے ابھی اس وقت کچھ نہ کیا تو پھر یہ زمین جانداروں کے رہنے کے قابل نہیں ہوگی۔ واقعہ یہ ہے کہ پوپ فرانسس سے شہزادہ چارلس، ملکہ ایلزبتھ سے شہزادہ محمد سلمان اور صدر جوبائیڈن سے عمران خان تک تمام اہم شخصیات زمین کو قدرتی آفات اور خطرات سے محفوظ رکھنے کی اپیلیں کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودگی میں بتدریج اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ کانفرنسیں، سیمینارز، مذاکرات اور بہت کچھ کرنے کے باوجود بہت کچھ سامنے نہیں آیا، صرف بگاڑ کی خبریں اور رپورٹس ہیں، جبکہ سائنس دان ، ماہرین ماحولیات اور ماہرین اَرضیات سب ہی دُنیا کو خبردار کر رہے ہیں، مگر لگتا ہے اکثریت پر کوئی خاص اَثر نہیں ہو رہا ۔
بیسویں صدی کے تیسرے عشرے سے اس ضمن میں خبریں عام ہو رہی تھیں، ماحولیات پر اور آلودگی میں اضافہ پر کھل کر بہت کچھ کہا جا رہا تھا مگر آگہی نہ ہونے کے برابر تھی اور اب بھی لگ بھگ اَسّی نوّے برس گزرنے کے باوجود عوام میں موسمی تغیّرات کے نقصانات اور قدرتی ماحول میں بگاڑ کے سلسلے میں آگہی کا فقدان ہے۔ آگہی کےلئے تمام میڈیا ہائوسز، تمام ذرائع اور مساجد، کلیسا، مندر اور گوردواروں میں پیغامات عام کئے جائیں، بچوں کو، طلبا کو عام افراد کو بتایا جائے، انہیں ان کی زبانوں میں سمجھایا جائے شاید کوئی بات بن جائے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتھونی گیٹریس نے گلاسگو کی عالمی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ، یہاں موجود ہر فرد اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ ہماری پبلک ٹرانسپورٹ، لاکھوں کاروں، مال بردار ٹرکوں، ریل گاڑیوں اور دیگر گاڑیوں سے نکلنے والا کثیف دُھواں، ناک، حلق اور سینے کی مضر بیماریوں کا سبب بنتا ہے اس طرح کیمیکل وغیرہ کا آلودہ پانی سمندر یا کھیتوں میں بہایا جاتا ہے اس سے آبی حیاتیات کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ آلودہ پانی میں اُگی فصلیں مثلاً اناج، سبزیاں اور فروٹ وغیرہ سے انسانی صحت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، خاص طور پر بچّے بہت متاثر ہو رہے ہیں۔ پھر یہ کہ موسمی تبدیلیوں سے بعض خطّوں میں سیلابوں، طوفانوں، موسلادھار بارشوں اور خشک سالی سے بڑے نقصانات ہو رہے ہیں۔
امریکی تحقیقی ادارے ناسا نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ، رواں صدی کے آخری عشرے تک کرّۂ اَرض کا ایک تہائی حصہ خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ، گزشتہ پانچ ہزار برسوں میں کرّۂ اَرض کے قدرتی ماحول میں اس نوعیت کی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سراغ نہیں ملتا جس طرح کی تبدیلیاں سات آٹھ عشروں میں ہمارے سامنے آئی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر قدرتی ماحول میں تبدیلیاں ہوتی ہیں تو ان تبدیلیوں کا سدّباب بھی قدرتی طور پر ہوتا ہے۔
ایسا ماضی بعید میں بھی ہوتا رہا ہے، مگر جاری تبدیلیاں قدرتی نہیں ہیں، تبدیلیاں انسانی عمل کا نتیجہ ہیں، جس کی وجہ سے زمین پانی اور فضا میں زہریلے اور کیمیائی فاضل مادّے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں زمین کے فطری ماحول میں بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہم جس فضا میں سانس لے رہے ہیں یہ زہرآلود ہوتی جا رہی ہے، جو پانی ہم پی رہے ہیں وہ مضر صحت بنتا جا رہا ہے، جو اناج، سبزیاں، فروٹ ہم کھا رہے ہیں ،اس کے ساتھ زہریلے مادّے ہمارے جسم میں داخل ہو رہے ہیں، صرف یہی مسائل نہیں ہیں بلکہ آواز، شور کی آلودگی بھی ہماری سماعتوں کے لئے بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق شور بڑھتا جا رہا ہے، صبح تا رات تک ہم کسی نہ کسی نوعیت کی تیز آوازوں اور شور میں گھرے رہتے ہیں ،جس سے افراد پر اعصابی دبائو بڑھ رہا ہے۔ اعصابی دبائو خود ایک مضر بیماری ہے جو دَبے پائوں آ کر فرد کو گھیر لیتی ہے۔ آج کی جدید دُنیا کا طرز زندگی اس حد تک بدل چکا ہے کہ ہم کس طور اپنے اطراف اُٹھنے والے شور سے دامن نہیں بچا سکتے۔ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
جوہری تابکاری جو سب سے زیادہ مضر ہے، ایٹمی بجلی گھروں اور ایٹمی تنصیبات سے خارج ہوتی ہے ہرچند کہ تابکاری کو روکنے کے لئے جو طریقہ کار ہے اس پر بہت توجہ دی جاتی ہے، مگر چند برس قبل جاپان میں آئے سونامی کی وجہ سے جاپان کے ایٹمی گھروں کو زبردست نقصان پہنچا تھا جس پر دُنیا دَم بخود رہ گئی تھی، مگر واقعی جاپانی قوم منظم اور زیرک ہے جاپان نے بہت کم وقت میں معاملے کو سنبھال لیا تھا۔
تب سے ایٹمی بجلی گھروں پر انحصار کم سے کم کرنے کا رُجحان فروغ پانے لگا۔ اس ضمن میں جرمنی نے اپنی قابل ستائش کارکردگی دکھائی اور ایٹمی بجلی پر اپنا انحصار کم کرنے کے لئے سولر انرجی پر بھرپور توجہ دینی شروع کر دی اور اب جرمنی اور اس کے بیش تر ممالک سولر انرجی اور پن بجلی گھروں کی تعمیر کر رہے ہیں جو ہر طرح کی آلودگی سے پاک اور ماحول دوست تنصیبات ہیں۔
جن ترقّی پذیر ممالک میں ایٹمی تنصیبات ہیں ،یہ ترقّی یافتہ ممالک کی طرح تنصیبات کی دیکھ بھال اور ہنگامی صورت حال میں اس طرح مسئلے کو فوری حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں کیونکہ ترقّی یافتہ ممالک اور ترقّی پذیر ممالک میں تفریق زیادہ ہے۔ معاشی معاشرتی سماجی طور پر ترقّی پذیر ممالک خاصے پیچھے ہیں۔ ان ممالک کے عوام کے لئے دو وقت کی روٹی بڑا مسئلہ ہے ،وہاں قدرتی ماحول کے سُدھار، آلودگی میں کمی اور ماحول دوست معاشروں کی تعمیر جیسے مسائل ان کی نظر میں امیروں کے چونچلے ہیں۔
ترقّی پذیر ممالک کے عوام کی اکثریت قدرتی ماحول میں بگاڑ کو اہمیت نہیں دیتی ہے۔ ان ممالک میں موجود ایٹمی تنصیبات کو ماہرین ماحولیات بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں اور ترقّی یافتہ ممالک پر زور دیتے ہیں کہ ایسے پسماندہ ممالک کی معاشی اور فنّی طورپر مدد کی جائے۔ واضح رہے کہ گلاسگو کی عالمی کانفرنس میں فنڈز کے حصول اور تقسیم پر بعض سوالات اُٹھائے گئے تھے جس پر بعداز کانفرنس بھی مذاکرات جاری رہے۔
اس عالمی فنڈ میں سے ترقّی پذیر ممالک کو مالی مدد دی جائے گی کہ وہ ماحولیات میں سُدھار لانے اور آلودگی میں کمی کرنے کے اقدام کریں۔ مگر ترقّی پذیر ممالک میں تعلیمی، معاشی اور معاشرتی پسماندگی کے ساتھ آگہی اور سماجی شعور کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جو نہ صرف ان ممالک کی ترقّی کی راہ میں بڑی رُکاوٹ ہے بلکہ دُنیا کے لئے بھی قابل غور مسئلہ ہے۔
گلاسگو کانفرنس کے ایجنڈے میں اہم نکتہ یہ تھا کہ درجہ حرارت میں کس طرح 1.5 درجہ حرارت کم کیا جائے اور ا س کو آگے نہ جانے دیا جائے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر درجہ حرارت دو سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا اور پھر مزید آگے جائے گا اور خدشات ہیں کہ 2030ء تک کرّۂ اَرض بہت زیادہ قدرتی آفات کا شکار ہوگی۔ اس لئے درجہ حرارت کو 1.5 پر مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔ اس کے لئے آلودگی پر کنٹرول کرنا، گرین ہائوس گیسز کی مقدار کو کم کرنا ہے اور ہر ایسے اقدام کا سدّباب کرنا ہے جس سے قدرتی ماحول کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
بڑا مسئلہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ چین سب سے زیادہ قدرتی کوئلہ سے انرجی پیدا کرتا ہے۔ پھر بھارت اور برازیل ہیں۔ روس بھی قدرتی ایندھن کا بہت استعمال کرتا ہے۔ اس کےبعد دیگر ممالک ہیں۔ حال ہی میں برازیل نے قدرتی کوئلہ پر انحصار کرنے کے مسئلے پر نظرثانی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے جی20- اور گلاسگو کانفرنس میں کچھ وعدے کئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ بھارت ان پر کس حد تک قائم رہتا ہے۔ قدرتی کوئلہ کا استعمال وہاں بھی بہت ہے۔ حال ہی میں دیوالی کا تہوار تھا جس میں چراغاں کیا گیا، آتش بازی کی گئی اور بھارت کے آسمان آلودہ ہوتے رہے، پوری رات آلودگی میں اضافہ ہوتا رہا۔
بتایا جاتا ہے کہ دیوالی پر بھارتیوں نے تقریباً 1.2 ارب ڈالر پھونک ڈالے۔ اس پر بعض حلقوں کی جانب سے سخت تنقید بھی کی گئی ہے۔ ماحولیات اور موسمی تغیّرات کو مدنظر رکھتے ہوئے قوموں کو اپنے تہوار اور تقریبات میں پرانی روایات پر نظرثانی کرنا چاہیے۔
جرمنی کے ماحولیاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح کیمیاوی تجربہ اگر ناکام ہوتا ہے تو اس سے نقصان ہوتا ہے اس طرح نائٹروجن اور کارن گیسیز کا اخراج ہمارے سمندروں اور فضائوں کو متاثر کر رہی ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ان ماحول دُشمن گیسیز کا ملاپ سمندری گیسیز سے ہو رہا ہے جس کی وجہ سے سمندروں کا قدرتی نظام متاثر ہو رہا ہے اور شدید خدشہ ہے کہ چند برس بعد صورتحال بہت مخدوش ہو جائے گی۔
عالمی سطح پر مختلف ترقّی یافتہ ممالک کے تحقیقی ادارے اپنی اپنی رپورٹس اور جائزوں میں قدرتی ماحول میں بگاڑ، آلودگی میں اضافہ اور اس کے موسمی تبدیلیوں پر اثرات کے حوالے سے انکشافات کرتے ہیں مگر گھوم پھر کے بات وہیں آ کر پڑتی ہے کہ ان تمام ماحولیاتی مسائل کا سدّباب کون کرے گا۔ امیر ممالک اور ترقّی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کے پاس اپنے بہت سے مسائل ہیں جن کا تعلق عوامی مسائل سے کم کم ہوتا ہے وہ ماحولیات کے مسائل کی طرف آخری لمحوں میں مائل ہوتے ہیں۔
……قدرتی ماحول کے متاثر ہونے کا خدشہ……
گلاسگو کانفرنس کے ایجنڈے میں اہم نکتہ یہ تھا کہ درجہ حرارت میں کس طرح 1.5 درجہ حرارت کم کیا جائے اور ا س کو آگے نہ جانے دیا جائے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر درجہ حرارت دو سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا اور پھر مزید آگے جائے گا اور خدشات ہیں کہ 2030ء تک کرّۂ اَرض بہت زیادہ قدرتی آفات کا شکار ہوگی۔ اس لئے درجہ حرارت کو 1.5 پر مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔ اس کے لئے آلودگی پر کنٹرول کرنا، گرین ہاؤس گیسز کی مقدار کو کم کرنا ہے اور ہر ایسے اقدام کا سدّباب کرنا ہے جس سے قدرتی ماحول کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ یا عالمی گرماہٹ عالمی دہشت گردی سے کئی گنا خطرناک ہے اور یہ پوری انسانیت کا اوّلین مسئلہ ہے۔ ہم اس گھمبیر مسئلے سے آنکھیں نہیں چُرا سکتے۔ پینے کا پانی کم ہو رہا ہے۔ پانی آلودہ ہو رہا ہے، فضا آلودہ ہو رہی ہے، کاروں کی تعداد گزشتہ بیس برسوں میں تین گنا بڑھ چکی ہے۔
ایئرکنڈیشن ریفریجریٹر اور دیگر برقی آلات ہمارے اطراف کی فضا کو متاثر کر رہے ہیں، زرعی کھاد فصلوں پر چھڑکنے والی ادویات، فصلیں بوتے وقت زرعی زمین پر کیمیکل کا چھڑکائو یہ سب نہایت مضر ہیں جو زمین کو شدید متاثر اور آلودہ کر رہے ہیں، پھر کارخانوں، فیکٹریوں کا استعمال شدہ آلودہ پانی جس کو سمندر میں بہا دیا جاتا ہے وہ آبی حیاتیات کو بُری طرح متاثر کر رہے ہیں ۔
آبی حیات اور کئی قسم کی مچھلیاں رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہیں۔ فضا میں کارخانوں، ٹرانسپورٹ، فضا میں اُڑنے والے ہزاروں طیاروں کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے، بہت سے نایاب پرندے معدوم ہوچکے ہیں۔ سانس لینے میں دُشواری ہوتی ہے۔ پھیپھڑوں کی بیماریاں اور کینسر پھیل رہا ہے۔ آنکھوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔