چین نے فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کو خودنمائی قرار دیتے ہوئے، ان کی مزید منظوری اور تعمیر پر پابندی عائد کردی ہے۔ چین کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب وبائی مرض کے بعد دنیا بھر کے دفاتر خالی میزوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ایسے میں ماہرین اب یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا فلک بوس عمارتوں کا کوئی مستقبل ہے؟
90برس قبل، جب دنیا ایک عالمی وبائی مرض سے دوچار اور تباہ کن معاشی بدحالی کے دہانے پر تھی، اس وقت فلک بوس عمارت کا سنہری دور شروع ہوا۔ فلک بوس عمارتوں کے اِس نئے دور کی بنیاد کرائسلر اور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ نے رکھی تھی، جو اس وقت تک کی سب سے بلند تعمیرات تھیں اور انہوں نے عوام کے تخیل کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
1930ء میں کرائسلر بلڈنگ نے دنیا کی بلند ترین عمارت کا اعزاز حاصل کیا۔ ایک سال بعد، ایمپائر اسٹیٹ نے یہ اعزاز اپنے نام کر لیا، لیکن یہ بہت بڑی عمارت زیرِ استعمال آنے میں بہت سست ثابت ہوئی اور اتنی سست کہ اسے ’خالی اسٹیٹ بلڈنگ‘ کہا جاتا تھا۔ یہ عمارت اس وقت مرکزیِ نگاہ بنی جب1933ء میں ’’کنگ کانگ‘‘ فلم ریلیز ہوئی، جس میں ایک گوریلا اس عمارت پر چڑھ جاتا ہے۔ اس فلم کے آنے کے بعد لوگ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ میں دلچسپی لینے لگے تھے۔
فلک بوس عمارتوں کا دوسرا سنہری دور گزشتہ 20 سالوں سے جاری ہے، حالانکہ دنیا بھر میں ان پر تعمیراتی کام سست روی کا شکار ہے یا رُک گیا ہے۔ کونسل آن ٹال بلڈنگز اینڈ اَربن ہیبیٹاٹ کے مطابق، گزشتہ سال کے مقابلے 2020ء میں عالمی سطح پر مکمل ہونے والی بلند عمارتوں کی تعداد میں 20فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ چین میں سب سے زیادہ واضح ہے، جہاں ابھی تک فلک بوس ٹاورز تیز رفتاری کے ساتھ نمودار ہورہے تھے۔
تو کیا کووِڈ کے بعد کی دنیا میں بھی فلک بوس عمارتیں تعمیر ہوں گی؟
فلک بوس عمارتوں کو پہلے بھی نظرانداز کیا گیا ہے۔ 9/11کے بعد بلند عمارتوں کو مردہ قرار دے دیا گیا تھا، جوکہ ایک انتہائی بچگانہ پیشگوئی تھی۔ پچھلے 20 برسوں میں، ایک صدی کے مقابلے میں زیادہ فلک بوس عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں اور ان سخت عمارتی معیارات کی بدولت جوجڑواں ٹاورز پر حملوں کے بعد عالمی سطح پر اپنائے گئے تھے، وہ پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ، مضبوط اور سرسبز ہیں۔
کسی قوم کی خوش قسمتی ’دنیا کی سب سے بلند عمارت‘ کے اعزاز کے دعوے پر محور ہوسکتی ہے۔ جس طرح پیٹروناس ٹاورز نے کوالالمپور کو دنیا کے نقشے پر رکھا، اسی طرح برج خلیفہ، جوکہ زمین پر سب سے اونچا تعمیراتی ڈھانچہ ہے، نے دبئی کو ایک دور دراز صحرائی مقام سے ایک خوشحال عالمی منزل میں تبدیل کردیا۔ اب جدّہ ٹاور اپنی تکمیل کے بعد دنیا کی بلند ترین عمارت بن جائے گی۔
اس کے باوجود، ناقدین اب بھی فلک بوس عمارتوں کے فارمولا پر سوالات اُٹھا رہے ہیں: عمود میں آبادی کی کثافت +زمین کی مہنگی قیمتیں =فلک بوس عمارت۔ ابھی حال تک، تعمیرات کا یہ ایک عمومی فارمولا تھا۔ کامران معظمی WSPکے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں، جن کے پورٹ فولیو میں لندن کی بلند ترین عمارت (دی شارڈ)، امریکا کی بلند ترین عمارت (ون ورلڈ ٹریڈ سینٹر) اور ایشیا کی بلند ترین عمارت (شنگھائی ٹاور) شامل ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 500 میٹر بلند عمارت تعمیر کرنے کے پیچھے ایک خاص وجہ ہونی چاہیے۔ ’’آپ کو یہ سوال پوچھنا ہوگا کہ تعمیر کرنے کا ممکنہ سب سے بہترین اور سب سے زیادہ اقتصادی طریقہ کیا ہے؟ انتہائی اونچائی کی حامل عمارت ایک منزل بنا سکتی ہے، جیسا کہ دبئی میں لیکن شنگھائی یا مین ہٹن جیسے معروف شہروں میں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ آج ایک مشہور ٹاور کو نا صرف اس کی ظاہری شکل پر بلکہ اس کے کاربن کے استعمال پر بھی پرکھا جاتا ہے‘‘۔
ایک ٹاور اپنے شہر یا ملک کا آئیکون مقام بنتا ہے یا نہیں لیکن ہر کوئی فلک بوس عمارتوں کا پرستار نہیں ہے، خاص طور پر شیشے والے نئے ٹاورز۔ آرکیٹیکچرل ناقد ڈیوڈ بروسیٹ کہتے ہیں کہ شیشے والے فلک بوس ٹاور جمالیاتی آلودگی پیدا کرتے ہیں۔ ’’ہوا یہ ہے کہ عمارتوں کے ڈھانچے کو اونچے ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن آرکیٹیکچر کا قد چھوٹا ہوگیا ہے۔ لوگ افسردہ کردینے والے شہری مناظر سے گزرتے ہوئے تنگ محسوس کرتے ہیں، جہاں سے گزر کر انھیں روزانہ اپنے کام پر جانا پڑتا ہے‘‘۔
دراصل، کووِڈ-19نے ہر اس چیز کو ختم کردیا ہے، جس کی تمنا شہری زندگی میں کی جاتی تھی۔ پرجوش عوامی مقامات، پبلک ٹرانسپورٹ کا جال، ریستورانوں، عجائب گھروں اور کلبس تک آسان رسائی۔ لیکن اب شہری زندگی پھر سے واپس آرہی ہے اور فلک بوس عمارتوں کے معمار پُرامید ہیں کہ ان کی بھی واپسی ہوگی لیکن گزشتہ 20برسوں کے مقابلے میں ذرہ کم تیزرفتاری کے ساتھ۔
’’دفاتر کی طلب میں کمی نہیں آئی لیکن ایک دفتر میں لوگ جس طرح کام کرتے ہیں اور بیٹھتے ہیں، اس میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ آپ دفتر کے تمام ملازمین کے لیے پیر تا جمعہ والا شیڈول تصور نہیں کرسکتے۔ آپ کو اب کم لوگوں کے لیے زیادہ جگہ درکار ہوگی‘‘، معظمی کہتے ہیں۔
شہروں میں آؤٹ ڈور جگہوں کی طلب میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔ وبائی مرض نے طویل قامت عمارتوں کے بارے میں بنیادی سوچ کو بدل دیا ہے۔ ان عمارتوں میں کام کرنے والے لوگ اب ان میں لچک، حالات کے مطابق موافقت، فطرت تک رسائی اور سب سے بڑھ کر ایسی عمارتیں چاہتے ہیں جو توانائی خرچ کرنے کے بجائے فاضل توانائی پیدا کرتی ہوں۔