غالب کا قدیم ترین خط جو اَب تک دریافت ہوا ہے وہ مرزا تفتہ کے نام ہے اور اٹھارہ سو سینتالیس (۱۸۴۷ء)کا لکھا ہوا ہے۔ ابتدا میں ان کے خط لکھنے کی رفتار زیادہ نہ تھی لیکن بعد میں خط لکھنا غالب کے لیے ایک دل چسپ سرگرمی اور ان کی اردو نثر نگاری کے کمالات کے اظہار کا اہم ذریعہ بن گیا، یہی خطو ط آگے چل کر اردو نثر نگاری کا اہم سنگ ِ میل قرار پائے۔
اگرچہ غالب کی اردو نثر نگاری کی شہرت کا تاج محل ان کے خطوط کی بنیاد ہی پر کھڑا ہے مگر وہ ابتدائی طور پر اپنے خطوط کی اشاعت کے حق میں نہ تھے۔تاہم ا پنے اُن دوستوں، شاگردوں اور پرستاروں کے اصرار کے آگے ان کو ہتھیا ڈالنے پڑے جن کا خیال تھا کہ غالب کے خطوط ادبی نثر کا اعلیٰ نمونہ ہیں اور انھیں شائع کرکے محفوظ کیا جانا اور قارئین تک پہنچانا ضروری ہے۔
بہرحال ، غالب کے خطوط اپنے منفرد اسلوب، سادہ نثر ، ادبی نکتوں اور شگفتہ انداز کی وجہ سے اتنے مقبول ہوئے کہ تقریباً ڈیڑھ سو برس سے برابر ان کے خطوط کے مجموعوں کے مختلف ایڈیشن شائع ہورہے ہیں ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ غالب کے خطوط کے مجموعوں کی تدوین کی تاریخ کیا ہے اور مختلف مجموعوں کی کیا اہمیت اور افادیت ہے۔ اس ضمن میں ہم نے غالبیات کے محققین کے کاموں بالخصوص خلیق انجم کی کتاب سے یقینا بہت مدد لی ہے:
٭…مہر ِ غالب (۶۲۔۱۸۶۱ء)
غالب نے عبدالغفور سرورؔ کے نام کچھ خط لکھے تھے جن کا مجموعہ سرورؔ اور ممتاز علی خان نے مرتب کیا ۔ انھوں نے اس کے لیے غالب کی اجازت لینے کی زحمت بھی نہیں کی اور اس کا تاریخی نام مہر ِ غالب رکھا( جس سے ۱۲۷۸ کا ہجری سال نکلتا ہے) لیکن یہ مجموعہ غیر مطبوعہ ہی رہا۔
٭…انتخاب ِ غالب (۱۸۶۶ء)
یہ مختصر مجموعہ ایک انگریز افسر کی فرمائش پر غالب نے خود مرتب کیا تھا اور اس کا مقصد انگریزوں کو اردو سکھانے میں مدد دینا تھا۔ اس میں غالب کے صرف بارہ خطوط اور انتالیس اشعار شامل تھے۔
٭…عود ِ ہندی (۱۸۶۸ء)
معروف شاعر غلام غوث بے خبرؔ نے اٹھارہ سو اکسٹھ (۱۸۶۱ء)میں غالب کے خطوط غالب کی اجازت سے جمع کرنے شروع کیے تھے ۔ اس وقت تک غالب قائل ہوگئے تھے کہ ان کے خطوط کا مجموعہ شائع ہونا چاہیے۔لیکن اس کی تیاری میں اتنی تاخیر ہوگئی کہ غالب سے صبر نہ ہوسکا اور انھوں نے ممتاز علی خان سے مجموعے کی اشاعت کا کہا۔ ممتاز نے مہر ِ غالب کا متن بھی اس میں شامل کردیا اور اس طرح اس کا پہلا ایڈیشن اکتوبر اٹھارہ اڑسٹھ (۱۸۶۸ء)میں شائع ہوا۔یہ میرٹھ کے مطبع مجتبائی سے شائع ہوا۔غالب کے خطوط کا یہ پہلا باقاعدہ مجموعہ تھا اور اسے قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
٭…اردوے معلی (۱۸۶۹ء)
غالب کے خطوط کا دوسرا باقاعدہ مجموعہ چارسوستر (۴۷۰)خطوط پر مشتمل تھا اور اس کا پہلا ایڈیشن چھے مارچ اٹھارہ سو انہتر (۱۸۶۹ء)کو یعنی غالب کی وفات کے اُنّیس(۱۹) روز بعد شائع ہوا۔ اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی کا مرتبہ ایک ایڈیشن ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا۔
٭…مکاتیب ِ غالب (۱۹۳۷ء)
امتیاز علی خاں عرشی رام پوری نے والی ٔ رام پور کے نام لکھے گئے غالب کے ایک سو سترہ (۱۱۷)خط تحقیقی حواشی کے ساتھ شائع کیے۔ یہ مجموعہ پہلی بار بمبئی سے ۱۹۳۷ء میں منظر ِ عام پر آیا۔
٭…ادبی خطوطِ غالب (۱۹۳۹ء)
مرزا محمد عسکری نے غالب کے وہ خطوط یک جا کیے جن میں ادبی نکات پر مباحث تھے۔ نظامی پریس (لکھنؤ )نے یہ کتاب شائع کی۔
٭…خطوطِ غالب (۱۹۴۱ء)
مولوی مہیش پرشاد وہ محقق تھے جنھوں نے پہلی بار یہ سوچا کہ غالب کے تمام خطوط ، خواہ وہ مطبوعہ ہوں یا غیر مطبوعہ، جمع کرکے ان کا ایک مستند تنقیدی ایڈیشن شائع کیا جائے۔ اس کی پہلی جلد انیس سو اکتالیس (۱۹۴۱ء)میں الہٰ آباد سے شائع ہوئی لیکن اس کے بعد مہیش پرشاد چل بسے اور دوسری جلد کا مسودہ بھی گم ہوگیا۔ اس طرح اس کی ایک ہی جلد شائع ہوسکی۔
٭…نادراتِ غالب (۱۹۴۹ء)
میرن دہلوی نے غالب کے چوہتر (۷۴)غیر مطبوعہ خطوط کا ایک مجموعہ مرتب کیا تھا۔ یہ غیر مطبوعہ ہی رہا اور اس کا مسودہ میرن صاحب کے نواسے آفاق حسین آفاق تک پہنچا جنھوں نے اس پر مفید حواشی لکھ کر اسے کراچی سے انیس سو انچاس (۱۹۴۹ء)میں شائع کرایا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس میں انھوں نے غالب کے بانوے (۹۲) شاگردوں کے حالات ِ زندگی لکھے جس سے بعد کے محققین (مثلاً مالک رام نے اپنی کتاب تلامذہ ٔ غالب میں )بہت فائدہ اٹھایا۔
٭…خطوطِ غالب (۱۹۵۱ء)
غلام رسول مہر نے غالب کے خطوط دو جلدوں میں مرتب کرکے شائع کرائے۔ لیکن اس میں مکاتیب ِ غالب اور نادرات ِ غالب میں مطبوعہ خط شامل نہیں ہیں۔ اس کا ایک ایڈیشن ۱۹۶۹ء میں پنجاب یونیورسٹی نے بھی شائع کیا۔
٭…غالب کے خطوط (۲۰۰۰ء۔۱۹۸۴ء)
خلیق انجم نے ایک بہت قابل ِ قدر کام غالب کے تمام خطوط کو پانچ جلدوں میں مرتب کرکے کیا۔ اس کام کی بنیاد انھوں نے متنی تنقید کے اصولوں پر رکھی اور یہ جلدیں ۱۹۸۴ء سے ۲۰۰۰ء تک چھپتی رہیں۔ پہلی چار جلدوں میں خطوط مکتوب الیہ کی ترتیب سے پیش کیے گئے ہیں جبکہ پانچویں جلد میں تمام خطوط کی نشان دہی تاریخی ترتیب سے کی گئی ہے۔ خلیق انجم کا مرتبہ یہ نہ صرف غالب کے مکاتیب کا جامع ترین مجموعہ ہے بلکہ مستند ترین بھی ہے۔
٭…غالب کے جعلی خطوط
ممکن ہے کوئی صاحب اعتراض کریں کہ غالب کے خطوط کے اس مجموعے کا ہم نے ذکر نہیں کیا جو نادر خطوط ِ غالب کے عنوان سے لکھنؤ سے کاشانہ ٔ ادب نے ۱۹۳۹ء میں شائع کیا تھا ۔ وجہ اس کا ذکر نہ کرنے کی یہ ہے کہ غالب سے منسوب کیے گئے وہ خطوط جعلی تھے۔
اس مجموعے کے مرتب سید محمد اسمٰعیل رضا ہمدانی گیاوی تھے اور انھوں نے دعویٰ کیاکہ اس مجموعے میں شامل غالب کے ستائیس (۲۷)غیر مطبوعہ خطوط وہ ہیں جو غالب نے ان کے دادا کو لکھے تھے۔بظاہر ان خطوط کا اسلوب حیرت انگیز طور پر غالب سے مشابہ تھا اور بادی انظر میں غالب ہی کے قلم سے نکلے ہوئے لگتے تھے۔ لیکن تحقیق سے معلوم ہوا کہ مرتب نے غالب کے مطبوعہ خطوط سے کچھ جملے نکال کر ایک منطقی ترتیب سے جوڑ دیے تھے اور اس طرح یہ جعلی خطوط وجود میں آئے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ اس ہفتے قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی