غالب کا خط ، چوہدری عبدالغفور سرور کے نام
’’کوبرک صاحب بہادر ریزیڈنٹ دہلی اور استرلنگ صاحب بہادر سکرتر گورنمنٹ کلکتہ متفق ہوئے میرا حق دلانے پر ریزیڈنٹ معزول ہو گئے سکرتر گورنمنٹ بہ مرگ ناگاہ مر گئے۔ بعد ایک زمانے کے بادشاہ دہلی نے پچاس روپے مہینہ مقرر کیا۔ ان کے ولی عہد نے چار سو روپے سال ۔ ولی عہد اس تقرر کے دو برس بعد مر گئے۔
واجد علی شاہ بادشاہ اودھ کی سرکار سے بہ صلۂ مدح گستری پانسو روپے سال مقرر ہوئے۔ وہ بھی دو برس سے زیادہ نہ جئے۔ یعنی اگرچہ اب تک جیتے ہیں مگر سلطنت جاتی رہی… دلی کی سلطنت کچھ سخت جان تھی، سات برس مجھ کو روٹی دےکر بگڑی… اب جو والی دکن کی طرف رجوع کروں یاد رہے کہ متوسط یا مر جائے گا یا معزول ہو جائے گا او راگر یہ دونوں امر واقع نہ ہوئے تو … ریاست خاک میں مل جائے گی اور ملک میں گدھے کے ہل پھر جائیں گے۔
غالب کا خط ،مرزا ہرگوپال تفتہ کے نام
صاحب!
کیوں مجھے یاد کیا؟ کیوں خط لکھنے کی تکلیف اٹھائی؟ پھر یہ کہتا ہوں کہ خدا تم کو جیتارکھے کہ تمہارے خط میں مولوی قمر الدین خاں کا سلام بھی آیا اور بھائی منشی نبی بخش کی خیر و عافیت بھی معلوم ہوئی ۔ وہ توسپنسن کی فکر میں تھے، ظاہرا یوں مناسب دیکھا ہو گا کہ نوکری کی خواہش کی۔ حق تعالیٰ ان کی جو مراد ہو، برلا دے ۔
ان کو میرا سلام کہہ دینا بلکہ یہ رقعہ پڑھوا دینا۔ مولوی قمر الدین خاں صاحب کو بھی سلام کہنا۔ تم اپنے کلام کے بھیجنے میں مجھ سے پرسش کیوں کرتے ہو؟ چار جزو ہیں تو، بیس جزو ہیں تو، بے تکلف بھیج دو۔ میں شاعر سخن سنج اب نہیں رہا۔ صرف سخن فہم رہ گیا ہوں، بوڑھے پہلوان کی طرح پیچ بتانے کی گوں ہوں۔ بناوٹ نہ سمجھنا۔ شعر کہنا مجھ سے بالکل جھوڑ گیا۔ اپنا اگلا کلام دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ یہ میں نے کیوں کر کہا تھا۔ قصہ مختصر ، وہ اجزا جلد بھیج دو۔
غالب۔یکشنبہ 12 ایرپل 1858
علائوالدین علائی کے نام غالب کے ایک کا خط کا اقتباس
میاں میں بڑی مصیبت میں ہوں۔ محل سرا کی دیواریں گر گئی ہیں۔ پاخانہ ڈھ گیا۔ چھتیں ٹپک رہی ہیں۔ تمہاری پھوپھی کہتی ہیں: ہائے دبی، ہائے مری ،دیوان خانے کا حال محل سرا سے بدتر ہے۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتا۔ فقدان راحت سے گھبرا گیا ہوں چھت چھلنی ہے۔ ابر دو گھنٹے بر سے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے۔ مالک اگر چاہے کہ مرمت کرے، تو کیوں کر کرے؟ مینہہ کھلے تو سب کچھ ہو اور پھر اتنائے مرمت میں میں بیٹھا کس طرح رہوں ؟
اگر تم سے ہو سکتے تو برسات تک بھائی سے مجھ کو وہ حویلی، جس میں میر حسن رہتے تھے۔ اپنی پھوپھی کے رہنے کو اور کوٹھی میں سے وہ بالا خانہ مع دالان زیریں جوالہیٰ بخش خاں مرحوم کا مسکن تھا، میرے رہنے کو دلوا دو۔ برسات گزر جائے گی، مرمت ہو جائے گی ، پھر صاحب اور میم اور بابا لوگ اپنے قدیم مسکن میں آرہیں گے تمہارے والد کے ایثار و عطا کے جہاں مجھ پر احسان ہیں۔ ایک یہ مروت کا احسان میرے پایان عمر میں اور بھی سہی۔
غالب۔صبح یکشنبہ 27جولائی 1862ء
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ اس ہفتے قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی