• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں شام کی چائے پی رہی تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی دیکھا تو کزن نوشین کا فون تھا ، کزن بھی بہنوں کی طر ح ہوتی ہیں، ان سے بھی دل کی ہر بات کرلی جاتی ہے۔ ہاں ماریہ کیسی ہو؟ بہت دن ہوگئےکوئی تمہاری کوئی خبر ہی نہیں ہے سوچا۔ آج خود ہی کال کرلوں اور بتائو، سب ٹھیک ہے بچے کیسے ہیں؟ تھوڑی دیر رسمی اور ادھر اُدھر کی گفتگو کے بعد۔ دوسری کزن کے بارے میں باتیں کرنے لگی کہ وہ تمہارے بارے میں کچھ الٹی سیدھی باتیں کررہی تھی۔ میں نے بات سن کر ٹال دی۔ 

بات یہ ہے نوشین کو جب بھی فون کروں یا وہ خود فون کرے ،کسی کی تقریب میں ملے ،اُس کی عادت ہے۔ سب ہی کی برائیاں کرتی ہے ،اس کے پاس تو دوسروں کی شکایت کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں ہوتی ۔ہر کسی کے بارے میں منفی باتیں کرتی ہے کہ اس کو دیکھا تھا کہ اُس نےشادی میں کیسے کپڑے پہنےتھی ،کیسا میک اپ کیا تھا۔

اس کے تو بچے بھی بہت بد تمیز ہیں، بچوں کو ذرا تمیز نہیں سکھائی۔ وہ کیسی چالا ک ہے اپنے گھر کی کوئی بات نہیں بتاتی ،ہر وقت دوسروں کی ٹوہ میں لگی رہتی ہے۔ نہیں تمہیں کوئی غلط فہمی ہو ئی ہے وہ ایسی باتیں تو نہیں کرتی۔نہیں بھئی مجھے بھلا کیوں، کوئی غلط فہمی ہو گی ،میں نے تو جو سنا وہ ہی تمہیں بتا رہی ہوں۔

یہ کسی ایک نوشین کی بابت نہیں ہے ،کم وبیش ہر دوسرے گھر کی کہا نی ہے، چھوٹی چھوٹی باتیں اور غلط فہمیاں پیدا کرکے رشتوں میں دراڑیں پیدا کی جاتی ہیں ،ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہماری ایک ذرا سی بات کیسے رشتوں کو خراب کردیتی ہے۔ رشتوں میں بدگمانی کے ایسے سوراخ کردیتی ہےکہ تمام عمر وضاحتیں کرتا رہتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کسی کی بات پر اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ پیدا کردہ غلط فہمیوں کو دور کرنےکی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن ہم سمجھ ہی نہیں پاتے کہ انہیں کیسے دور کریں، یہی سوچتے سوچتے ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے دور ہو جاتے ہیں ۔ ہر رشتہ بہت نازک ہوتا ہے، جنہیں احساس کی ڈور سے باندھا جاتا ہے اور ذرا سی تلخی اور غلط فہمی سے ان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔

نفسانفسی کے اس دور میں ویسے بھی لوگوں نے ایک دوسرے سے ملنا جلنا انتہائی کم کردیا ہے ،شادی بیاہ ،تہوار یا کسی تقریب میں ہی ایک دوسرے سے ملنا ہوتا ہے ،ورنہ اب کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ کسی کے گھر خاص طور پر ملنے جائے۔ اس کے باوجود لوگ ایک دوسرے کے دلوں میں برائیاں ڈالنے میں پیچھے نہیں رہتے۔ ایک دوسرے کو بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔آخر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس طر ح کے رویے رشتوں کو خراب کرنے اور دلوں کو بدظن کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس کا ہمارے آنے والی نسلوں پر کیا اثر پڑے گا وہ ہم سے کیا سیکھیں گی، ان کو رشتوں کے احترام کے بارے میں کیا بتا ئیں گے، اس طر ح بچوں کے دلوں میں بڑوں کی عزت واحترام بھی کم ہوجاتاہے ۔کہنے کو تو یہ معمولی سی باتیں لگتی ہیں لیکن ان کے اثرات گہرے اور خراب ہوتے ہیں ،اس کے منفی اثرات نے خانگی زندگیوں میں دراڑیں پیدا کردی ہیں۔ پل بھر میں ہی رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔

کزنز کے رشتے تو بہت خوب صورت ہوتے ہیں ،ان سے بچپن کی بہت حسین یادیں وابستہ ہوتی ہیں ،مگر کیسے لگائی بجھائی کرکے۔ دوسروںکی باتوں پر یقین کرکے رشتوں کا پیار ،محبت اور خلوص ایک لمحےمیں ختم کردیتے ہیں۔رشتوں کی جاشنی یک دم ختم ہو جاتی ہے۔ ایک لمحے کے لیے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اس کے اثرات آپ کی زندگی پر بھی پڑسکتے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح اس کا خمیازہ آپ کو بھی بھگتنا پڑسکتا۔ خدارا! ایسا نہ کریں ویسے بھی چار دن کی زندگی ہے ،اُس کو بھی ہم ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ کے ،شکوے شکایت ،الزام تراشی کرکے گزار رہے ہیں۔

یاد رکھیں یہ خوب صورت رشتے ہی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کا غم ہلکا کرتے، دکھ درد بانٹتے ہیں۔ ہمیں اپنی سوچ کے زاویے بدلنے کی ضرورت ہے ،آخر کب تک سازشی رویوں میں جیتے رہیں گے ۔ اپنا احتساب کرکے رشتوں کے معاملے میں عفو و درگذر سے کام لیں اور رشتوں کو مستحکم کرنے کی خاطرظرف کا پیمانہ وسیع کریں۔

اللہ نے ہمیں بہت خوب صورت رشتوں سے نوازا ہے، ہر صورت ان کی قدر کرنی چاہیے، جس طرح انسان کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح رشتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیےان کو نبھانا عقل مندی کی نشانی ہے۔ رشتے نہ دور رہنے سے ٹوٹتے ہیں نہ پاس رہنے سے جڑتے ہیں بلکہ یہ تو اعتماد اور خلوص کے پکے دھاگے سے بندھے ہوتے ہیں، ان کو توڑنا، جوڑنا آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ایک عورت سے زیادہ رشتوں کی اہمیت کو کون جان سکتا ہے۔