؎ اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی، آفتاب کے
اردو کے مایہ ناز ناقد، خوش فکر شاعر، کالم نگار، محقق اور صاحب فکر ادیب مشفق خواجہ کا شمار بلا کسی مبالغے کے نابغۂ روزگار ہستیوں میں ہوتا تھا۔ علم ان کی زندگی، تحقیق ان کی تسکین اور تخلیق ان کی مجبوری تھی ایسی مجبوری جو عام آدمی کو ’’فنکار‘‘ کی صف میں لاکھڑا کرتی ہے۔ اسی مجبوری نے انہیں محترم اور معتبر بنادیا تھا۔ اس زرگزیدہ اور آسائش دیدہ زمانے میں علم سے، فکر سے، ادب سے، آگہی سے، دیدہ و دانش سے رشتہ استوار رکھنا بڑی سعادت ہےجو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ یہ سعادت مشفق خواجہ کو ملی۔
مشفق خواجہ مرحوم علم سے وابستگی کا روشن مینار تھے۔ انہیں حرف سے، لفظ سے اور کتاب سے عشق تھا۔ اس ’’عشق‘‘ نے انہیں ہمیشہ سرشار، پرعزم اور فعال رکھا، انہوں نے صرف کتابوں کو سلیقے سے آراستہ کرنے کے لئے ایک مکان کا انتظام کر رکھا تھا، رہائش کسی اور جگہ تھی تین نمبر ناظم آباد کا یہ مکان نہ صرف ایک عمدہ، بے مثال اور وسیع کتب خانہ تھا بلکہ صاحبان فکر، ذوق سلیم اور علم حاصل کرنےکے لئے ایک مرکز بھی تھا۔ خواجہ صاحب کے نام کی نسبت سے اسے لوگ آستانہ خواجہ بھی کہتے تھے۔
اسی آستانے میں ہر اتوار 10تا 2بجے دوپہر خواجہ صاحب کا دربار سجتا تھا، جہاں نہ صرف، کراچی اور پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر اردو دنیا کی خبروں کا تبالہ ہوتا تھا، کس کی کون سی نئی کتاب آئی ہے؟ کون کیا لکھ رہا ہے؟ کس ادیب اور شاعر کی کیا مصروفیات ہیں۔ تازہ ترین تفصیلات کے لئے لوگ آستانہ خواجہ کا رخ کرتے تھے۔ اردو ادیبوں اور شاعروں میں خواجہ مشفق جیسا منتظم اور منظم انسان شاید ہی کوئی ہوگا۔ کتب خانے میں موجود ہزارہا نئی پرانی کتابوں، مخطوطوں اور دستاویزوں کی تفصیل خواجہ صاحب کو زبانی یاد تھی چند لمحات ہی میں وہ بتادیتے تھے کہ کون سی کتاب کہاں رکھی ہوتی ہے۔
اردو کے ہزاروں لکھنے والوں سے خواجہ صاحب کی خط و کتابت بھی مختلف فائلوں میں محفوظ تھی۔ ان کا یہ اوصف کسی کی بھی مدد کے لئے ’’ہمیشہ آمادگی‘‘ تھا۔ کسی نے کوئی ادبی مسئلہ معلوم کیا یا کسی تحقیق کے سلسلے میں ان سے مدد چاہی۔ وہ اسے اپنا مسئلہ سمجھ کر فعال ہوگئے، انہیں اس وقت تک سکون نہیں ملتا تھا جب تک مسئلہ حل نہیں ہوجاتا تھا۔ خواجہ صاحب مرحوم بڑا خوبصورت اور دل میں کھب جانے والا طنز کرتے دوسروں پر ہی نہیں خود پر بھی ان کے جملے محفل کو زعفران زار بنادیتے تھے۔
ان کے اس خوبصورت طنز کی اعلیٰ مثال ان کا کالم ’’خامہ بگوش کے قلم سے‘‘ ہے۔ اس کالم میں مختلف افراد کی ’’بڑبولیوں‘‘ اور ’’نارسائیوں‘‘ میں ایسی چوٹ لگاتے تھے کہ چوٹ کھانے والا بھی مسکرانے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ نام کی طرح شفیق، متواضع، باظرف، بامروت، پاس دار اور باوضع مشفق خواجہ آج ہم میں نہیں ہیں۔ لیکن ان کا مسکراتا ہوا چہرہ اور ذہانت سے روشن آنکھیں ہزاروں دلوں پر نقش رہیں گی۔
ان کا نعرہ تھا، کام، کام، محنت، محنت ۔ناظم آباد کے مکان میں بیٹھ کر کلیات یگانہ کی ترتیب میں جس طرح پورے برصغیر کے ادیبوں، ناقدوں، شعراء سے انہوں نے رابطہ قائم کیا تھا ایسی مثال اردو تحقیق میں خال خال ہی نظر آتی ہے وہ بہت سوں کے لئے آورش، مثالیہ اور نمونہ بن چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔؎
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی، آفتاب کے
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔
خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔
ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی