شیونارائن سنگھ۔ || ترجمہ:۔ مکرم نیاز
ایک دریا کے کنارے بنے خوبصورت گھر میں چنچل نامی بکری اور اس کا بیٹا گلفام رہتے تھے۔ چنچل اپنے بیٹے کو بے حد سے پیار کرتی تھی، اگر کسی کام سے اسے باہر جانا پڑے تو بیٹے کو گھر کے اندر مقفل کر کے جاتی۔
ایک دن چنچل کو اپنی بیمار خالہ کی مزاج پرسی کے لیے جانا پڑا۔ اُس نے گلفام سے کہا، ’’اپنا خیال رکھنا میں سورج غروب ہونے سے قبل واپس آنے کی کوشش کروں گی، کسی اجنبی کے لیے دروازہ مت کھولنا۔‘‘
چنچل کی روانگی کے کچھ دیر بعد ہی ایک بھیڑیا جو کافی دنوں سے اس انتظار میں تھا کہ کب بکری اپنے بچے کو اکیلا چھوڑ کر جائے گی کہ وہ اسے کھائے۔ یہ موقعہ آج اُسے مل گیا،’’آہا ! چنچل تو اپنے موٹے تازے بیٹے کو گھر چھوڑ گئی ہے۔ آج رات روسٹ بکرے کے ڈنر کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
بھیڑیے نے اپنی آواز بدل کر دروازے پر دستک دے کر کہا،’’میرے پیارے پوتے ! دروازہ کھولو ! میں تمہارا دادا ہوں، تم سے ملنے آیا ہوں۔‘‘
گلفام نے دروازے کی جھری سے دیکھا تو کہا، ارے یہ تو وہی خوفناک بھیڑیا ہے، جس کے متعلق ماں نے مجھے خبردار کر رکھا ہے۔ میں اس کی چال میں نہیں آؤں گا۔‘‘
’’پیارے دادا جان، میں آپ کی آواز سن کر بہت خوشی ہوئی، میں آپ کے ساتھ بات کرنا ، کھیلنا چاہتا ہوں۔ لیکن پچھلا دروازہ تو باہر سے مقفل ہے اور سامنے والے دروازے کی چٹخنی کافی اوپر لگی ہوئی ہے ‘‘۔ گلفام نے کہا
’’ٹھیک ہے بیٹا ، میں دھکا دے کر کھولنے کی کوشش کرتا ہوں‘‘بھڑیے نے کہا۔
’’دادا جان ، یہ دروازہ بہت مضبوط ہے اور آپ جیسے بزرگ سے کھلنا مشکل ہے۔ آپ کسی لوہار سے لوہے کی کوئی سلاخ مجھے لا کر دیں تو میں اندر والی چٹخنی کھول دوں گا۔‘‘گلفام نے بڑی ہوشیاری سے کہا۔
’بیوقوف بچہ کہیں کا، اسے اپنا نوالہ بنانے کے لیے مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا۔ بھڑیے نے غصے سے سوچا۔
’’بہتر ہے بیٹے۔ میں بس یوں گیا اور یوں لایا ۔۔۔ انتظار کرو۔‘‘بھیڑیا ،لوہار بھالو کے پاس دوڑا دوڑا گیااور اس سے لوہے کی سلاخ مانگی۔
’’میں ضرور دوں گا لوہے کی سلاخ۔ اگر تم مجھے کھیت سے شہد کا کوئی چھتہ لا کر دو۔ ‘‘ بھالو لوہار نے کہا۔
بھیڑیا شہد حاصل کرنے کے لیے کھیت کی طرف بھاگا، جہاں ایک کسان سے اس کی ملاقات ہوئی۔ جناب ! کیا آپ مجھے شہد کا کوئی چھتہ دینا پسند کریں گے؟
کسان نے کہا،’’بالکل ! کیوں نہیں لیکن بات یہ ہے کہ میں آج بہت تھک گیا ہوں ، ذرا میرے کھیتوں میں پانی ڈال دو ، کسان نے کہا۔
بھیڑیا کڑی دھوپ میں کام کرنے لگا۔ معلوم نہیں تھا کہ کھانے کے لیے اتنی محنت کرنا پڑے گی۔
اسی دوران چنچل گھر واپس لوٹ آئی ۔’’ارے گلفام بیٹے ، یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’بھیڑیا میرے پیچھے ہے ماں لیکن میں نے بھی اسے ٹھکانے لگانے کی ایک نادر ترکیب سوچ رکھی ہے۔‘‘
گلفام نے اپنے منصوبے سے ماں کو واقف کیا،’’واہ بہت خوب میرے ہوشیار بیٹے۔ میں گڑھا کھودنے میں اپنے نوکیلے سینگوں سے تمہاری مدد کروں گی۔
ادھر کھیت پر ۔۔۔۔’’یہ لو شہد کا چھتہ ، اب تم کام ختم کر کے جا سکتے ہو‘‘۔ کسان نےکہا۔’’شکر ہے۔ میں تو سمجھا تھا کہ یہ مجھ سے سارا دن مسلسل کام لے گا۔‘‘بھڑیے نے سوچا اور چھتہ لے کر بھاگتا ہوا لوہار کو شہد دینے اس کے پاس پہنچا۔ لوہار نے شہد لے کر سلاخ دیتے ہوئے کہا،’’یہ لو بھائی یہ بہت مضوط ہے۔‘‘ وہ سلاخ لے کر فوراََ بکری کے گھر آیا۔’’میرے پیارے پوتے، میں تمہارے لیے لوہے کی سلاخ لے آیا ہوں ، یہ دیکھو یہ رہی‘‘۔
’’بہت بہت شکریہ دادا جان، آپ یہ مجھے کھڑکی سے دے دیں۔‘‘
گلفام نے کہا،’’جاؤ ماں جلدی سے اس پردے کے پیچھے چھپ جاؤ۔ پھر گلفام نے جیسے ہی دروازہ کھولا ، بھیڑیا ویسے ہی تیزی سے جھپٹا اور ۔۔۔
آآآہ ہ ہ،دھڑاک، وہ دروازے کے سامنے کھدے گڑھے میں گر گیا، پھر منصوبے کے مطابق چنچل اپنی سینگیں اٹھا کے دوڑی اور خوب اس کی درگت بنائی۔
بھیڑیا چلاتا رہاآآآآ ، بچاؤ !بلا آخر جان سےگیا، اسے لالچ کی سزا مل گئی۔ چنچل نے اپنے بیٹے سے کہا ، گلفام بیٹے، آج تم نے اس بھیڑیے کو اچھا سبق سکھایا ہے۔
ہاں ماں ، اب آپ کو یقین ہو گیا ہوگا کہ میں بخوبی اپنی حفاظت کر سکتا ہوں۔