• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاہ زیب منور

آج کی کہانی اسکاٹ لینڈ کے ایک غریب کسان کی ہے۔ جو کھیتوں میں محنت سے کام کرتا، فصل بوتا اس کی نگہداشت کرتا اور جب وہ پک کے تیار ہوجاتی تو اسے بیچ کر اپنا اور خاندان کا گزر بسر کرتا۔ ایک دن صبح سویرے وہ حسب معمول کھیتوں کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک کسی بچے کی چیخ و پکار نے اسے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ 

وہ فوراً اس جانب دوڑا کچھ فاصلے پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک بچہ دلدل کے جوہڑ میں ڈوب رہا ہے، کسان نے اسے تسلی دی اور پرسکون رہنے کو کہا، پھر درخت کی ایک لمبی شاخ توڑ کر بچے سے کہا کہ، ’’یہ شاخ مضبوطی سے پکڑ لو میں تمہیں اپنی جانب کھینچ لوں گا۔ بچے نے ایسا ہی کیا۔ کچھ دیر کی جدوجہد کے بعد کسان بچے کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔

بچے کے کپڑے کیچڑ سے بھر گئے تھے۔ یہ دیکھ کر کسان نے بچے سے کہا، ’’بیٹا میرے گھر چلو میں تمھارے کپڑے دھو دوں گا، جب تک یہ سوکھیں تم میرے بیٹے کے کپڑے پہن لینا اور اُس کے ساتھ کھیلنا۔‘‘

بچے نے کہا، ’’میری زندگی بچانے کا بہت شکریہ، اگر آپ بر وقت نہ پہنچتے تو میں تو دلدل میں دھنس جاتا، میں صبح کی سیر کے لیے نکلا تھا یہاں پہنچ کر میرا پاؤں پھسل گیا اور میں دلدل میں پھنس گیا۔ میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا کیوں کہ بہت دیر ہوگئی ہے، میرے والد میرا انتظار کر رہے ہوں گے اور میرے گھر نہ پہنچنے پر پریشان ہو رہے ہوں گے۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنے گھر کی طرف دوڑ لگا دی ۔

اگلی صبح کسان کھیتوں میں جانے کے لیے گھر سے نکلا ہی تھا کہ اُس نے دیکھا باہر ایک خوبصورت بگھی کھڑی ہے، اس میں سے ایک رعب دار شخص نمودار ہوا۔

اس نے کسان سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا، ’’کل آپ نے جس بچے کی جان بچائی تھی میں اسی بچے کا باپ ہوں۔ آپ کا بہت شکریہ، بتائیں میں آپ کو اس کا کیا صلہ دوں؟‘‘

غریب کسان نے کہا، ’’آپ کا شکریہ جناب! مجھے کسی صلے کی ضرورت نہیں، میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ یہی کرتا۔‘‘

اُس رئیس نے بہت اصرار کیا، لیکن کسان نے قبول نا کیا۔ جاتے جاتے رئیس کی نظر کسان کے بیٹے پر پڑی اس نے پوچھا، ’’کیا یہ آپ کا بیٹا ہے‘‘؟

کسان نے محبت سے بیٹے کا سر سہلاتے ہوئے کہا، ’’جی جناب یہ میرا ہی بیٹا ہے۔‘‘

رئیس بولا! اچھا چلو ایک کام کرتے ہیں میں اسے اپنے ساتھ لندن لے جاتا ہوں، اسے میں اسی اسکول میں داخل کراؤں گا، جس میں میرا بیٹا پڑھتا ہے۔‘‘

کسان نے بیٹے کے اچھے مستقبل کی خاطر پیشکش قبول کر لی اور بیٹے کو اُن کے ساتھ بھیج دیا۔ وہ بچہ وہاں جا کر پڑھنے لگا۔

اس نے اتنی محنت کی کہ وہ نہ صرف پوری دنیا میں مشہور ہوا بلکہ لاکھوں لوگوں کا مسیحا بھی بنا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا اس بچے کر ”الیگزینڈر فلیمنگ“ کے نام سے جانتی ہے۔ جی ہاں وہ فلیمنگ جس نے پینسلین ایجاد کی۔ وہ پینسلین جس نے کروڑوں لوگوں کی جان بچائی ۔

اور وہ رئیس کا بیٹا جس کو کسان نے دلدل سے نکالا تھا وہ جنگِ عظیم سے پہلے اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا، لیکن اس بار اس کی جان بچانے کسان نہیں بلکہ اس کا بیٹا آیا۔

رئیس کے بیٹے نے اس کی بنی ہوئی ویکسین استعمال کی اور اُس کا بیٹا جلد ٹھیک ہو گیا۔ آپ جانتے ہیں وہ رئیس کون تھے؟ وہ رئیس روڈولف چرچل تھا اور اس کا بیٹا جو دلدل میں گرا تھا وہ ونسٹن چرچل تھا جو برطانیہ کا وزیراعظم بنا۔

بھلائی کا کام کریں کیونکہ بھلائی پلٹ کر آپ کے پاس ہی آتی ہے۔ بظاہر کسان کی طرف سے کی گئی وہ چھوٹی سی بھلائی تھی، لیکن سوچیں اس سے کتنا فائدہ ہوا، اُس نے اس رئیس کے بیٹے چرچل کی جان بچا کر اس کے ساتھ بھلائی کی اور وہی بھلائی اس کے اپنے بیٹے الیگزینڈر فلیمنگ کی طرف پلٹ آئی اور اسے اعلیٰ تعلیم کا موقع میسر آیا، پھر اُس کی ایجاد کردہ ویکسین سے ونسٹن چرچل کی جان بچ گئی۔ جب ہی تو کہتے ہیں کہ کر بھلا تو ہو بھلا۔