حیات احمد
جنگل میں ایک دن سویرے سویرے ہلچل مچ گئی۔ ہر طرف پرندے شور مچا رہے تھے، خرگوش دوڑتے پھر رہے تھے، اور بندر درختوں سے نیچے اتر کر ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ خبر پھیل چکی تھی کہ جنگل کا سب سے قدیم اور مہربان درخت بوڑھا برگد بابا کمزوری اور ضعیفی کے باعث گرنے والا ہے۔
برسوں سے وہ جنگل کا سایہ دار دوست تھا۔ اس کی شاخوں پر پرندے گھونسلے بناتے، نیچے جانور سستانے آتے اور سب سے خاص بات یہ کہ شہد کی مکھیاں اپنے چھتے اسی پر بناتی تھیں۔
اس برگد پر سو سے زیادہ شہد کے چھتے جھول رہے تھے۔ مکھیاں برسوں سے یہاں رہتی تھیں۔ وہ اپنے گھنے، مومی چھتوں میں شہد جمع کرتیں، بچے پیدا کرتیں اور ملکہ مکھی ۔۔۔ راج رانی ۔۔کی حفاظت کرتیں۔
ان کی زندگی کی ترتیب بڑی دلچسپ تھی۔ کچھ مکھیاں شہد بناتیں، کچھ چھتے کی صفائی کرتیں، اور کچھ نر مکھیاں جنگل کے دوسرے حصوں میں پھولوں کا رس جمع کرنے جاتیں۔ وہ سب اپنی رانی کے حکم کی پابند تھیں۔
یہ سُنتے ہی بھولو بھالو اپنی بھاری بھرکم چال میں لپکتا ہوا برگد کے پاس پہنچا۔ وہ اس درخت کا پرانا دوست تھا۔ اس نے دیکھا کہ درخت جُھک چکا ہے، جڑیں مٹی سے باہر نکل آئی ہیں اور شاخیں زمین کو چھونے لگی ہیں۔ بھولو نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے دوست کو گرنے نہیں دے گا۔ اس نے آس پاس کے جانوروں کو آواز دی۔
بندر راجو اور خرگوش چنچن فوراً آگئے۔ راجو درختوں سے مضبوط بیلیں لے آیا، اور چنچن نے جنگل کے کنارے سے موٹے شہتیر گھسیٹ گھسیٹ کر برگد کے تنے کے نیچے لگا دیے۔ بھولو نے اپنی مضبوط پنجوں سے لکڑیاں جمائیں اور شاخوں کا وزن کم کرنے کے لیے بھاری شاخیں توڑ دیں۔
پرندے اُڑ کر ہلکی شاخوں کو کاٹنے لگے۔ ہرن نیلو اور طوطا مِتھُو قریبی پہاڑی سے پتھر لا لا کر جڑوں کے پاس رکھنے لگے۔ سب نے مل کر مٹی ڈالی تاکہ جڑیں دوبارہ زمین میں دب سکیں۔ مکھیاں جو پہلے خوفزدہ تھیں، بھولو اور اس کے دوستوں کی محبت دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ ان کی ملکہ رانی نے بھولو کے کان میں بھنبناتے ہوئے کہا،
’’بھولو، تم نے ہمارا گھر بچایا ہے۔ ہم تمہیں ایک انمول تحفہ دینا چاہتی ہیں۔ اگر تم چاہو تو اس برگدکے پاس اپنا گھر بنا لو، ہم تمہارے لیے چھتے کا بہترین شہد پیش کریں گی۔‘‘
بھولو خوش ہو گیا۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ ایک طرف اپنے لیے لکڑی اور پتے کا گھربنائے گا، تاکہ ہمیشہ برگد کا خیال رکھ سکے۔ مکھیوں نے اس کے لیے شہد سے بھرے چھوٹے چھوٹے گھڑے تحفے میں دیے اور وعدہ کیا کہ جب تک برگد سلامت ہے، شہد کی مٹھاس کبھی کم نہیں ہوگی۔
یوں جنگل میں ایک اور کہانی چل نکلی محبت، دوستی اور زندگی کے احترام کی۔ پرندے گاتے، مکھیاں گنگناتیں، اور بھولو اپنی چھوٹی سی جھونپڑی میں بیٹھ کر شہد چکھتا اور برگد بابا سکون سے سانس لیتا ۔ جنگل میں زندگی ایک بار پھر خوشیوں سے بھر گئی۔
ہمارے ماں باپ، دادا دادی، نانانانی بھی ایسے ہی بڑے درخت ہیں،جنہیں وقت کے ساتھ ساتھ ہماری محبت، شفقت اور مہربان روئیے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے ماں باپ کو اپنی محبت کی بیلوں اور احساس کے تنےکی ٹیک دیجئیے۔ وہ گرنے نہ پائیں۔۔۔!