ایک رات شیخ چلی چھت پر لیٹے چاند کو دیکھ رہے تھے، اسی وقت ان کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر وہ چاند پر پہنچ جائیں تو بہت مشہور ہوجائیں گے اور خلا نورد کہلائیں گے۔ زمین سے لوگ مجھے دُوربین سے دیکھ کر کہیں گے، ’’دیکھو! وہ ہے شیخ چلی، چاند کا رہائشی۔‘‘
انہوں نے فوراً منصوبہ بنایا کہ رسیوں سے لمبا بانس جوڑ کر سیڑھیاں بنائیں گے، کھانے کے لیے کھجوریں اور بستر رکھ لیئے۔ وہ خیالات میں اتنے مگن ہوگئے کہ جیسے ہی انہوں نے خود کو چاند کی سیڑھی پر چڑھتا ہوا تصور کیا ایک زور کا جھٹکا لگا وہ چارپائی سے نیچے جا گرے۔ نیند بھی ٹوٹ گئی، خواب بھی اور چوٹ بھی لگی۔ گھر والے ہنسنے لگے جب شیخ چلی نے کہا کہ، ’’چاند ابھی بہت دُور ہے۔‘‘
گھر والوں نے کہا، شیخ صاحب! پہلے زمین پر سیدھے چلنا تو سیکھ لو، پھر چاند پر جانے کی سوچنا‘‘۔
استاد تو پھر استاد ہوتا ہے
حکیم صاحب ایک مریض کو اس کے گھر میں چیک کرنے گئے ان کےساتھ حکیم صاحب کا ایک شاگرد بھی تھا جو پانچ سال لگا کر تقریباً حکمت سیکھ چکا تھا۔
نبض چیک کرنے کے بعد حکیم صاحب نے مریض سے کہا۔’’تم نے کیلے کھائے تھے؟‘‘
مریض نے متاثر ہوتے ہوئے کہا،’’جی ہاں‘‘
شاگرد، بڑا حیران ہوا اور حکیم صاحب سے پوچھا کہ، ’’یہ بات کیسے معلوم ہوتی کہ مریض نے کیلے کھائے ہیں؟‘‘
حکیم صاحب نے کہا کہ، ’’ اس کے لئے تمہیں مزید ایک سال شاگردی اختیار کرنی پڑے گی۔‘‘
شاگرد اپنی حکمت کی دوکان کھولنے کے چکر میں تھا، حالات سے مجبور پورے ایک سال اپنے استاد کی خدمت کی، دوائیاں کوٹیں، خوشامدیں کی اور جب سال پورا ہوا تو کہا کہ، ’’استادِ محترم اب تو پورا ایک سال گزر گیا، اب بتا دیں گُر کی بات کہ مریض کے کیلے کھانے کا علم آپ کو کیسے ہوا تھا؟‘‘
حکیم صاحب نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’او بیوقوف، مریض کی چارپائی کے نیچے کیلے کے چھلکے پڑے ہوئے تھے۔
واقعی استاد تو پھر استاد ہوتا ہے۔