عائشہ فردوس
درختوں کے پتوں سے چھن کر سڑک پر پڑتی سورج کی کرنوں پہ کافی دیر سے احمد کی نظریں جمی تھیں۔ شدید چلچلاتی دھوپ میں احمد اس وقت گلی میں موجود واحد نیم کے درخت کے سائے تلے بیٹھا تھا۔
اتوار کا دن تھا زیادہ تر لوگ سوئے ہوئے تھے۔ لیکن خلاف معمول احمد باقی گھر والوں سے پہلے ہی اٹھ گیا تھا اور اپنا اسکول کا کام مکمل کرنے کے بعد اب اس درخت کے نیچے گہری سوچ میں بیٹھا تھا۔
بدھ کے دن کے مناظراس کے ذہن میں آرہے تھے۔ احمد اپنی کلاس میں بے چین بیٹھا تھا۔ ایک ہفتے قبل مس زہرہ نے سب بچوں کو سائنس کی ڈائگرامز بنانے کا کہا تھا۔ آج اس اسائنمنٹ کو چیک ہونا تھا اور احمد کام کرنا یکسر بھول گیا تھا۔
اگرچہ، احمد اپنی جماعت کے ہونہار بچوں میں شامل تھا، وقت پرکام مکمل کرتا، باقاعدگی سے اسکول جاتا۔ اس بار نہ جانے کیا ہوا کہ وہ یہ کام کرنا بھول گیا۔ اسمبلی میں دس منٹ باقی تھے اور پہلا پیریڈ بھی مس زہرہ کا ہی تھا۔
پچھلے پانچ منٹ میں وہ سات دوسرے بچوں کی ڈائگرامز دیکھ چکا تھا۔ اتنا سب کچھ تو وہ اتنی جلدی مکمل نہیں کر سکتا تھا، آخر اس سے بھول کیسے ہوگئی؟
اتنے میں اسمبلی کا وقت ہو گیا۔ سب بچے کلاسوں سے باہر جانے لگے۔ وقت کم تھا۔ احمد کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ پھر اس کے دماغ میں ایک خیال آیا،جیسے ہی آخری بچہ کلاس سے باہر نکلا احمد نے تیزی سے آگے بڑھ کے دو تین ہم جماعتوں کے بستوں سے ڈائیگرامز والی کاپی نکالی۔
ایک کو پسند کر کے باقی واپس رکھ دیں۔ جلدی سے اس کا سرورق پھاڑا اور ایک دوسرا صفحہ پھاڑ کے اس پہ اپنا نام لکھ کے اس کاپی پہ لگا دیا۔ اسمبلی سے کلاس میں واپس آنے تک مس زہرہ پہلے ہی کلاس میں موجود تھیں۔ ان کو دیکھتے ہی سب بچوں نے اپنی اپنی کاپیاں لا کر جمع کرانی شروع کر دیں۔ احمد نے بھی دھڑکتے دل کے ساتھ چوری شدہ کاپی ان کو تھما دی۔
اتنے میں کلاس کے پیچھے سے ہمدان کی آواز آئی،’’مس میری کاپی نہیں مل رہی۔‘‘
مس زہرہ نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔’’بیٹا دیکھیں آپ کے بستے میں ہی ہوگی ورنہ آپ لانا بھول گئے ہوں گے۔‘‘
’’نہیں مس میں لایا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔‘‘ہمدان نے اصرار کیا تو مس اس کی نشست تک آ گئیں۔ اس کے بیگ میں انہوں نے خود بھی دیکھا ،مگر کاپی نہیں تھی سو نہ ملی۔
’’بیٹا اگر آپ نے کام نہیں کیا یا کاپی لانا بھول گئے ہیں تو آپ کو کم از کم جھوٹ تو نہیں بولنا چاہیے۔ آج ویسے بھی جمع کرانے کا آخری دن ہے، اگر آپ کے نزدیک اس کام کی کوئی اہمیت ہوتی تو آپ کا کام مکمل اور موجود ہوتا۔ اب آپ اپنی کاپی اپنے پاس ہی رکھیے گا۔ غصے میں مس زہرہ واپس چلی گئیں اور حیران پریشان ہمدان رو دینے کو تھا۔
اس دوران احمد نظریں چراتا رہا، اسے یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے مس زہرہ نے ہمدان کو نہیں بلکہ اسے ڈانٹا ہو۔ اسے پچھتاوے کا شدید احساس ہو رہا تھا۔ کیا اسے اٹھ کر کہہ دینا چاہیے کہ اس نےہصمدان کی کاپی چرائی ہےلیکن احمد ایسا نہ کہہ سکا۔
احمد دو راتوں سے سو نہیں سکا تھا۔ وہ ہمدان کا مجرم تھا سو اس نے اس سے معافی مانگنے کا سوچا۔
اسکول کے وقفے کے دوران اس نے ہمدان کو الگ سے بلا کر جب اپنی غلطی کا اعتراف کیا تووہ غصے سے پھٹ پڑا۔
’’تمہاری وجہ سے مجھے کس قدر نقصان ہوا ہے تمہیں اندازہ بھی ہے؟ اس کاپی کے سالانہ امتحان میں دس نمبر تھے۔ میرے وہ نمبر چلے گئے۔ مس زہرہ کو لگتا ہے میں جھوٹ بولتا ہوں۔ تم اب آکے مجھ سے معافی مانگ رہے ہو۔ تمہیں چاہیے تھا کہ مس زہرہ کو بتاتے کہ تم نے کسی اور کی محنت چرائی ہے۔‘‘
’’ اگر میں ان کو بتاؤں گا تو میرے نمبر کٹ جائیں گے۔‘‘ احمد نے دھیرے سے کہا۔
’’ تمہیں اب بھی اپنی فکر ہے، کوئی شرمندگی نہیں۔‘‘ہمدان کو مزید غصہ آگیا۔
"اچھا اگر میں ان کو سب کچھ سب سچ بتا دوں تو تم مجھے معاف کر دو گے؟" احمد نے کہا۔
’’میں دیکھوں گا، مبہم سا جواب دے کر ہمدان چلا گیا۔
احمدیہ واقعات سوچنے کے بعد درخت کے نیچے سے اٹھ کر اپنے گھرگیا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوا تو ہر جانب پنسلیں بکھری پڑی تھیں اور بیچ میں ایک کاپی کھلی پڑی تھی، جس پر ایک دماغ کی ادھوری ڈائیگرام نظر آرہی تھی۔ احمد دو بارہ بیٹھ کر کام میں جت گیا۔ آج اس نے ہر حال میں یہ کام مکمل کرنا تھا۔
اگلے روز اسکول جاتے ہی احمد نے اسٹاف روم کا رخ کیا۔ اس نے مس زہرہ کے سامنے اپنی غلطی کااعتراف کیااور اپنی کاپی ان کے سامنے میز پر رکھ دی۔
’’احمد آپ کو اندازہ ہے آپ نے کتنا غلط کام کیا ہے ہمدان کے ساتھ؟ آپ کی وجہ سے کسی بچے کی محنت رائیگاں ہو جاتی اور آپ کو احساس بھی نہیں ہے اس چیز کا؟‘‘" مس زہرہ نے غصے سے کہا۔
’’سوری مس مجھ سے غلطی ہو گئی۔‘‘ احمد بمشکل آنسو روکتے ہوئے اتنا ہی کہہ پایا۔
’’جائیں آپہ ہمدان کو ساتھ لے کر آئیں پھر بات ہوگی کہ آپ کو کیا سزا ملنی چاہیے۔‘‘
احمد جلدی سے بھاگتا ہوا کلاس میں آیا۔ اس نےہمدان کو آواز دی لیکن اس نے رخ پھیر لیا۔
احمد نے اس کے دوست علی سے کہا کہ،’’ ہمدان کو مس زہرہ بلا رہی ہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی ہمدان فورا اٹھ کراور احمد کے پیچھے چل دیا۔
مس زہرہ کے سامنے احمد کی کاپی رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے ہمدان سے کہا ’’مجھے احمد نے بتایا ہے کہ آپ کی کاپی انہوں نے چرائی تھی۔ آپ نے اپنا کام بہت اچھے سے کیا تھا اور آپ کو پورے نمبر ملے ہیں۔ اگر آپ احمد کو معاف کر دیں تو میں ان کی کاپی بھی چیک کر لوں گی۔‘‘
ان کی بات سنتے ہی ہمدان کا چہرہ چمک اٹھا۔ اس نے احمد کو گلے سے لگا لیا۔ مس زہرہ نے بھی مسکراتے ہوئے احمد کی کاپی اٹھا لی۔ احمد نے سوچا سچی معافی مانگنا کتنا اچھا ہوتا ہے۔ اسے تو ایک نیا دوست بھی مل گیا۔