ڈاکٹر غلام مصطفیٰ سولنگی
بچو! یہ بہت پرانے وقتوں کی بات ہے۔ ایک راجہ تھا، جس کی سلطنت بہت وسیع تھی۔ اس کی رانی کا نام چندا تھا وہ بہت خوبصورت اور عقلمند تھی۔ راجہ اسے بہت چاہتا تھا۔ ایک دفعہ رانی کی سال گرہ پر راجہ نے اسے تحفے میں بہت قیمتی ہار دیا۔
سال گرہ کے کچھ دن بعد وہ ہار چور ی ہوگیا، جس کا راجہ، رانی کو بہت دکھ ہوا۔راجہ نے دربار میں اعلان کیا کہ جو آدمی اس ہار کوڈھونڈکر لائے گا، اس کوانعام سے نوازا جائے گا۔ یہ خبر کو سنتے ہی لوگوں نے ان چوروں کو پکڑنے کی ٹھان لیاور وہ گروہوں میں بٹ کر ان کو پکڑنے کی تگ و دو کرنے لگے۔
محل سے دور کچھ فاصلے پر ایک گاؤں تھا، جس میں ایک بڑھیا اور بوڑھا رہتے تھے۔ ان کا ایک لڑکا تھا۔ بوڑھا اور بڑھیا بہت کمزور ہوگئے تھے، اس لئے وہ کما نہیں سکتے تھے۔ ان کا لڑکا قریب کے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اُنہیں بیچ کر اپنے ماں باپ کا اور اپنا پیٹ پالتا۔
ایک دن وہ لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ اس نے کچھ فاصلے پر چند لوگوں کی آوازیں سُنیں۔ یہ وہی چور تھے، جنہوں نے رانی کا ہار چُرایا تھا۔ وہ چھپ کر ان کی باتیں سنے لگا ایک چور بولا،’’اس ہار کو یہاں دبا کر دوسری چور ی کے لیے چلنا چاہیے۔‘‘
’’نہیں۔ اس ہار کو اپنے ساتھ ہی رکھیں گے، اگر کسی کو پتہ چل گیا تو وہ اسے لے جائے گا۔ ‘‘دوسرا چور بولا
تیسرے چور نے کہا،’’ نہیں، اس کو اس درخت کے نیچے دبا دیتے ہیں۔ یہاں سے کوئی نہیں لے جاسکتا۔‘‘
پہلے دوچوروں کو یہ مشورہ پسند آیا، انہوں نے اس کو وہاں چھپانے کا فیصلہ کیا، تینوں نے مل کر درخت کے نیچے گڑھا کھودا، جب ہار کو اس میں دبانے لگے تو ایک نے کہا، ’’ دیکھو، یہاں پر کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔‘‘دوسرے چور نے اِدھر اُدھر نظر دوڑا کر دیکھا اور کہا، ’’کوئی نہیں ہے‘‘ وہاں پر ایک طوطا بیٹھا تھا، جو یہ سب کچھ دیکھا رہا تھا۔
ایک چورنے طوطے کو بھی ختم کرنے کی نیت سے اس پر تیر چلایا لیکن تیر اس کے جسم بجائے پروں پر لگا۔ جس سے کچھ پَر جھڑگئے۔ طوطا فوری اڑا لیکن اس ہی لڑکے کے پاس جا گرا، جو اُن کی باتیں سن رہا تھا لڑکا طوطا اپنے ساتھ لے کر ساتھ گھر چلا گیا، تاکہ اس کی مرہم پٹی کر سکے۔
اس اثنا میں چور ، دوسری واردات چوری کرنے چلے گئے۔ انہوں نے کئی چوریاں کیں اور تمام مال اس گڑھے میں لا کر ڈال دیا۔
طوطا چند دن بعدٹھیک ہوگیا ،اُس کےنئے پَر بھی نکل آئے۔ وہ لڑکے سے مانوس ہوگیا تھا ۔ ایک دن راجہ کا آدمی لڑکے گاؤں میں آیا ، وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔کہ، ’’بھائیو! آپ کو یہ تو پتہ ہوگا کہ ہمارے راجہ کی رانی کا ہار چور چُرا کر لے گئے ہیں۔ راجہ نے اعلان کیا ہے کہ جو شخص بھی اسے تلاش کرے گا، اُس کو انعام دیا جائے گا۔‘‘ لڑکا یہ سن کر فوری گھر آیا اور اپنے ماں باپ کو بتایا۔
طوطے نے لڑکے کی بات سن کرکہا، ’’میرے آقا! میں اس جگہ کو جانتا ہوں، جہاں وہ ہار دبا ہواہے۔ دوسرے دن شام کو وہ لڑکا اور طوطا اس جگہ کُدال لےکر گئے۔ لڑکے نے گڑھا کھودنا شروع کیا، کچھ دیر کے بعد انہوں نے اس گڑھے میں ایک گاگر دیکھی، جب اسے نکال کر دیکھا تو اس میں بہت سے ہیرے جواہرات کے ساتھ وہ ہار بھی تھا۔
دوسرے دن صبح ہی وہ لڑکا اور طوطا راجہ کے محل کی طرف روانہ ہوگئے۔ پہلے تو سپاہیوں نے روکا، لیکن جب لڑکے نے ہار کا بتایا تو انہوں نے اندر جانے دیا۔ راجہ نے آنے کا سبب پوچھا تو لڑکے نے کہا۔’’راجہ صاحب! آپ رانی صاحبہ کو بلائیں۔
ہم ان کے لئے تحفہ لائے ہیں‘‘۔ جب رانی آئی تو اس نے اس کو کھویا ہوا ہار پیش کیا، ہار دیکھتے ہی رانی بہت خوش ہوئی، اس نے لڑکے کو شاباش دی اور انعام واکرام سے نوازا۔
انعام دینے کے بعد راجہ نے پوچھا کہ’’ تمہیں اس ہار کا کیسے پتہ چلا؟ لڑکے نے طوطے کا ساراقصّہ بیان کیا تورانی نے طوطے کو بھی انعام میں سونے کی مالا دی، جو لڑکے نے طوطے کے گلے میں ڈال دی۔ لڑکا امیر بن گیا تھا۔ اس کے ماں باپ کو جب معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کو انعام ملے ہیں تو وہ خوشی سے پُھولے نہ سمائے، کیوں کہ اب اُن کی غربت کے دن ختم ہوگئے تھے۔
بچو! ایمان داری، محنت اور محنت کا پھل ضرور ملتا ہے۔ آپ بھی ایسا کریں گے تو یقیناََ پھل کھائیں گے۔