• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ربیعہ سلیم مرزا

چاندنی رات تھی۔ آسمان پر ستارے جگ مگارہے تھے، اور زمین پر جگنوؤں کی ننھی ننھی روشنیاں ٹمٹما رہی تھیں۔ تالاب کے کنارے مینڈک بچے اکٹھے بیٹھے تھے۔ پانی پر چاند کا عکس نظر آرہا تھا اور جھاڑیوں میں روشنیوں کی قطار، یوں لگ رہی تھی جیسے زمین پر چھوٹے چھوٹے چاند اتر آئے ہوں۔

دادا مینو، دانا مینڈک، لکڑی کے ایک پرانے پلنگ پر بیٹھے تھے۔ ان کی جُھریوں بھَری آنکھوں میں نرم سی روشنی تھی۔ سب بچے ان کے گرد اکٹھے ہوئے۔ دادا مینو نے جھاڑیوں میں چمکتے جگنوؤں کو دیکھتے ہوئے کہا،’’بچو! یہ جگنو دیکھ رہے ہو،ان میں سے ایک جُگنو، جُگ جُگ، سب سے الگ تھا۔ سب سے روشن، سب سے بےچین لیکن ایک رات وہ کہیں کھو گیا‘‘۔

ننھی مُنی مینڈکی لالی نے جلدی سے پوچھا،’’دادا، وہ کہاں گیا، کیا وہ بھی آسمان پر چڑھ گیا؟‘‘

دادا مینو نے آسمان کی طرف دیکھا، پھر مسکرا کر کہنے لگے،’’نہیں لالی، وہ ایک ایسی جگہ چلا گیا ،جہاں روشنی کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ ایک بوڑھی، تنہا مینڈکی کے دل کی اندھیری گہرائی میں‘‘۔

بچوں کی آنکھوں میں تجسس بھر آیا۔ ایک بچے نے بڑے جذبے سے کہا،’’ دادا،ہم جُگ جُگ کو ڈھونڈھیں گے۔

دادا نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلاتے ہوئے کہا،’’اگر ڈھونڈھ سکو تو‘‘

بچے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے، جگنوؤں کی ٹمٹماتی قطار کے پیچھے تالاب کی طرف نکل پڑے۔ وہ ہر جھاڑی، ہر پتّے، ہر گھاس کے پیچھے جھانکتے رہے، کبھی پانی کے اوپر منڈلاتی روشنیوں کو دیکھتے، کبھی پانی کی لہروں میں جُگ جُگ کی جھلک تلاش کرتے۔

ایک جگہ رُک کر ننھےمینڈک نے کہا،’’یہاں جھاڑیوں کے پیچھے، کچھ چمک رہاہے۔‘‘یہ سن کر سب بچے بھاگ کر وہاں پہنچے، تو صرف رات کی اُوس تھی جس کے قطرےچمک رہےتھے ۔ بچوں نے تالاب کے کنارے جھانکا تو پانی کی تہہ میں ایک نرم سی جھلملاتی روشنی دکھائی دی ۔لالی کے منہ سےدبی دبی سی چیخ نکلی،’’وہ دیکھو! پانی کے اندر روشنی‘‘

سب نے باری باری ڈُبکی لگائی۔ پانی میں نیچے ایک پرانی سی کھوہ نما غارتھا، جیسے تالاب کی گہرائی میں چھپی ایک چھوٹی سی سُرنگ ہو، اس میں ایک بوڑھی مینڈکی بیٹھی تھی۔ اس کی جلد پر جُھریاں تھیں، آنکھوں میں ماضی کی دھند اور ہاتھوں میں جُگ جُگ تھا۔ جُگ جُگ کی سنہری روشنی دادی کے اردگرد پھیل رہی تھی۔

دادی مینڈکی بچوں کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور آہستہ سے کہا’’آ گئے تم؟ میں جانتی تھی کہ تم ایک دن جُگ جُگ کو ڈھونڈھنے ضرور آؤ گے۔‘‘

لالی نے کہا، دادی !ہم اسے واپس لے جانا چاہتے ہیں۔‘‘

جُگ جُگ کی روشنی ہلکی سی تھرتھرائی اُس نے آہستگی سے کہا،’’میں یہاں خوش ہوں، دادی کی راتیں بہت تنہا تھیں ان سے کوئی بات کرنے والا نہیں تھا، میں ان کے پاس آ گیا۔ ان کے دل کی اندھیری رات میں ایک ننھی سی روشنی بن کر۔‘‘

ننھے مینڈک نے افسوس سے کہا،’’لیکن جُگ جُگ، ہم سب اور دادا،تمہیں بہت یاد کرتے ہیں۔‘‘

جُگ جُگ نے نرمی سے جواب دیا،‘‘روشنی صرف کھیلنے کے لیے نہیں ہوتی کبھی کبھی کسی کی تنہائی دور کرنے کے لیے بھی جلتی ہے۔ بوڑھے لوگ جیسے دادی، دادا جب عمر کے اس حصّے میں پہنچتے ہیں، تو انہیں سب سے زیادہ رشتوں کےساتھ کی، باتیں کرنے والوں، سننے والوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ تنہائی انہیں خاموش کر دیتی ہے۔ میں دادی کی تنہائی کا ساتھی ہوں۔‘‘

یہ سن کرسب بچے خاموش ہو گئے۔ تالاب کی تہہ میں نرم سی روشنی اور پانی کی ہلکی لہروں کے درمیان دادی مینڈکی اور جُگ جُگ کا ساتھ انہیں عجیب سی تسلی دے رہا تھا۔

لالی نے دھیرے سے کہا،"ہم روز تم سے ملنے آئیں گے‘‘۔

بوڑھی دادی کے چہرے پر پہلی بار خوشی کی چمک آئی،’’تم سب آؤ گے تو میری راتیں جگمگانے لگیں گی۔‘‘

سب بچے واپس تالاب پر آئے۔ دادا مینو نے ساری بات سُنی اور پھر آہستگی سے کہا،’’بچو! بوڑھے لوگ، جو سب سے زیادہ زندگی دیکھ چکے ہوتے ہیں، جب تنہا رہ جائیں تو ان کے دل کی روشنی بجھنے لگتی ہے، ان کی تنہائی ختم کرنے کے لیے رشتے، باتیں اور ساتھ ضروری ہوتا ہے۔ آپ سب بھی کبھی اپنی روشنی کا ایک حصہ ان کے لیے رکھ دینا۔‘‘

اس دن کے بعد، سب بچے، جگنواوردادی مینڈکی کے پاس روز جانے لگے۔ ہنستے، باتیں کرتے، کہانیاں سناتے، جُگ جُگ کی روشنی میں کھیلتے۔ دادی مینڈکی کی کھوہ اب تنہا نہ تھی۔ جُگ جُگ کی روشنی صرف ایک دائرے میں نہیں، سب کے دلوں میں جگمگانے لگی۔ تالاب، چاندنی اور جگنوؤں کی بستی میں اب کوئی اکیلا نہ تھا۔