کم و بیش 30X30 کے چھوٹے سے کمرے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔
جج کے لکڑی سے بنے روسٹرم کے سامنے وکلا،صحافیوں کے علاوہ مدعی مقدمہ اور ملزمان موجود تھے۔
جمعرات کے دن جب اس چھوٹے سے کمرے میں جج کی کرسی کے پیچھے دیوار پر لگی گھڑی نے ڈیڑھ بجایا تو کالے رنگ کے پینٹ کوٹ میں ملبوس ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد محمد عطا ربانی پر وقارانداز میں قدم اٹھاتے کمرے سے ملحق اپنے چیمبر سے عدالت میں لگی منصف کی کرسی پر براجمان ہوئے۔
جج نے اپنے چشمے کے پیچھے سے کمرے میں موجود افراد پر ایک طائرانہ نظرجمائی، جج کے ہاتھ میں فیصلہ تھا اور کمرے میں موجود تمام نظریں جج پر مرکوز تھیں۔
ملزمان کی سانسیں کہیں گلے میں اٹکی ہوئی تھیں تو مدعی مقدمہ اور ان کے ساتھی آنکھوں میں امید لیے جج کی طرف دیکھ رہے تھے۔
یہ 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں بے دردی سے ذبح کی گئی 28 سالہ نوجوان لڑکی نور مقدم کے قتل کے مقدمے کے فیصلے کی گھڑی تھی۔
اس قتل کے بعد عدالت میں سابق اٹارنی جنرل شاہ خاور اور ان کے جونئیر نثار اصغر ایڈووکیٹ نے جم کر نور مقدم کے والد کی طرف سے کم و بیش چار ماہ تک مقدمے کی پیروی کی تھی۔
جمعرات کی صبح ساڑھے 8 بجے جب میں عدالت میں پہنچا تو معزز ڈسٹرکٹ ایڈیشنل سیشن جج محمد عطا ربانی نے مختصر سماعت کرکے اعلان کیا تھا کہ وہ مقدمے کا فیصلہ دن ڈیڑھ بجے سنائیں گے۔
اس وقت عدالت میں نور مقدم کے قاتل ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی ہی آئی تھیں، پولیس نے اپنے چالان میں مذکورہ خاتون اور اس کے شوہر ذاکر جعفر کو بھی شریک ملزم قرار دیا تھا خاتون کی ضمانت ہو چکی تھی لیکن اسکا شوہر تاحال پابند سلاسل تھا۔
صبح معزز جج کے اعلان کے بعد اکثر لوگ تتر بتر ہوئے، مگرصحافی اسلام آباد کی ضلعی کچہری کے اس چھوٹے سے کمرہ عدالت کے اندر اور باہر بدستور جمے رہے، 11 بجے کے قریب معزز جج ایک بار پھر نمودار ہوئے اور عدالتی عملے کو حکم دیا کہ نور مقدم کیس کے ملزمان کو ان کے سامنے پیش کیا جائے وہ ان سے علیحدگی میں بات کرنا چاہتے ہیں ساتھ ہی انہوں نے صحافیوں سمیت غیر متعلقہ افراد کو کمرے سے نکل جانے کا حکم دیا۔
تھوڑی دیر میں پولیس مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سخت سیکیورٹی میں ہتھکڑی لگائے کمرہ عدالت میں داخل ہوئی، اسی طرح اس کیس کے دیگر ملزمان بھی بندکمرے میں جج کے سامنے پیش ہوئے اور پھر پولیس انہیں لے کر کمرہ عدالت سے تھوڑے ہی فاصلے پر موجود حوالات لے گئی۔
پولیس نے نور مقدم کیس میں مرکزی کردار ظاہر جعفر اور اس کےوالدین سمیت کل 12 افراد کو ملزم بنایا تھا۔
تھانہ مارگلہ اسلام آباد پولیس کے تفتیشی افسر عبدالستار نےاس بہیمانہ قتل میں نور مقدم کو 19 جولائی 2021 کو ظاہر جعفر کے گھر سے نکلنے کی کوشش ناکام بنانے والے واچ مین یا سیکیورٹی گارڈ افتخار اورمالی جان محمد کے ساتھ گھر کے باورچی جمیل کو بھی ملزم بنایا تھا۔
اسی طرح دماغی تھراپی کرنے والی نجی کمپنی کے مالک طاہر ظہور اور 20 جولائی کو ظاہرجعفر کے والدین کی کراچی سے دی گئی ہدایت پر ان کے گھر پہنچنے والے اسی کمپنی کے 6 ملازمین واہمک، دلیپ کمار، عبدالحق، ثمر عباس اور امجد کو بھی اس قتل کا ملزم قرار دیا تھا حالانکہ ظاہر جعفر نے اپنے گھر پر آنے والے ان ملازمین میں سے ایک امجد پر تیز دھار چاقو سے حملہ کرکے اسے شدید زخمی بھی کیا تھا۔
دن ڈیڑھ بجے عدالت لگی تو جج کے دائیں بائیں جانب پولیس کے دو اہلکار کھڑے تھے جبکہ دائیں جانب عدالت کا اسٹیو اشرف علی اپنے کمپیوٹر پر اور بائیں جانب عدالت کا ریڈر حسن گل اپنی دستاویزات پر عدالتی ماحول سے قدرے لاپروہ ہوکر اپنا کام کر رہے تھے۔
جج کے عدالت میں آنے سے پہلے کمرے میں وکلا، صحافی اور مدعی و ملزمان کی کھسر پھسر کے باعث عجیب آوازیں آرہی تھیں، جج محمد عطا ربانی ڈیڑھ بجے عدالت میں آئے تو کھسر پھسر کا زور ٹوٹا۔
انہوں نے آتے ہی کہا’کیا ملزمان آگئے ہیں‘، عدالت کے اندر سے کسی نے آواز لگائی سر آگئے ہیں، جج دوبارہ بولے کیا زیر حراست ملزمان بھی آگئے ہیں، پھر آواز آئی سر وہ آرہے ہیں۔
جج نے پوچھا کیا عصمت آدم جی آگئی ہیں؟ جواب آیا جی سر آگئی ہیں، جج نے کہا کہ میں جس جس کا نام لے رہا ہوں وہ ایک سائیڈ پر ہوجائے۔
جج نے سب سے پہلے عصمت آدم جی کا نام پکارا پھر باری باری محمد جمیل باورچی، طاہرظہور تھراپی کمپنی کے سربراہ اور اسی کمپنی کے دیگر 6 ملازمین واہمک، دلیپ کمار، عبدالحق، ثمرعباس اور امجد کے نام پکارے اور پھر کہا’میں نے جن کے نام لیے ہیں یہ تمام بری ہیں۔
جونہی جج نے بری کی صدا لگائی میرے ساتھ ہی کھڑے ایک نوجوان نے خوشی سے ہلکی آواز میں کہا ’اوہ یس، مجھے یقین تھا‘ جینز اور سرخ رنگ کی شرٹ میں ملبوس یہ نوجوان تھراپی ورکس کی نجی کمپنی کے کسی ملازم کا کوئی عزیز دوست تھا، جو اپنے پیارے کی بریت پرخوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا۔
میری ایک نظر عصمت آدم جی پر پڑی تو وہ بے سدھ کھڑی تھی جبکہ نور مقدم کا والد شوکت مقدم اپنے بھائی اورایک دوست کے ساتھ بدستور سنجیدگی سے جج کی طرف دیکھ رہے تھے۔
جج نے کہا کہ اب میں سزا کا اعلان کرتا ہوں، ظاہر جعفر، سزائے موت۔ افتخار احمد اور جان محمد کو 10،10 سال کی سزا، باقی سب بری۔
جج نے سزا سنائی تو شوکت مقدم کے ساتھ کھڑے افراد ان کے کان میں کچھ کہہ رہے تھے، میری نظر جج کے روسٹرم کے عین سامنے کھڑی ظاہر جعفر کی ماں پر پڑی، اس نے جج کی طرف پیٹھ کر کے بیرونی دروازے پر چلنا شروع کیا اور میرے پاس سے گذری، وہ اپنے ساتھ آئی کسی خاتون کی طرف جھک کر رورہی تھی۔
کمرے عدالت میں رش کی وجہ سے چلنا مشکل تھا، دو چارقدم چلنے کےبعد نور مقدم کے خاندان کے ساتھ یکجہتی کے لیے کمرہ عدالت میں موجود ایک خاتون نے قدرے اونچی آواز میں کہنا شروع کیا، ’ظاہرجعفرکو ہی نہیں بلکہ اسکی ماں کو بھی پھانسی پرلٹکایا جانا چاہیے‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک انگلی ظاہر جعفرکی ماں عصمت آدم جی پر بھی لگائی۔
تاہم عصمت آدم جی تیزی سے باہرنکل گئی، اسی دوران پولیس ہتھکڑی لگے ظاہر جعفر کو عدالت میں لائی تو اس کا چہرہ سپاٹ تھا، وہ سنجیدگی سے جج کی طرف دیکھ رہا تھا جج نے اسے بتایا کہ اسے سزا دے دی گئی ہے اور ایک حکم نامہ اسکی طرف بڑھایا، جسے ایک شخص نے پکڑلیا، کمرے سے لوگ نکلنا شروع ہوگئے ساتھ ہی تینوں مجرمان کو بھی پولیس سیکیورٹی میں باہر نکال لیا گیا۔
میں باہر نکلا ہی تھا تو میری نظر کمرہ عدالت سے نکلتے اوورکوٹ میں ملبوس نور مقدم کے والد شوکت مقدم پر پڑی، وہ اپنے بھائی اور ایک دوست کے ساتھ تھے، کسی نے بتایا کہ ان کی اہلیہ عدالت نہیں آئیں تھیں۔
شوکت کی آنکھیں چمک رہی تھیں کیونکہ ان کی بیٹی کے قاتل اور اس کے ساتھیوں کو سزا مل گئی تھی، تاہم ان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب تھی وجہ شائد یہ کہ انصاف مل گیا تھا بیٹی تو واپس نہیں ملی تھی۔