• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں جب اپنے گھر کے قریب پہنچا ہوں تو اچانک مجھے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ کا احساس ہوا جیسے کوئی دبے پاؤں میرے پیچھے پیچھے آ رہا ہے۔ میں نے دفعتاً پلٹ کر دیکھا اور میرے قدم سوسو من کے ہوگئے، اشوتتھاما میرے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ یہ کم بخت تو یہاں بھی آ گیا۔ اب میں کیسے اس سے چھٹکارا پائوں گا؟!

تب میں رویا اور میں نے گڑگڑا کر پالنے والے سے پوچھا کہ اے مرے پالنے والے، اے مرے رب، اس پریت کے تین ہزار سال آخر کب پورے ہوں گے؟ کب میں اپنا مورنامہ لکھ پائوں گا؟!

(ممتاز افسانہ نگار انتظار حسین کے شہرئہ آفاق افسانے ’’مور نامہ‘‘ سے اقتباس)

……٭٭……٭٭٭……٭٭……

دور درختوں میں تین جھینی پرچھائیاں رکی ہوئی تھیں۔ اِن میں سے دو مردوں کی پرچھائیاں تھیں، تیسری ایک عورت کی۔ وہ اتنی دھندلی تھیں اور ایسے لرزتی تھیں کہ اُن کے پار دشت کا سب کچھ نظر آتا تھا بالکل اس طرح جیسے روحیں سجیسٹ کرتے ہوئے فلم کے ڈبل ایکسپوژر میں پرچھائیاں دکھلائی جاتی ہیں تو اُن کے پار بھی سب کچھ نظر آتا ہے۔

نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ تین، جو اب مل کے بھی ایک زندہ جاوے نہیں بن سکتے تھے، کیا کریں گے؟ آگے کہاں جائیں گے؟ بس، دشت کے آف سیٹ میں وہ وہیں رکے ہوئے تھے۔

اور تبھی یہ کھلا کہ جب کوئی امنگوں بھرا جوان مرتا ہے تو ایک دوست اس کا اور اُس کی داشتہ اُسی کے ساتھ مر جاتے ہیں۔

(عہدآفریں افسانہ نگار اسد محمد خان کے افسانے ’’اک دشت سے گزرتے ہوئے‘‘ سے اقتباس)

……٭٭……٭٭٭……٭٭……

تو جناب میں آپ کو اپنے ساتھ داتا دربار کے پیچھے یہ دکھانے کے لیے لایا تھا کہ یہاں لوہے کی جس دکان اشرف اسٹیل مارٹ کے سامنے سیلی زمین پر ایک منگتا بیٹھا رہتا ہے اور جس کے سامنے ڈالڈے کے ٹین میں اس کی دن بھر کی یافت ہوتی ہے، یہ وہی اشرف ہے جس نے اپنے تھیورٹیکل فزکس کے تھیسس پر بعد میں پی ایچ ڈی کر لی تھی اور جس کے پلوٹونیم ایندھن کے میتھڈ کو بنیادی طور پر اب بھی ساری دنیا میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اشرف سارا دن اس گیلی سیلی اور نم ناک مٹی پر بیٹھا سامنے کے سائن بورڈ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہتا ہے جہاں لفظ اشرف اس کو بے حد مانوس نظر آتا ہے۔ بات یہ ہے کہ جب نیورو سرجن نے اس کے دماغ میں یادداشت کے حصے کو لیزر سے جلایا تھا تو میموری کا ایک سیل خاکستر ہونے سے رہ گیا تھا۔

(معروف افسانہ نگار اشفاق احمد کے شاہکار افسانے ’’اشرف اسٹیل مارٹ‘‘ سے اقتباس)

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ 

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ 

ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی