2020ء میں کووِڈ-19وبائی مرض کے عالمی پھیلاؤ کے بعد دیگر شعبہ جات کی طرح ریئل اسٹیٹ کا شعبہ بھی شدید متاثر ہوا اور دنیا کے تمام بڑے شہروں میں گھروں کی قیمتوں میں شدید گراوٹ دیکھی گئی۔
ایک سال بعد 2021ء میں ہاؤسنگ مارکیٹ میں کچھ جان پڑی او رایک سروے کے مطابق، دنیا بھر میں گزشتہ سال گھروں کی قیمتوں میں اوسطاً 16فی صد اضافہ دیکھا گیا۔ امریکا کی کچھ ریاستوں میں یہ اضافہ 30فی صد تک بھی ریکارڈ کیا گیا۔ پسماندہ ترین بڑے شہروں میں بھی گھروں کی قیمتیں 10فی صد تک بڑھیں۔
پاکستان کی ہاؤسنگ مارکیٹ کی بات کریں تو ہرچند کہ، اس حوالے سے کوئی ٹھوس سروے یا سائنٹیفک بنیادوں پر تیار کی گئی کوئی رپورٹ موجود نہیں ہے تاہم ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز کے مطابق، ملک میں ایک کروڑ سے زائد رہائشی یونٹس کی کمی ہے۔ ایک ایسی مارکیٹ جہاں کئی لاکھ رہائشی یونٹس کی کمی ہو، ایسی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنا کسی طور پر گھاٹے کا سودا نہیں ہوسکتا۔ کچھ لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ ملک میں رہائشی یونٹس کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اگر طلب موجود ہے تو پھر زیادہ قیمتیں بھی اس مارکیٹ کی مزید ترقی کو نہیں روک سکتیں۔ اگر آپ ایک ہاؤسنگ یونٹ خرید کر اسے کرایہ پر چڑھا دیتے ہیں تو جیسے جیسے قیمتیں بڑھیں گی، آپ کو گھر کا کرایہ بھی زیادہ ملتا رہے گا۔
تاہم ماہرین کے مطابق، دوسرا نظریہ غلط بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
اگر آپ طویل مدت کے لیے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کررہے ہیں تو اس صورت میں آپ کو زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اس مارکیٹ کا طویل مدتی رجحان ہمیشہ مثبت رہا ہے لیکن اگر آپ ریئل اسٹیٹ میں قلیل مدت کے لیے سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں اور خریدنے کے بعد اسے کرایہ پر دینا چاہتے ہیں تو موجودہ سخت معاشی حالات کے دور میں آپ یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ آپ ہر سال کرایہ میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتے ہیں، کیوں کہ لوگوں کی آمدنی نہ بڑھنے کے باعث آپ کے لیے نیا کرایہ دار تلاش کرنا مشکل ہوگا اور موجودہ کرایہ دار سے کرایہ میں اضافہ کا مطالبہ بھی آسان کام نہ ہوگا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کرایہ اور آمدنی کے درمیان ایک معاشی تعلق ہے۔ اگر لوگوں کی آمدنی نہیں بڑھ رہی تو وہ آپ کو اضافی کرایہ نہیں دے سکیں گے۔
امریکا کی ریاست آسٹن میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق، 2010ء سے 2019ء کے درمیان لوگوں کی آمدنی میں 50فی صد اور ہاؤسنگ کرایوں میں اوسطاً 44فی صد اضافہ ہوا۔ دنیا کی ہر بڑی ہاؤسنگ مارکیٹ کی یہی صورتِ حال رہی ہے۔ آمدنی میں اضافہ کے تناسب سے ہی گھر کے کرایوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
گھروں کی قیمتوں کا طویل مدت میں بھی آمدنی کے ساتھ تعلق ہوتا ہے لیکن قلیل مدت میں یہ تعلق زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ امریکا کی تقریباً تمام بڑی ریاستوں میں لوگوں کی آمدنی کے مقابلے میں گھروں کے کرایوں میں کم اضافہ ہوا ہے۔ امریکا کی ایک، دو ریاستوںجیسے شارلٹ میں کرایوں میں اضافہ آمدنی کے اضافہ کے برابر تھا۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ قلیل مدت میں گھروں کے کرایہ جات میں اضافہ آمدنی میں اضافہ سے زائد ہوسکتا ہے لیکن یہ رجحان طویل عرصہ تک جاری نہیں رہ سکتا۔ اگر گھروں کے کرایہ جات اور آمدنی کے درمیان طویل مدتی تعلق کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس میں زبردست اتار چڑھاؤ نظر آئے گا لیکن امریکا جیسے ملک میں سالانہ بنیادوں پر گھروں کے کرایہ جات میں اوسط اضافہ پانچ فی صد سے زائد نظر نہیں آئے گا۔ اگر کبھی یہ اضافہ زیادہ نظر آیا ہے تو بھی قلیل مدتی ثابت ہوا ہے۔
’لوکل مارکیٹ مانیٹر‘ امریکا میں گھروں کے کرایہ جات کا سروے کرنے والا ایک ادارہ ہے۔ اس ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں 2021ء میں گھروں کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد سرمایہ کاروں کو خبردار کیا ہے کہ اس سال امریکا میں گھروں کی قیمتوں میں شدید کمی ہوسکتی ہے، کیوں کہ گھروں کی قیمتوں میں گزشتہ سال سے ہونے والا اضافہ ملک کی مجموعی معاشی صورتِ حال کا عکاس نہیں ہے اور اضافہ کا یہ رجحان زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ اور اس کا اثر گھروں کے کرایہ جات پر بھی آئے گا، مطلب گھروں کے کرایہ میں کمی کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
امریکا کی ہر ریاست میںکرایہ کے گھروں میں رہنے والے افراد یا خاندانوں کا اچھا خاصا وسیع حلقہ ہے، جہاں گھروں کا ماہانہ کرایہ 800ڈالر سے 2,000 ڈالر یا اس سے زائد ہے۔ سروے کے مطابق، سب سے زیادہ کرایہ دار اوسط حد میں آتے ہیں، جسے ’’بیسٹ رینٹ رینج‘‘ کہا گیا ہے۔ سروے کے مطابق، اس رینج میں کرایہ دار مستحکم قیمتوں کو پسند کرتے ہیں اور وہ سالانہ بنیاد پر گھروں کے کرایہ میں صرف معمولی اضافہ برداشت کرسکتے ہیں، چاہے گھروں کی قیمتوں میں اضافہ زیادہ کیوں نہ ہوا ہو۔
اس سروے کے مطابق، سرمایہ کاروں کو ایسے ریزیڈنشل یونٹس میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، جنہیں ’’بیسٹ رینٹرز رینج‘‘ ہدف بناتی ہے۔ ایسے ہاؤسنگ یونٹس میں سرمایہ کاری سب سے زیادہ سود مند ثابت ہوگی۔