کراچی (رفیق مانگٹ) پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی غیر یقینی صورتحال اور وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد پر غیر ملکی جریدے نے لکھا کہ سیاسی اور جیوپولیٹیکل اتحادی چین نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کے تناظر میں ’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کا طریقہ اپنایا ہے۔
وہ یہ جاننے کی کوشش میں ہے کہ آیا اس کی پسندیدہ اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز اقتدار سنبھال سکتی ہے۔جاپانی میڈیا’نکی ایشیا‘‘ نے ماہرین کے حوالے سے لکھا کہ خان کی ممکنہ معزولی کے بعد، چین مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکومت کو ترجیح دے گا۔
ن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ترجیح دیتا ہے لیکن، اگر عمران خان تحریک عدم اعتماد سے بچ جاتے ہیں، تب بھی چین ان کے ساتھ کام کرے گا، اگرچہ کم جوش و خروش کے ساتھ۔موجودہ حکومت کا انسداد بدعنوانی پر زور بیجنگ کے لیے تشویش کا باعث ہے، سی پیک کے حوالے سے اس کی اپنی ترجیح کو دیکھتے ہوئے چین میں یہ خدشات بھی ہیں کہ خان حکومت نے چینی منصوبوں اور پاکستان میں چینی شہریوں کے لیے سیکورٹی کے خطرات کو خاطر خواہ طور پر حل نہیں کیا ہے۔
مارچ کے آغاز سے ہی مسلم لیگ (ن) سمیت اپوزیشن جماعتیں خان حکومت کو گرانے کے لیے تحریک عدم اعتماد کی تیاری کر رہی تھیں۔ اب قومی اسمبلی اس تحریک پر ووٹنگ کرنے والی ہے۔ اگر تحریک 342 میں سے کم از کم 172 ووٹ حاصل کرتی ہے، تو خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑے گا۔پولنگ کی تیاری میں، سیاسی ماحول گرم ہو گیا ہے، خان کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اعلان کیا ہے کہ وہ ووٹ کے دن اسلام آباد میں ایک میگا ریلی نکالے گی، اس اقدام کو عدم اعتماد کے ووٹ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
اسی طرح اپوزیشن جماعتوں نے خان حکومت کی سیاسی چالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے 23 مارچ کو اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔پاکستانی حکومت کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نکی ایشیا کو بتایا کہ چین نے موجودہ سیاسی بحران میں انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اپنائی ہے۔
بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا پچاس ارب ڈالر کا پاکستانی حصہ سی پیک پرموجودہ حکومت کے دور میں بہتر پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت میں نئی حکومت سی پیک میں نئی جان ڈالنے میں کامیاب ہو گی۔
اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اشتیاق احمد کا خیال ہے کہ بیجنگ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے 2018 سے سی پیک منصوبوں کی رفتار سست کرنے پر ناراض ہے۔مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کے ساتھ چینی خوش تھے۔ اور اگر سیاسی تبدیلی انہیں اقتدار میں واپس لاتی ہے تو وہ پرجوش ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر خان کی حکومت گرتی ہے تو چین اور پاکستان کے درمیان اعتماد سازی کا فقدان ختم ہو جائے گا، اور سی پیک منصوبوں کے پیش نظرشہباز شریف کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کا امکان چین کو خوش کر دے گا۔واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے بتایا بیجنگ نے مسلم لیگ (ن) کی پچھلی حکومت جو 2018 میں ختم ہوئی کے ساتھ معاملات بہتر سطح پر تھے، یہ وہ انتظامیہ تھی جس نے بیجنگ کے ساتھ سی پیک کا آغاز کیا تھا۔
اگرچہ موجودہ حکومت کا انسداد بدعنوانی پر زور بیجنگ کے لیے تشویش کا باعث ہے، سی پیک کے حوالے سے اس کی اپنی ترجیح کو دیکھتے ہوئے چین میں یہ خدشات بھی ہیں کہ خان حکومت نے چینی منصوبوں اور پاکستان میں چینی شہریوں کے لیے سیکورٹی کے خطرات کو خاطر خواہ طور پر حل نہیں کیا ہے۔
سرگودھا یونیورسٹی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف چائنا اسٹڈیز کے ڈائریکٹر فضل رحمان کا اس معاملے پر مختلف موقف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کا واضح انتخاب یہ ہوگا کہ وہ موجودہ حکومت کو اپنی روٹین کی مدت پوری کرنے دے اور انتخابات کے ذریعے تبدیلی لائیں جو صرف ایک سال باقی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد جیسے اقدام سے ایک ایسے وقت میں جب ملک معاشی پریشانیوں پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، تحریک اور سیاسی عدم استحکام موروثی خطرات ہیں۔کوگل مین نے کہا،چین کے لیے، اہم تشویش یہ ہے کہ اگر حکومت میں تبدیلی آتی ہے تو اگلی قیادت کیسی نظر آتی ہے، اور اگر نئی حکومت کی طرف منتقلی کا طویل عمل ہوتا ہے تو غیر یقینی صورتحال اور اتار چڑھاؤ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ چین پرامید ہے کہ سیاسی بحران قابو سے باہر نہ ہو جائے۔