مقابلے کےدوران فوری طبی امداد نہ ملنے پر کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والے باکسر طاہر علی جان کی بازی ہار گئے۔ اس سانحےکی حیران کن بات یہ ہے کہ ایونٹ کے دوران میڈیکل سہولت اور ایمبولنس نہ ہونے پر طاہر علی کو اس کے بھائی رکشہ میں ڈال کر قریبی علاقائی اسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹرز نےان کا معائنہ کرنےکے بعد فوری ٹراما سینٹر (سول اسپتال) لے جانے کیلئے کہا لیکن وہاں پہنچنے سے پہلے ہی طاہر انتقال کر گئے۔
گزشتہ سال فروری میں گلشن اقبال میں راشد منہاس روڈ پر پویلین کلب میں بھی پروفیشنل باکسنگ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام مقابلوں کے دوران ایک باکسر کی ہلاکت کا واقعہ پیش آچکا ہے لیکن منتظمین نے اس سے کچھ نہیں سیکھا۔ اسلم اور ولی کے درمیان باؤٹ جاری تھی کہ ولی کا ایک پنچ لگنے سے اسلم رنگ میں گر پڑا اور ریفری کی گنتی کے دوران بھی نہیں اٹھ سکا تو اسے فوری طور پرطبی امداد کیلئے قریبی اسپتال لیجایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا۔ کراچی باکسنگ کی تاریخ کا دوسراجان لیوا واقعہ سندھ باکسنگ ایسو سی ایشن کے زیراہتمام بے نظیر اسپورٹس کمپلیکس ماری پور میں ہونے والی یوم پاکستان کراچی باکسنگ چیمپئن کی تیاری کیلئے کھلاڑیوں کے ٹرائلز کے دوران پیش آیا۔
چیمپئن شپ کیلئے ٹرائلز میں کئی باکسرز شامل تھے- 60 کے جی کے مقابلے میں طاہر کی گردن پر مخالف باکسر کا پنچ لگا اور وہ لڑکھڑا کر رنگ میں گر پڑے اورفوری طبی امداد نہ ملنے پرپاکستان باکسنگ کی تاریخ کا ایک اور تاریک پہلو اجاگر کرگئے۔ اس واقعہ کے ذمہ دار کون ہوں گے؟ یہ ایک سوال ہے۔ گزشتہ ادوار کی طرح خطوط لکھے جائیں گے، تحقیقات کا ایک سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا جائے گا لیکن ذمہ دار پھر بھی بچ جائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ کوتاہی کے مرتکب افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ ایسا کوئی جا لیوا واقعہ پیش نہ آئے۔
ایسے لوگوں کا احتساب ہونا چاہئےجو نوجوانوں کی جان کی پروا کیے بغیر ایونٹس کراتے ہیں، جہاں نہ ہی کوالیفاہیڈ کوچز اورڈاکٹرز موجود ہوتےہیں اور نہ ہی ایمبولینس کا انتظام ہوتا ہے یا وہ نان کوالیفائیڈ کوچز جو باکسروں کو ایسے مقابلوں میں لے کے جاتے ہیں جہاں ابتدائی طبی امداد کا سامان تک نہیں ہوتا، جنہیں اتنا بھی پتہ نہیں ہوتا کہ اگر باکسر کو ہیڈ انجری ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے۔
انسانی موت کےتاریک واقعات کے وہ لوگ بھی ذمہ دار ہیں جو اسپورٹس بورڈ اور اسپورٹس سیکریٹریٹ میں بیٹھے ہیں۔ وہ کن لوگوں کو ٹورنامنٹس کرانے کیلئے بھاری فنڈز جاری کرتے ہیں۔ وہ یہ جاننے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ لاکھوں روپے کی مد میں جاری فنڈز کہاں خرچ ہورہے ہیں۔ نادر بلوچ سعید اباد، باکسنگ کلب سے تعلق رکھنے والے21 سالہ طاہر علی پانچ بھائیوں اور دو بہنوں میں چھٹے نمبر پر تھے۔ والدین حیات ہیں، طاہر کے انتقال پر پورے گھر، محلےاور باکسنگ حلقے میں صف ماتم بچھ گئی۔
طاہر نے کلب مقابلوں سمیت آل کراچی اور آل سندھ مقابلوں میں بھی حصہ لیا اور میڈلز بھی جیتے۔ ان کے بھائی محمد بخش جو خود بھی باکسر ہیں۔ طاہر کے مقابلے کے بعد رنگ کے قریب ہی کھڑے تھے ان کے رنگ میں گرنے کے بعد اسے اٹھا کر رکشے میں ڈال کر اسپتال لیکر گئے لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ انہوں نے جنگ سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ ٹرائلز سے پہلے کسی بھی باکسر کا مکمل میڈیکل ہوتا ہے۔ا س دوران ریفری اور ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں جو مقابلوں میں شرکت سے قبل باکسر کے فٹ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن طاہر علی کے مقابلے کے موقع پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔
ہمارا تعلق غریب فیملی سے ہے، طاہر میرا چھوٹا بھائی تھا، اس کی کوشش تھی کہ کسی ڈپارٹمنٹ میں نوکری حاصل کرکے گھر کے حالات بدلنے کی کوشش کرے، وہ مقابلوں میں بھی حصہ لیتا تھا اورگھر کی دال روٹی چلانے کیلئے دیہاڑی پر ملازمت بھی کرتا تھا۔ باکسنگ میں اپناوقت صرف کرنے اور ملک کا نام روشن کرنے کی آس لئے طاہر تو دنیا سے چلا گیا۔ میری اسپورٹس ڈپارٹمنٹ سے درخواست ہوگی کہ مجھے کھیلوں کے ادارے میں نوکری فراہم کردیں تاکہ میرے گھر کے حالات بہتر ہوسکیں۔
معاون خصوصی برائے کھیل حکومت سندھ ارباب لطف اللہ باکسنگ مقابلے کے دوران طاہر علی کی ہلاکت کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کی مکمل تحقیقات کا حکم دیدیاہے۔ ان کا کہنا ہےکہ کھلاڑی ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں ان کی جان کی ہرممکن حفاظت ہمارا اولین فرض ہے۔ اس افسوس ناک واقعہ کے جو بھی ذمہ دار ہوں گے ان کو سزا بھی دلوائی جائے گی تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سدباب ہوسکے، جنگ سے باتیں کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے طاہر علی کی مقابلے کے دوران انتقال کی جیسے ہی خبر ملی میں نے سیکرٹری اسپورٹس کو ہدایت کہ پہلی فرصت میں جو بھی متعلقہ لوگ یا ایسوسی ایشن ہے اسے خط لکھا جائے اور ان سے واقعہ کی تمام تر تفصیلات معلوم کی جائیں اور خود بھی اپنے طور پر تحقیقات کی جائیں اگر ان کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوتاہی برتی گئی ہے تو اس کا سدباب کیا جائے گا۔
میں طاہر کے لواحقین سے دلی اظہار تعزیت کرتا ہوں ۔اس سوال کے جواب میں کہ دنیا بھر میں جہاں باکسنگ ٹرائلز یا مقابلے کرائے جاتے ہیں وہاں ڈاکٹر موجود ہوتا ہے، ایمبولینس کا انتظام ہوتا ہے اور کوالیفائیڈ کوچز موجود ہوتے ہیں جنہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہیڈ انجری ہو جاہے تو انہیں کیا کرنا چاہیے- طاہر علی کو رکشہ میں ڈال کر اسپتال لیجایا گیا۔ ارباب لطف اللہ نے کہا کہ بالکل ٹرائلز اور مقابلوں کے دوران تمام حفاظتی اقدامات لئے جانے چاہئے تھے جو بھی کچھ ہوا ہے اس کی مکمل تفصیل آنے کے بعد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
اس سوال کے جواب میں کہ حکومت سندھ اسپورٹس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے مختلف ایسو سی ایشنوں کے لوگوں کو فنڈز تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن مقابلوں کے دوران کسی قسم کی سہولت اور کھلاڑیوں کو فراہم نہیں کرتے، ارباب لطف اللہ نے کہا کہ ان تمام چیزوں کی بھی تحقیقات کرائی جائے گی اور آئندہ کھلاڑیوں کو سہولیات کی فراہمی کا ریکارڈ بھی مرتب کیا جائے گا۔