روزنامہ جنگ کے 75برسوں کا احاطہ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس نے دوسرے شعبوں کی طرح تعلیم اورصحت کے مسائل کو بھی اجاگر کیا اور حکومت کی توجہ ان شعبوں کے مسائل اورمشکلات کی طرف دلائی۔ صحت کے شعبے کےبہت سے مسائل کوخبروں ، مضامین ، کالموں اور میرخلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی کے تحت سیمینارز میں اجاگر کیا۔ حکومت ِ وقت نے اس پر کارروائیاں بھی کیں۔ ’’جنگ‘‘ کے ہرا سٹیشن نے مقامی اور قومی سطح پرصحت سے متعلق مسائل اجاگر کرنے اور عوام کو آگاہی اور شعور دینےمیں اہم کردار ادا کیا۔ لاہور میں1981میں طب کے بارے میں باقاعدہ صفحہ ’’جنگ کلینک ‘‘ کے عنوان سے اور تعلیمی صفحہ ’’ فکرِ فردا‘‘کے نام سےشروع کیاگیا۔
1981سے تاحال قارئین کو صحت اور مختلف بیماریوں کے حوالے سے آگاہی دی جارہی ہے۔مثلاً 1982 میں جنگ فورم میں ہیپاٹائٹس بی ، سی اور ایڈز کے بارے میں آگاہی دی۔ تعلیم کے حوالے سے پہلا فورم 24ستمبر1981کو بہ عنوان’’سیمسٹرسسٹم‘‘کرایا گیا جس میں سیمسٹر سسٹم کی خرابیوں کو اجاگرکیا گیاتھا۔اس کے نتیجے میں 1982 میں پنجاب یونیورسٹی نے ایم بی اے اور ایم پی اے ڈپارٹمنٹ کو چھوڑ کر باقی تمام شعبہ جات میں سیمسٹر سسٹم ختم کردیا تھا۔
اس طرح میڈیکل کا ہفتہ وار صفحہ شروع کیا گیا جس میں بیماریوں پرفورم اور معروف ڈاکٹروں کے انٹرویوز شائع کیے گئے۔ مختلف بیماریوں کے بارے میں معروف طبیبوں کو مدعو کیا جاتا اور حاضرین ان سے بیماریوں کے بارے میں سوالات کرتے۔ میرخلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی اپنے سیمینارز کے ذریعے قارئین کو بیماریوں اور ان کے علاج کے بارے میں آگاہ کرتی رہتی ہے۔ اس دوران جنگ نے ایک اور نیا سلسلہ شروع کیا، ایک ڈاکٹر ایک سوال۔
یعنی کسی ایک بیماری کےماہر طبیب کو جنگ کے دفتر مدعو کیا جاتا اور اس کا باقاعدہ اخبار میں اشتہار دیا جاتا۔ قارئین فون پراپنی بیماریوں کے بارے میں سوال کرتے اورطبیب ان کی رہنمائی کرتے۔ یہ سلسلہ عوام میں بہت مقبول ہوا۔قارئین اپنی بیماریوں کے بارے میں سوالات کرکے مفت میں علاج کی سہولت حاصل کرتے۔ جو ڈاکٹر اس پروگرام میں آتےان سے درخواست کی جاتی کہ جو لوگ انہیں ان کے نجی کلینک میں دکھاناچاہیں ان سے نصف فیس لی جائے اور غریب مریضوں کامفت علاج کیا جائے۔ اسی طرح ایک ماہر تعلیم اور ایک سوال کے تحت کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا کالج کے پرنسپل، بورڈ کے چیئرمین، سیکریٹری یا کنٹرولر امتحانات کو مدعوکیا جاتا اور وہ طالب علموں کی رہنمائی کرتے۔ یہ سلسلہ بھی بہت مقبول رہا۔
1981 سے1992 تک جنگ فورم ، خبروں اور انٹرویوز کے ذریعے صحت کے مسائل، بیماریوں کے بارے میں آگاہی اورعلاج معالجے کے لیے طبّی کیمپ قائم کیے گئے۔ چیف ایگزیکٹومیر شکیل الرحمٰن کی ہدایت پر فروری1992میں میرخلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی قائم کی گئی۔ اس سوسائٹی کے بنیادی مقاصد میں ، طب، تعلیم، سیاست، مذہب، سماجی مسائل، آئی ٹی، تعمیرات، زراعت، بیماریوں وغیرہ کے حوالے سے نہ صرف پورے پاکستان بلکہ بیرون ملک سیمینارز کرانا شامل ہے۔ 1992 سے تاحال سوسائٹی مذکورہ موضوعات پرکئی سو سیمینارز کراچکی ہے۔یہ سیمینارز صرف بات چیت یا لیکچرز تک محدود نہیں تھے بلکہ صحت کے بارے میں سیمینارز میں جو ماہرین صحت اور ڈاکٹرز آتے تو تین سے پانچ ڈاکٹرزکے کلینک بھی بنائے جاتے،جہاں مریضوںکا بالکل مفت معائنہ کرایا جاتا اورڈاکٹرزادویات تجویز کرتے۔
ان سیمیناروں میں اب تک لاکھوں افراد شرکت کر چکے ہیں، نیز طبیبوں، اساتذہ، ماہرین، مذہبی رہنمائوں اور سیاست دانوں نے ان سیمینارز میں خطاب کیا۔ میرخلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی نے عوام کو صحت، صفائی اور بیماریوں کے بارے میں آگاہی دینے میں جو بھرپور کردار ادا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان سات سو سیمینارز کی آڈیو، وڈیو ریکارڈنگ اور تصاویر بھی محفوظ ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحت کے مسائل اور بیماریوں کے بارے میں سیمینارز کا یہ سلسلہ کیوں شروع کیا گیا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور یہاں کی آبادی کی اکثریت کو بیماریوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں، جس کی وجہ سے لوگوں میں روزبہ بروز بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ سرکاری وسائل محدود ہیں اورنجی شعبے میں علاج بہت منہگا ہے۔ ’’جنگ‘‘ کے میڈیکل ایڈیشن، کالم اور سیمینارز میں نجی شعبےکے ڈاکٹرز کی لوٹ مار کو اجاگرکیاگیاجس کے بعدحکومت کی جانب سے کارروائیاں بھی ہوئیں۔ مثلا پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، لاہورکےبورڈ آف مینجمنٹ کو وزیراعلیٰ پنجاب نے توڑ دیا۔
شہرِ قائد، کراچی میں تیس سے زائد سیمینارز مختلف بیماریوں کے بارے میں کرائے گئے،مثلاًسرطان، تھائی رائڈز، گردوں کی بیماریاں، کان، ناک اور گلے کی بیماریاں، سماعت کی معذوری، رعشہ کی بیماری، چکن پاکس، ذیابطیس، انسولین کا استعمال اور اس کے عوامل، ہیپاٹائٹس سے بچائو اور علاج ممکن ہے؟ پاکستان میں جگر کی بڑھتی ہوئی بیماریاں، لیڈی ہیلتھ ورکرزکا کردار، آنکھوں کی بیماریاں، ہڈیوں کی بیماریاں اور بچاؤ کیسے؟ آرتھو پوروسس۔اس کے علاوہ حجاج کرام کےلیے کراچی ،لاہو راور راولپنڈی میں خصوصی سیمینارز کرائے گئے جن انہیں آگاہی دی گئی کہ و یکسی نیشن کے کیا فوائد ہیں اورحج اور عمرہ کرنے سےقبل ویکسی نیشن کیوں ضروری ہے؟ ان سیمینارز میں حج کرنے والوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ کراچی ہی میں پھیپھڑوں کی تنگی کی دائمی بیماری اور علامات، بچوں کے قد سےمتعلق مسائل اور دمے کے بارے میں سیمینار کرائے گئے۔
میرخلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی کے تحت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف بیماریوں مثلاً آنکھوں، کینسر اور ہڈیوں کی بیماریوں پر سیمینار منعقد کرائےاور میڈیکل کیمپس لگائے گئے۔ یہاں ان میں سے صرف چند ایک کا ذکر کریں گے، کیوں کہ تمام کا ذ کر کرنا ممکن نہیں۔ سرطان کے بارے میں راولپنڈی میں منعقدہ سیمینار کی صدارت بیگم صہبا مشرف(اہلیہ سابق صدر)نے کی تھی۔ کسی اخباری ادارے کے سیمینار میں یہ ان کی پہلی اور آخری شرکت تھی۔اس کے علاوہ بلڈپریشر، ذیابطیس، دل کے امراض، اچھی صحت کے تقاضے،کینسر، جوڑوں کے درد، خطرناک بیماریاں پھیلنے کی وجوہات، جلد کی بیماریاں، ہیپاٹائٹس کیا ہے؟
پاکستان میں کان، ناک اور گلے کی بیماریاں، پولیو، سماعت کی معذوری، جلدی امراض اور لیزر سرجری، ٹائیفائیڈ، ایک موذی اور جان لیوا مرض، پاکستان میں بہرے پن کی وجوہات، ریڈیالوجی: ماضی،حال اور مستقبل ، انسولین کا استعمال اور اس کے عوامل، بچوں کی سات بیماریاں اور حفاظتی ٹیکوں کی اہمیت، ہونٹ اور تالو کٹے بچے، ماں اور بچے کی صحت، حفاظتی ٹیکے اور قطرے، خسرہ جان لیوا مرض، ڈینگی سے بچائو کیسے؟، ایڈز ار ہماری اخلاقی ذمے داریاں، ڈپریشن کا کرب و اذیت، موٹاپا:پےچیدگیاں اور جدید علاج، سر در کئی پےچیدگیوں کی علامت، کمرکا درد، اسپتالوں کا کوڑا کرکٹ صحت کے لئے جان لیوا، اینجیوپلاسٹی اور جدید تحقیق، کولیسٹرول کی زیادتی، اندھے پن سے بچائو اور حفاظتی تدابیر،خاندانی منصوبہ بندی وغیرہ کےموضوعات پر خصوصی سیمینارز منعقد کرائے گئے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔
میرخلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی کے تحت صحت کے حوالے سے جو سیمینار منعقد ہوئے، ان کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیےاوربیماریوں کے بارے میں آگاہی دی جاسکے۔ یہ اعزاز جنگ گروپ کو حاصل ہے کہ وہ قارئین کی صحت پر بھی خصوصی توجہ دیتا ہے۔ ایم کے آر ایم ایس نے ان ہی سیمینارز کے توسط سے سیکڑوں مریضوں کے مفت علاج بھی کرائے۔ پاکستان میں لوگوں کو اپنی صحت اور بیماریوں کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں، نئی نئی بیماریاں جنم لے رہی ہے، طب کے شعبے میں علاج کےنت نئے طریقے سامنے آ رہے ہیں، اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ عوام کو ان کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
جنگ گروپ یہ ذمے داری بہ خوبی نبھارہا ہے۔ سوسائٹی کے سیمینارز میں مختلف جدید مشینیں بھی شرکاء کو دکھائی گئیںاور ان کی افادیت بتائی گئی۔ پاکستان میں جب پہلی مرتبہ الٹراسائونڈ کےلیے تھری ڈی مشین آئی تواس کا نہ صرف عملی مظاہرہ کیاگیا بلکہ حاملہ خواتین کو سیمینار میں بلا کر اس مشین کی افادیت کے بارے میں بتایاگیا۔ کئی حاملہ خواتین کے موقعے پرٹیسٹ بھی کرائے گئے ۔
1981 سے1990تک ہر ہفتے ’’جنگ‘‘نے چار صفحات تعلیمی اداروں کی سرگرمیوں کے بارےمیں شائع کئے۔ ان میں سےدو صفحات رنگین اور دو بلیک اینڈ وائٹ ہوتے تھے۔ ان چار صفحات پر تعلیمی اداروں کے مسائل پیش کیے گئے اور ہونہار طلبا اور تعلیمی اداروں کے سربراہوں کے انٹرویو زکے ساتھ جنگ فورمز کی روداد بھی پیش کی گئیں۔ مذاکرے اورتقریری مقابلے کرائے گئے اور این سی اے، کالج آف ہوم اکنامکس، پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فنون میں طلبا کے تھیسز ورک کو نمایاں کیاگیا۔
1990 کی دہائی میں ’’جنگ‘‘ نے روزانہ ایک تعلیمی اور طب کا صفحہ بھی شایع کرنا شروع کیا۔ جنگ گروپ کی پالیسی ہےکہ نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ایسے نوجوان جنہوں نے زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی کارنامہ نجام دیا ہو انہیں عوام کے سامنے لایا جائے۔ جنگ لاہور، کراچی اور راولپنڈی نے خصوصی طور پر نوجوانوں کی سرگرمیوں اور تعلیمی اداروں کی تقریبات کو بہت نمایاں طور پر شائع کیا۔ اور نہ صرف طلبا بلکہ اساتذہ، حتیٰ کہ لوئرا سٹاف تک کے مسائل کو اجاگر کیا۔ جنگ نے اپنے ادارتی نوٹس میں نصاب، ذریعہ تعلیم، غرض یہ کہ ہر ایسے موضوع پر بات کی جو اس سے قبل کسی اخبار نے نہیں کی تھی۔ فنی تعلیم کے فروغ، خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ادارتی نوٹ اور خبریں شایع کیں اور حکام کی توجہ ان امور کی جانب مبذول کرائیں۔
ایک طرف جنگ کے تعلیمی ایڈیشنز میں تعلیمی اور اساتذہ کے مسائل پر بات ہوئی تو دوسری طرف میرخلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی کے تحت تعلیمی سلسلہ شروع کیا گیا جوتیس برس سے جاری ہے۔ ان برسوں میں ہزاروں طلبا نے ایم کے آرایم ایس کے تعلیمی سیمینارز میں شرکت کی۔ کیریئر کونسلنگ کے بارے میں خصوصی پروگرام کرائے گئے،طلبا سے کئی پروگرامز کی کمپیئرنگ کرائی گئی تاکہ ان میں خوداعتمادی پیدا ہو۔ پھر گورنرز، وزراء اور وزرائے اعلیٰ کے ساتھ طلبا کے فیس ٹو فیس پروگرا م کرائے گئے۔یہ سلسلہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل نیاتھا۔
اگر ہم 75 برسوں کاجائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ شعبہ تعلیم کے مسائل اور ضروریات کو جنگ گروپ نے ہمیشہ اجاگر کیا۔1980کے بعد پاکستان میں آبادی کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہوا تو تعلیمی مسائل مزید بڑھے۔ چناں چہ جنگ گروپ اور میرخلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی نے ایک مشن کے تحت شعبہ تعلیم کے مسائل کو اجاگر کیا اور لوگوں تک معلومات پہنچائیں۔
1947 میں جب پاکستان وجود میں آیا تو شرح خواندگی بہت کم تھی۔ چناں چہ اس وقت جنگ نے پاکستان میں تعلیمی صورت حال اور مسائل کو اجاگر کیا۔ ہر اسٹیشن سے باقاعدہ تعلیمی ایڈیشن شروع کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ طلبا کی تعلیمی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جائے۔ اس کے علاوہ تعلیم کے حوالے سے مختلف موضوعات پر سیمینارز کرائے گئے۔ یوں جنگ گروپ اورایم کے آر ایم ایس نے طب اور تعلیم کےشعبوں کے لیے جو خدمات ملک و قوم کے لیے انجام دیں وہ صحافت کی تاریخ میں ایک سنہرا باب ہے۔