آج سے 63 برس پہلے کا قصہ ہے ،جب پاکستان کو وجود میں آئے صرف4سال ہوئے تھے، ایک تہلکہ مچا دینے والا واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ مسلح افواج پاکستان کے گیارہ افسروں اور چند مشہور سویلین شخصیتوں کو گرفتار کیا گیا۔ فوجی افسران میں چیف آف دی جنرل اسٹاف میجر جنرل اکبر خان، ڈی ایس او، میجر جنرل نذیر احمد ایم بی ای،ائر کموڈور محمدخان جنجوعہ( جو اس وقت ائر فورس کے سب سے سینئر پاکستانی افسر تھے) بریگیڈیر لطیف خان ایم سی، بریگیڈیر محمد صدیق خان ایم سی، لیفٹنٹ کرنل ضیاء الدین ایم بی ای، کرنل نیاز محمد ارباب ،میجر اسحاق محمد ایم سی، میجر حسن خان ایم سی ،کیپٹن خضر حیات اور راقم المعروف ظفر اللہ پوشنی شامل تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان گیارہ افسروں میں سے سات کو برما اور دیگر محاذوں پر بہادری، یا نمایاں کارکردگی دکھانے کے تمغے برطانوی حکومت کی طرف سے دیئے گئے تھے۔جو چار سویلین گرفتار ہوئے اُن میں، برصغیر کے نامور شاعر فیض احمدفیض، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ،سید سجاد ظہیر پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمد حسین عطا اور جنرل اکبر خان شامل تھے۔
پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ جس نے قیامِ پاکستان کے صرف چار برس بعدملک میں تہلکہ مچا دیا تھا
آزادی ملنے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد جنگ چھڑ گئی تھی۔ پاکستان کی جانب سے قبائلی پٹھانوں کے لشکر مظفر آباد کی سڑک پر ایڈوانس کرتے ہوئے بارہ مولا سے ہوتے ہوئے وادی کی جانب بڑھتے جا رہے تھے، جب انڈین آرمی سری نگر میں ہوائی جہازوں کے ذریعے اتاری گئی اور اس نے قبائلیوں کے ایڈوانس کو روک دیا۔ اکبر خان اس وقت بریگیڈیر تھا ،اسےقبائلیوں اور دیگر پاکستانی جنگجوئوں کی کمان سونپ دی گئی اور جنرل طارق کا کوڈ نیم عطا کیا گیا۔ یہیں سے اکبر خان کی بے اطمینانی کا آغاز ہوا۔اکبر خان اس مادی اور اخلاقی مدد سے خوش نہ تھا جو اسے اور اس کے فائٹرز کو لیاقت علی خان کی حکومت سے کشمیر میں مل رہی تھی۔
اس مقدمے کے ایک کردار ظفراللہ پوشنی کا خاص ’’جنگ‘‘کے لیے لکھا گیا مضمون
وہ پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریس کی کارکردگی سے بھی نالاں تھا۔ جس نے کشمیر کے محاذ پر پاکستانی فوج کی دخل اندازی پر رکاوٹ لگا دی تھی، بعد میں اکبر خان کا یہ بھی خیال تھا (غلط یا صحیح) کہ کشمیر میں جنگ بندی قبول کر لیناحکومت پاکستان کی غلطی تھی اور ہمیں مسلح جدوجہد کو جاری رکھنا چاہئے تھا۔ جس طرح کی رکاوٹوں اور پابندیوں کے ساتھ اکبر خان کو کشمیر میں جنگ لڑنی پڑی تھی، اس نے اس کو ایک غیر مطمئن آدمی بنا دیا تھا۔ اکبر خان بہت بہادر بلکہ بعض لحاظ سے Rashطبیعت کا آدمی تھا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ambtitous بھی تھا ۔اس تمام صورتحال کی بدولت اس کے دماغ میں یہ خیال ابھرا کہ اسے لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹ دینا چاہئے۔
ایک طرف میجر جنرل اکبر خان کوپ کی پلاننگ کر رہے تھے اور مختلف افسروں کو اپنی اسکیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہےتھے تو دوسری طرف حکومت وقت نے بھی ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنی شروع کر دی تھی اکبر خان کی بیگم نسیم جہاں جو اس وقت کی مشہور سیاسی لیڈر بیگم شاہ نواز کی بیٹی تھی وہ جہاں بیٹھتی حکومت کی پالیسیوں اور کاررکردگی کو آڑے ہاتھوں لیتی تھی۔ اب اگر ایک جنرل کی بیوی ہر جگہ حکومت کی برائی کرتی رہے گی تو کیا حکومت کو اس کی خبر نہ ہو گی۔ جنرل ایوب خان نے جو اب جنرل ڈگلس گریسی کی جگہ فوج کے سربراہ مقررہ گئے تھے، اکبر خان کو جی ایج کیو میں تعنیات کیا ،تاکہ براہ راست کسی ڈویژن کی کمانڈ ان کے ہاتھ میں نہ آئے اور وہ کمانڈر انچیف کی نظروں کے سامنے ہیں۔ بہر کیف اکبر خان نے مختلف فوجی افسروں سے اور بعد میں کچھ سویلین لوگوں سے اپنی ملاقاتوں اور گفتگوئوں کا سلسلہ جاری رکھا…
راولپنڈی کانسپریسی کیس کا ایک عجیب و غریب پہلو یہ تھا کہ اس میں بائیں بازو کے سیاسی لوگوں نے فوجی کوپ پلان کرنے والوں کے ساتھ آخر کس طرح ناطہ جوڑا ۔ سیاست کی دنیا میں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ لیفٹ کے لوگ مسلح افواج کو بجا طور پر ایک rightistبلکہ reactionary ادارہ سمجھتے ہیں اور ان سے خائف رہتے ہیں۔ یہ کیسے ہوا کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان جس کے سربراہ سید سجاد ظہیر تھے اس بات پر رضا مند ہو گئی کہ وہ جنرل اکبر خان اور اس کے ساتھیوں کی ہمنوائی کریں؟!
قصہ دراصل یوں ہے کہ اس زمانے میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو لیاقت علی خان کی حکومت نے بہت زیر عتاب کیا ہوا تھا۔ سی پی کو کھلم کھلا کسی قسم کا سیاسی کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ پارٹی کے تمام لیڈروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے تھے اور پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے تمام عہدیدار انڈر گرائونڈ چلے گئے تھے یعنی روپوش تھے۔ لیڈر تو لیڈر، پارٹی کے عام کارکنوں کا جینا حرام کر دیا گیا تھا۔ ورکرز کو بغیر کسی وجہ کے پکڑ لیا جاتا، پولیس انہیں بدنام زمانہ لاہور فورٹ میں بے جا گر زود کوب اور ذلیل کرتی تھی۔
سی پی کے Fellon -travellers کو بھی دھمکیاں دی جاتی تھیں کہ پارٹی کی اعانت ترک کر دیں ورنہ ان کا حشر خراب ہو گا، غرض کہ جہاں تک بائیں بازو کا تعلق ہے ظلم و تشدد برداشت کرنا گویا ان کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا۔ ادھر جنرل اکبر خان کی بیگم نسیم کے فیض احمد فیض اور دیگر ترقی پسند لیڈروں کے ساتھ دیرینہ سوشل اور سیاسی روابط تھے۔ ان تعلقات کے ذریعے جنرل اکبر خان اور سید سجاد ظہیر ایک دوسرے سے مل پائے اور باہمی گفت و شنید کا آغاز ہوا۔
صورت حال کچھ یوں ہوئی کہ جنرل اکبر خان نے سی پی کے لیڈروں سے یہ وعدہ کیا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو لیفٹ کے اوپر جو حکومتی تشدد اور دبائو ہے اسے ختم کر دیں گے۔ پارٹی کو دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح کھلے عام سیاسی کام کرنے کی اجازت مل جائے گی اور انہیں اگلے الیکشن میں امیدوار کھڑے کرنے اور جلسے کرنے کی پوری آزادی ہو گی۔ ان رعایتوں کے بدلے میں سی پی اور اس کی ملحقہ ٹریڈ یونین، کسان کمیٹیاں وغیرہ اکبر خان کی حکومت کا خیر مقدم کریں گی اور ملک کا leading اخبار پاکستان ٹائمز جس کے چیف ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے، نئی حکومت کے حق میں ادارئیے لکھیں گے، کچھ اس نوعیت کی بات چیت اکبر خان اور سید سجاد ظہیر اور ان کے رفقا کے درمیان کچھ عرصہ تک جاری رہی۔
23؍ فروری 1951کو چیف آف جنرل اسٹاف اکبر خان کے گھر پر ایک میٹنگ ہوئی جس میں بعض فوجی افسروں کے علاوہ تین سیاسی حضرات یعنی سید سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، محمد حسین عطا بھی موجود تھے۔ اس میٹنگ میں لیفٹنٹ کرنل صدیق راجہ ا ور میجر یوسف سیڈھی بھی موجود تھے، جو بعد میں استغاثہ کی طرف سے بطور وعدہ معاف گواہ پیش ہوئے۔ اس میٹنگ میں جنرل اکبر خان نے اپنا پلان پیش کیا جس کے مطابق گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک ہفتہ بعد جب وہ دونوں اسلام آبادآ رہے تھے گرفتار کیا جانا تھا گورنر جرنل سے یہ اعلان کروایا جاتا کہ انہوں نے حکومت وقت کوبرطرف کر دیا ہے۔
اکبرخان کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم کی جاتی جو کچھ عرصہ بعد جنرل الیکشن کرواتی۔ میٹنگ میں 70فیصد گفتگو جنرل اکبر نے کی اور بقیہ 30 فیصد دیگر تمام حضرات نے کی۔ یعنی یہ صحیح معنوں میں ایک ’’ون مین‘‘ شو تھا۔ اس میٹنگ میں شامل تمام فوجی اور سویلین حضرات کے چہروں پر جو دبائو تھا آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ میرا خیال ہے سوائے جنرل اکبر خان کے اور کوئی بھی شخص اس اسکیم کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا۔ متعدد اعزاضات کئے گئے جس میں سب سے وزنی یہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں ہماری اس حرکت کا کیا ردعمل ہو گا۔ بحث و مباحثہ مسلسل 8 گھنٹے جاری رہا۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل صاحب کی اسکیم پر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا۔ اور اسے ایک طرح سے رد کر دیا گیا اور دوبارہ ملنے کا بھی کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔
جنرل اکبر خان کے راز داروں میں ایک شخص اضغر علی شاہ بھی تھا جو پولیس افسر تھا۔ ہر چند کہ وہ 23؍فروری کی فیصلہ کن میٹنگ میں موجود نہیں تھا۔ لیکن اسے اس میٹنگ کے متعلق اکبر خان نے پیشگی خبر دے دی تھی۔ اضغر علی شاہ تقریباً 2سال سے جنرل اکبر خان کا معتمد اور حلقہ بگوش تھا لیکن یہ خبر سن کر کہ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے اس کے اعصاب نے جواب دے دیا۔ اس کے ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو گئے اور اسے جو کچھ معلوم تھا اس نے صوبہ سرحد کے انسپکٹر جنرل پویس کو بتا دیا جس نے فوراً سرحد کے گورنر آئی آئی جندری گر سے بات کی اور چندریگر نے لیاقت علی خان سے فوری رابطہ کیا۔ انگریزی محاورے کے مطابق بلی تھیلے سے باہر آگئی۔
چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل اکبر خان ، کوئٹہ بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈئر لطیف خان، فیض احمد فیض اور بیگم نسیم اکبر خان کو گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے ایک مہینے کے اندر اندر درجنوں اور لوگوں کو گرفتار کیا گیا لیکن مقدمہ میں صرف15؍ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی ۔ ملزمان میں سے ایک شخص محمد حسین عطا کافی عرصے تک پولیس کے ہاتھوں نہیں آیا لیکن مقدمے کی کارروائی کے آغاز کے ایک ماہ بعد وہ بھی مشرقی پاکستان میں گرفتار ہو گیا ، جسےحیدرآباد جیل میں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔
مقدمے کا آغاز 15؍جون 1951 کوصبح حیدر آباد جیل کے اندر خصوصی عدالت کے سامنے ہوا، جس کے پرانڈنگ آفیسر جسٹس سرعبدالرحمٰن ، جسٹس محمد شریف اور جسٹس امیر الدین تھے۔ استغاثہ کی طرف سے پیش ہونے والی وکلاء کی ٹیم کے سربراہ، اے کے بروہی تھے ۔ڈیفس کی جانب سے ایس ایچ سہروردی، زیڈ ایچ لاری، خواجہ عبدالرحیم، ملک فیض محمد، صاحبزادہ نوازش علی، قاضی اسلم بڑے بڑے نامور وکیل پیش ہوئے۔ جوں جوں کیس طول پکڑتا گیا اور مہینوں پر مہینے گزرتے گئے ، موکلوں کی جیبیں خالی ہوتی گئیں تو بہت سے وکلا غائب ہو گئے لیکن ایچ ایس سہروردی نے آخری دن تک کیس میں شمولیت کی ، ہر چند کہ ان کے موکل بریگیڈئر لطیف خان نے انہیں مزید پیسے دینے ترک کر دیئے تھے کیونکہ لطیف خان کے بینک اکائونٹ میں کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ سہروردی بغیر فیس لیے نبردآزما رہے۔استغاثہ کی جانب سے درجنوں گواہ پیش ہوئے لیکن بنیادی طور پر کیس کا دارومدار ان دو فوجی افسروں لیفٹنٹ کرنل صدیق راجہ اور میجر یوسف سیٹھی کے بیانات پر تھا۔
جنہوں نے اکبر خان سے اپنی لگاتار ملاقاتوں کے علاوہ 23؍ فروری 1951 کو اکبر کے گھر پر ہونے والی آخری میٹنگ کی روداد بیان کی۔بحیثیت مجموعی جو گواہ پیش کئے گئے انہوں نے بیان دیئےلیکن ایک غلط بات ایسی کہہ گئے جس کے بغیر استغاثہ کا کیس کانسپریسی یا سازش کے الزام کو ثابت نہیں کر سکتا تھا۔ وعدہ معاف گواہوں سے یہ کہلوایا گیا کہ 23؍ فروری کی میٹنگ میں اکبر خان کی پیش کردہ اسکیم پر اتفاق رائےہو گیا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ 8گھنٹے کی مغز ماری اور بحث کے بعد اسکیم کو ترک کر دیا گیا تھا!! یہ جھوٹ استغاثہ کو اس لئے بولنا پڑا کیونکہ سازش کا جرم agreement کے بغیرثابت نہیں ہو سکتا۔
پینل کوڈ کے مطابق:
The Crime of Conspiracy is only established when two or more persons agreement commit an illegal act or a legal act by illegab mean. Than is the definition of Conspiracy in the penal code. If there is no agreement there is no Conspiracy. In this Case there had been no agreement on Akbar khan's plan , hence there was no Conspiracyوعدہ معاف گواہوں کو اشتغاثہ نے یہ جھوٹ بولنے پر مجبور کیا کہ وہ کہیں کہ agreement ہو گیا تھا۔ فیص صاحب نے اپنی ایک غزل میں ادھر اشارہ کیا ہے۔اس کا مصرع ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھاوہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
یہ صحیح ہے کہ جنرل اکبر خان کو آرمی ایکٹ کے تحت اس طرح کی اسکیم پیش کرنے کے الزام میں بھی سزا دی جا سکتی تھی جس کے ذریعے وہ دیگر فوجی افسران کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن سول پینل کوڈ کے تحت انہیں اور بقیہ حضرات کو Conspiracy کا مرتکب نہیں سمجھا جا سکتا تھا۔
اب جب میں اس سارے معاملے کے متعلق غور کرتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ کمیونسٹ پارٹی کی لیڈر شپ نے جنرل اکبر خان کے ساتھ جو گٹھ جوڑ کیا تھا وہ شاید درست نہیں تھا۔ انہیں حکومت وقت نے اتنی بے دردی سے کچلا اور روندا تھا کہ وہ نالاں اور بیزار ہو کر ملٹری کوپ کرنے والوں کےطرف دار بن گئے اور اپنے بنیادی عقیدے سے انحراف کر گئے جس کے مطابق انہیں مزدوروں، کسانوں اور درمیانے طبقے کی اجتماعی قوت پر بھروسہ کرنا چاہتے تھا۔
بہر کیف جیل میں پہنچنے کے بعد فوجی افسران اور سویلین حضرات کے مابین تعلقات بحیثیت مجموعی نہایت خوشگوار رہے ہر چند کہ خیالات و نظریات میں کافی تضاد تھا۔ دراصل جنرل اکبر حد درجہ مختلف النوع کیریکٹرز کو ساتھ لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر میجر جنرل نذیر احمدکو لیجئے وہ احمدی تھے۔ اس زمانے میں احمدیوں پر کفر کا ٹھپا نہیں لگا تھا۔ بریگیڈئیر ایم اے لطیف خان صوفی منش تھے، امام غزالی کی کتابیں، کشف المحجوب اور اسی قسم کا اسلامی لڑیچر پڑھا کرتے تھے صوم وصلات کے نہایت پابند۔ ایرکموڈور محمد خان جنجوعہ اور میجر حسن خان شعیہ تھے لیکنfanaheیا کٹر ٹائپ نہیں تھے۔ بریگیڈئیر صدیقی خان، لیفیٹ کرنل ضیا الدین اور کیپٹن خضر حیات پیروں مرشدوں پر ایمان رکھتے تھے۔ان کے مرشد انہیں اکثر جیل میں خوش آئند پیغامات بھیجا کرتے تھےکہ حوصلہ کرو تم سب رہا ہونے والے ہو ۔لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ تینوں کو عدالت سے بالترتیب 5,7اور4سال قید کی سزا مل گئی ۔ اسکے باوجود اپنے پیروں مرشدوں پر ان حضرات کا ایمان متزلزل نہیں ہوا۔
لفٹینٹ کرنل نیاز محمد ارباب کا پشاور کے نزدیک تہکال بالا کی مشہور ارباب فیملی سے تعلق تھا۔ یہ جاگیردار رئیس لوگ، کسی قسم کے نظرئیے سے انکا کوئی تعلق نہیں۔ اس کیس کے کئی سال بعد نیاز محمد ارباب کو جنرل ضیاالحق نے اپنی کابینہ میں لے لیا ۔ اسی دوران ارباب صاحب کراچی آئے تو میں نے انکی دعوت کی۔ گفتگو کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ ’’ یار ارباب تم ایک کھلے ذہن، بئیر وہسکی پینے والے پلے بوائے قسم کے بندے ہو تم اس مرد مومن مرد حق کی کابینہ میں کیسے جا پھنسے؟’’۔مسکرا کر بولے ’’ جنرل ضیا کو ، ہمارے علاقے سے ایک وزیر چاہیے تھا۔ مجھے آفر کی، میں نے قبول کرلی۔‘‘
بقیہ دوفوجی افسر، میجر اسحاق محمد اور یہ بندہ، ناچیز ظفر اللہ پوشنی شروع ہی سے لیفٹ کے ہمدرد تھے۔ جیل میں سجاد ظہیر، فیض اور عطا کی صحبت میں ان رحجانات میں اضافہ ہوا ۔ میں تو خیر لیفٹ لبرل سہل پسند کی کیٹیگری سے آگے نہ جاسکا ، لیکن میجر اسحاق محمد نے دنیا ئے سیاست میں ایک راسخ العقیدہ، مستحکم اور ٹھوس کمیونسٹ اور مزدور کسان پارٹی کے لیڈر ہونے کے ناطے بہت شہرت اور عزت حاصل کی ۔ میجر اسحاق عدالت کے اندر جج صاحبان سے نبرد آزما رہتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن ٹریبیونل کےہیڈ جسٹس سر عبدالرحمان سے کچھ تکرار ہوگئی جس پر جسٹس صاحب کڑک کر بولے i will setyou rightاس پراسحاق نے کھڑے ہوکر جواب دیا ,go ahedاس پر جسٹس سر عبدالرحمان بوکھلا گئے اور صرف یہ کہہ کسے کہi pityyn۔میجر اسحاق اور محمد حیسن عطا دونوں تیز مزاج تھے اور سیاسی یا سماجی امور پر آپس کی بحثوں میں تلخ کلامی بلکہ کبھی کبھار گالی
گلوچ تک بھی پہنچ جاتے تھے۔ پھر فیض صاھب انکو ڈانٹتے اور یہ چپ ہوجاتے۔
ہمارے اس تمام گروپ میں سب سے ٹھنڈے اور مرنجاں مرنج انسان ہمارے دونوں عظیم دانشور سید سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض تھے۔ جب کوئی شخص ایک اندڑ گراونڈ کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر یا جنرل سیکرٹری کے متعلق سوچتا ہے تو اسکی نظر کے سامنے ایک جنگجو قسم کے دھڑلے،جارجیت پر کمربستہ بلند آواز عقابی کردار کا نقشہ آجاتا ہے۔ لیکن ہمارے کامریڈ سجاد ظہیر اسکے برعکس تھے۔ ایک حد درجہ باادب، شائستہ نفاست پسند، پرتپاک شخص جو ہمیشہ بے داغ سفید کرتہ پاجامہ پہنے ہوئے ملتا تھا اور نہایت مہذب اور وضع دار زبان میں گفتگو کرتا تھا سجاد ظہیر علم کی دولت سے مالا مال تھے اور میں نے جیل کی طویل رفاقت میں انہیں کبھی غصے میں یا مایوسی کا اظہار کرتے نہیں دیکھا۔ سجاد ظہیر واقعی ایک امیر آدمی تھے۔
باقی رہ گئے فیض احمد فیض اس عظیم شخصیت کے متعلق اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ میں مزید کچھ کہنے سے گھبراتا ہوں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ وہ کم گو تھے، کوئی انہیں شدید ترین تنقیدکا نشانہ بھی بنائے تو مسکرا دیتے تھے۔کثرت سے سگریٹ نوشی انکی کمزوری تھی لیکن جیل میں شراب نہیں ملتی اسکا ان پر کوئی منفی اثر ہوتا میں نے انہیں دیکھا۔ وہ جسم اور لباس پر پرفیوم، کولون وغیرہ فیاضی سے لگاتے تھے اور جب کسی نے استفسار کیا تو فرمایا کہ ’’ بھائی یہ تو سنت ہے‘‘۔ سوالی نے حجت کی کہ ’’ حضرت، آپکو دینی روایات سے کونسی رغبت ہے ! تو فیض صاحب بولے ’’ کیوں نہیں ہم بھی اسلامی تہذیب کا حصہ ہیں‘‘۔
جیل میں پہنچ کر رینک اور رتبے کا فرق جلد ہی مٹ جاتا ہے، ہم سب زندانی تھوڑے ہی عرصے میں ایک ہی سطح پر آگئے ۔چاہے جنرل ہو یا کیپٹن۔لیکن مشرقی روایات کےمطابق عمر اور علمی قابلیت کی عزت باقی رہی ۔ ہر چند کہ میجر اسحاق بعض اوقات ترنگ میں آکر فیض صاحب کو ’’ اوئے منڈیا سیالکوٹیا‘‘ کہہ کر آواز دیتے تھے لیکن تمام سینئر فوجی افسران بھی سجاد ظہیر اور فیض کی بہت عزت کرتے تھے اور چاہے آپس میں ہم لوگ فحش کلامی یا گالی گلوچ بھی کرلیں، لیکن ان دونوں دانشوروں سے ہمیشہ عزت، تکریم سے پیش آتے تھے۔
فیض صاحب کا تھوڑا سا تذکرہ اور کردوں… وہ عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ عظیم انسان بھی تھے۔ اپنی بے جا تعریف سے گھبراتے تھے۔ میں نے انہیں کہتے سنا کہ ’’ چھوڑو بھائی ہم کوئی ایسے بڑے شاعر نہیں، میر،غالب، اقبال وہ تھے بڑے شاعر، انکا کلام پڑھو!‘‘ غالب کے تو شیدائی تھے چنانچہ انکی پہلی کتاب کا ٹائیٹل’’ نقش فریادی‘‘ اور مکمل مجموعہ کلام کا ٹائیٹل( نسخہ ہائے وفا) دونوں غالب کے اشعار سے حاصل کئے گئے۔
ایک دفعہ میں نے فیض صاحب سے پوچھا کہ اردو شاعری میں بہترین غزل کونسی ہے؟ فرمایا کہ یہ کہنا تو بہت مشکل ہے کہ سب سے اعلیٰ غزل کونسی ہے، البتہ میں یہ بتا سکتا ہوں کہ مجھے کونسی غزل بہت پسند ہے، وہ ہے غالب کی غزل مسلسل ’’مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے، جوش قدم سے بزم چراغاں کئے ہوئے‘‘۔ اس غزل میں ایک عجب تسلسل اور روانی ہے جس کی بدولت اسے بار بار پڑھنے کوجی چاہتا ہے اور دل کو تسکین ہوتی ہے۔
فیض صاحب میں اپنے اوپر نکتہ چینی اور دوسروں کے نقطہ نظر کو برداشت کرنے کا مادہ حیرت انگیز حد تک موجود تھا۔ شدید تنقید اور بعض اوقات نازیبا کلمات کا جواب وہ بڑی خندہ پیشانی سے اور مسکرا کردیتے تھے۔ اکثر تویہ کہہ کرٹال دیتے تھے کہ’’ بھائی یہ ان صاحب کا نقطہ نظر ہے، وہ جو کہتے ہیں انہیں کہنے دو، ہمارا کیا جاتا ہے، ہم اپنے موقف پرقائم ہیں۔‘‘ آج کل ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی عدم رواداری ہے، کوئی بھی کسی دوسرے کے خیالات کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اور اس کا ظہار کئی لوگ گولی چلا کریا دھماکے کے ذریعے کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام قوم پژمردہ،اداس اور پریشان نظر آتی ہے۔ شاید فیض صاحب نے اسی کیفیت کا اظہار اپنے ان اشعار میں کیا تھا
گوسب کو بہم ساغر بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دوچار دیوان
ہر شخص کا مدچاک لبادہ تو نہیں تھا
تھک کریونہی پل بھر کیلئے آنکھ لگی تھی
سوکربھی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا
یہ تھیں اس زمانے کی کچھ یادیں۔ ہاں میں یہ بتانا بھول گیا کہ اس عدالت عالیہ نے ہماری واحد خاتون ساتھی بیگم نسیم اکبر خان کو بری کردیا ۔میجر جنرل نذیر احمد کو نوکری سے برطرفی
اور تابرخاست عدالت قید کی نرم سزا اور بقیہ تمام ملزمین کو4سال لےکر12سال قید بامشقت کی سزا سنائی ۔لیکن کچھ عرصے بعد ہمارے وکیل جناب حسن شہید سہروردی ملک کے وزیر قانون بن گئے اور انہوں نے ایک ایمنسٹی بل(Amcnesty Bill) پالیمنٹ سے پاس کروایا جس کی بدولت سب کو رہائی مل گئی۔ اس بل کا فائدہ ان سینئر افسران کو ہوا جنہیں لمبی سزائیں ملی تھیں، میں نے تو اپنی4سال قید پوری کرلی تھی ۔
بہرکیف رہائی کے بعد ہر شخص تلاش روزگار میں مصروف ہوگیا، میں بھی اور میرے سب رفیق زنداں بھی… اور رفتہ رفتہ ایک ایک کرکے میرے یہ ساتھی راہی ملک عدم ہوتے رہے اور اب صرف میں باقی رہ گیا ہوں جیل میں گزرا ہوا وقت اکثر یاد آتا ہے ‘‘۔ بہت اچھے لوگ تھے وہ سب بقول فیض
کیسے اچھے لوگ تھے جن کو اپنے غم سے فرصت تھی
پوچھیں تھے احوال جوکوئی درد کا مارا گزرے تھا!