دنیائے صحافت میں جنگ گروپ کے بانی میر خلیل الرحمٰن کا نام نہ صرف مشرق ومغرب میں معروف ہے بلکہ جدید صحافت کے پیش رو میں بھی سرِ فہرست ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خبر نویسی میں شب وراز گزارنے والے اخبار نویس کی اپنی ذات کم ہی ’’خبر‘‘کا موضوع بنتی ہے۔ یہ بات میرصاحب پر سو فیصد صادق آتی ہے۔ 1990میں جب میر صاحب کے صحافت میں قیادت کے 50سال مکمل ہوئے تو ان کی صحافتی خدمات کی ’’مستند اور مفصل خبر‘‘ حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا، سو جنگ کے چند سنیئر صحافیوں نے میر صاحب سے تفصیلی گفتگو کی ۔ آج جنگ کی پلاٹینیم جوبلی کے موقعے پراس انٹرویو سے چند اقتباسات قارئین کی نذر کررہے ہیں۔
س:روزنامہ ’’جنگ‘‘ کی ابتداء کیسے ہوئی؟
ج: صحافت میں ابتداء کا حساب اس سے لگالیں کہ اخبارجنگ اور خود مجھے جولائی 1990ء میں 50سال ہو گئے۔ یوں سمجھ لیں کہ مجھے اس زمانے میں ایڈیٹر بننے کا کچھ زیادہ شوق نہیں تھا ۔ کچھ زیادہ پتہ نہیں تھاکہ ایڈیٹر کیا ہوتاہے یعنی جس طرح اور جن حالات میں یہ اخبار نکالا گیا۔۔۔۔ معمولی سا ۔۔۔ایک پیسے کا۔ اس وقت بس یہی خیال تھا کہ اخبار نکالنا ہے۔ان دنوں پاکستان کی تحریک زوروں پر تھی اور کئی باتیں ایسی ہوئی تھیں جو دل میں تھیں، جن کا رہ رہ کر خیال آتا تھا، لیکن ان کااظہار ممکن نہیں تھا۔ اخبارکے ذریعے ان کا اظہار ہوتا تھا، کیا جاتا تھا ۔میں نیا نیا اسٹوڈنٹ لائف سے نکلا تھا اور اخبار نکالا تھا ۔
کوئی سرمایہ وغیرہ نہیں تھا ۔میرے ایک دوست تھے، مہربان تھے بلکہ وہ محسن تھے میرے۔ عشرت علی صاحب۔ ہم ان کو دادا عشرت علی کہا کرتے تھے۔ وہ ایک چھوٹا سا پرچہ نکالا کرتے تھے۔ ’’نگارخانہ‘‘ اس پرچے کا نام تھا۔ زیادہ تر اس کا تعلق فلم سے تھا۔ بعد میں انہوں نے اسے شام کا روزنامہ بنایا۔ اس کا نام مسلمان تھا۔اس سے مجھے شوق پیدا ہوا ۔میں وہاں جاکر بیٹھا کرتا تھا۔ وہ بیچارے، اللہ ان کو بخشے، زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ میری بہت آئو بھگت کیا کرتے ، کیونکہ میں ان کے لئے انگریزی کے وہ خط لکھا کرتاتھا جو وہ ایڈورٹائزرز کو بھیجا کرتے تھے۔
میں نے خط و کتابت بھی اسی زمانے میں سیکھی تھی۔ اخبار نکالنے سے پہلے مجھے اسٹینو گرافر کی ملازمت کرنا پڑی۔ صاحب مجھ سے خط لکھواتا تھا اس سے مجھے بھی خط و کتابت کرنے کا طریقہ معلوم ہوگیا۔ چونکہ وہ ایک کاروباری ادارہ تھا اس لئے مجھے کاروباری خط و کتابت کی عادت پڑ گئی۔ یہ میرا ابتدائی زمانہ تھا ۔اس طرح میں صحافت میں آیا۔ انڈیا آفس لائبریری لندن سے میں کچھ ریکارڈ لے کر آیا ہوں ۔ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کمشنر دلّی کی سہ ماہی رپورٹ میں جو وہ اخبارو ں کے متعلق حکومت برطانیہ کو بھیجا کرتا تھا،پہلی مرتبہ میرا نام بحیثیت ایڈیٹر جولائی، ستمبر 1941ء کی سہ ماہی رپورٹ میں لکھاگیا۔
اب آپ اس سے اندازہ لگالیں کہ مجھے بحیثیت ایڈیٹر50برس ہوگئے ہیں اس رپور ٹ میں لکھا جاتا تھا کہ اخبار کا نام کیا ہے، ایڈیٹر کون ہے، کس پریس سے چھپتا ہے۔اخبار کی زبان اور اشاعت کی تعداد کیا ہے۔ اس رپورٹ میں روزنامہ جنگ کی اشاعت تین ہزار لکھی ہوئی ہے۔ پالیسی کیا تھی؟ رپورٹ میں اس کا بھی ذکرہے۔پہلے تو پالیسی معتدل قرار دی گئی تھی، بعد میں جانے والی رپورٹوں میں جنگ کی پالیسی کو مسلم لیگ کی حمایت میں انتہا پسندانہ قرار دیا گیا۔
اس وقت میں سب کچھ خود ہی تھا۔ جو آپ کہہ لیں، سرمایہ دار،صنعت کار،سب کچھ میں خود ہی تھا۔ (دفتر کے فرنیچر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) یہ کیا چیز ہے،میں سمجھتا ہوں کہ میں نے خواب و خیال میں بھی نہیں دیکھا تھا۔میں صبح دفترآکر جھاڑو دیا کرتا تھا۔ مجھے اس پرفخر ہے ۔میزیں صاف کرتا اس کے بعد بیٹھ کر انگریزی اخبارات سےخبروں کے ترجمے کیاکرتاتھا۔اس وقت نیوز ایجنسی لینا ہم افورڈ نہیں کرسکتے تھے۔
ہمارا شام کا اخبار تھا۔ صبح کے اخباروں سے ترجمے کرتا اور ریڈیو سنا کرتا تھا۔ خبروں کے حصول کے لئے ہمارے یہی دو ذرائع تھے۔ جنگ اخبار اس طرح نکلا تھا۔ حالت یہ تھی کہ اخبار فروشوں سے پیسے لے کر کاغذ خریدتے تھے۔ دلّی میں ایک بازار تھا چاوڑی بازار۔ وہیں پر ہمارا پریس تھا۔جیسے جیسے پیسے آتے تھے میں وہیں پریس پر جاکر بیٹھ جاتا تھا۔ خود ہی سرکولیشن منیجر تھا،خود ہی بانٹتا تھا۔اخبار فروشوں سے رقم وصول کرکے سامنے سے کاغذ خریدتا۔ لیجئے اخبار چھپ رہا ہے، ٹھک ٹھک ٹھک۔ اس زمانے میں پتھر کا پریس تھا۔ آفسٹ کا ابھی رواج نہیں ہوا تھا۔ اس کی رفتار بھی کم تھی، تقریباً ایک گھنٹے میں پانچ سات سو اخبار چھاپتی ہوگی۔
س:۔ اخبار کا نام ’’جنگ ‘‘رکھنے کی کیا وجہ تھی؟
ج:۔ ایک تو اس زمانے میں دوسری جنگ عظیم جاری تھی، دوسرے اس وقت ذہن میں ایک اور بات بھی تھی کہ بھئی پاکستان کیلئے جنگ کرنی ہے، لڑائی کرنی ہے ، جدوجہد کرنی ہے۔ اس کا یہ مقصد نہیں تھا کہ ہمیں کسی فوج سے لڑنا ہے یا ان کے خلاف ہم نے کوئی علم بغاوت بلند کرنا ہے ،بس جنگ یعنی جدوجہد ہے۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس کا نام ’’جدوجہد‘‘ رکھ دیتے ،لیکن یہ مشکل نام تھا اوراس زمانے میں شاید میرے لئے بھی مشکل تھا۔جب نام کے لئے مشورہ ہورہا تھا تو ہم نے کہا جنگ رکھ دو جنگ ،کیونکہ جنگ کو سبھی جانتے ہیں۔ لیکن اب میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کچھ اور ہی نام رکھ لیتا۔ کیونکہ بعض اوقات لوگ سمجھتے ہیں، خصوصاً وہ لوگ جو اخبار نہیں پڑھتے جنہوں نے اخبار دیکھا اور پڑھا نہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ کوئی سنجیدہ پرچہ نہیں ہے۔’’جنگ‘‘ شاید کوئی لڑائی جھگڑے والا پرچہ ہے۔
س: کون سے مقاصد اور محرکات تھے جن کی وجہ سے آپ نے اخبار نکالا؟
ج: ایک شوق تھا، جوش و جذبہ تھا۔ وہ زمانہ تھا کالج کے دنوں کا۔ لے کے رہیں گے پاکستان، قائد اعظم زندہ باد پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔یہ اس وقت کی فضا تھی سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ میں بھی کسی ذریعے سے پاکستان حاصل کرنے کی جدوجہد میں شامل ہو جائوں۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ یہ ایک ذریعہ معاش ہے کہ بھئی کچھ کام کرنا چاہئے ،خالی نہیں بیٹھنا چاہئے ۔اس وقت میرے ذہن میں یہ بھی نہیں تھا کہ آئندہ جاکر یہی میرا پروفیشن ہو گا میں نے سوچا تھا وقتی طور پر کچھ ہو جائے گا۔ بعد میں ممکن ہے کچھ اور کرنا پڑے۔ میرے خاندان میں کسی نے یہ کام نہیں کیا تھا۔
تیسری وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کا انگریزی اورہندو پریس جو تھا ۔۔۔۔تیج اخبار تھا، ہندوستان ٹائمز تھا۔۔۔اور اس قسم کے جودوسرے اخبارات تھے وہ جو کچھ مسلمانوں کے خلاف خرافات لکھتے تھے قائداعظم کے بارے میں لکھتے تھے۔ انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ انہیں دیکھ کر بڑا غصہ آتا ، خون جلتا تھا کہ یا اللہ ہم ان کو کیسے جواب دیں، کیا کریں ۔ ہم اپنے جذبات کا اظہار کس طرح کریں کہ ہماری طرح سوچنے والے دوسرے لوگوں کو بھی تسلی ہو۔ یہ بہت بڑی وجہ تھی، کیونکہ وہ لوگ واقعی مہا سبھائی ذہنیت کے لوگ تھے۔ اکھنڈ ہندوستان والے، پاکستان کی تحریک کو بالکل مذاق سمجھتے تھے کہ یہ (پاکستان) کبھی نہیں بن سکتا۔
یہ تو قائداعظم زندہ باد جنہوں نے انہونی کو ہونی کر دیا۔ ہمار ا یہ خیال تھا کہ قائداعظم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ضرور ہو گا، لیکن کیا ہوگا، کیسے ہوگا ،یہ کبھی نہیں سوچا تھا۔ قائداعظم سے اکثر ملاقات ہوتی تھی۔اس وقت میری کیا عمر ہوگی ا ور اتنی پختگی بھی نہیں تھی۔ مسلمانوں میں جرنلسٹ تھے ہی نہیں۔ سب کم عمر تھے، ابھی آغاز تھا۔ زیادہ خرانٹ قسم کے لوگ ہندوئوں میں تھے۔ قائداعظم کہا کرتے تھے کہ آپ لوگوں کو چاہئے کہ پاکستان کے مخالفین ،مسلمانوں اور پاکستان کے ہم نوائوں پر جو برااثر ڈال رہے ہیں اسے زائل کرنے کی کوشش کریں، ان سے ہوشیار رہیں یہ کبھی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے۔
س:۔ انگریز کے دور میں کیا کبھی جیل جانے کی افتاد بھی پڑی؟
ج:۔ انگریزوں کے دور میں اخبار ہی کے سلسلے میں جیل گیا تھا۔دراصل ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت ایک دفعہ بہت زیادہ جوش میں جذبے میں لکھ دیاکہ انگریز جب تک ہمارے پاکستان کیلئے ہاں نہ کریں مسلمانوں کو انگریزوں کی فوج میں نہیں جانا چاہئے۔ یہ دھوکہ دے دیں گے۔ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ہم جنگ جیت جائیں اور اس کے بعد یہ آنکھیں دکھائیں گے اس قسم کی باتوں پر انہوں نے ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت مجھے اندر کردیا۔ ایک دن تو مجھے حوالات میں رکھا، پھر مجھے سنٹرل جیل لے گئے۔ اس زمانے میں ایک پریس ایڈوائزری کمیٹی ہوتی تھی۔23دن کے بعد پریس ایڈوائزری کمیٹی کے سامنے پیش کیاگیا۔
دو ہندو ایڈیٹر بھی تھے ایک تیج کا ایڈیٹر لالہ دیش ہندو گپتا وہ اس زمانے میں اسمبلی کا ممبر بھی تھا اوردوسرا شیونرائن بھٹاگر، یہ وطن اخبار کا ایڈیٹر تھا۔ ایک ’’سٹیٹس مین‘‘ کا ایڈیٹر تھا ایک ’’نیشنل کال‘‘ کا ایڈیٹر تھا کافی، کولی اورسانی اس زمانے میں یہ دونوں بہت مشہور تھے اور دونوں اس کے ایڈیٹر ہوتے تھے اورایک ہندی اخبار تھا ’’ہند سماچار‘‘ اس کا ایڈیٹر تھا۔ مسلمان تو وہاں تھے ہی نہیں۔ جب میں جیل گیا تو ڈان نکل آیا تھا اور انجام تھا اور جنگ تھا لیکن ایڈوائزری کمیٹی میں ہمارا کوئی نمائندہ نہیں تھا۔ ایک وہاں کا انگریز ڈپٹی کمشنر ’’ لابیلی‘‘تھا، انہوں نے مجھ سے پوچھا ،کیا آپ نے یہ لکھا ہے؟ میں نے کہا ہاں جی لکھا ہے انہوں نے کہا آپ نے دیکھا نہیں کہ آپ کی اس تحریرنے کتنی بے چینی اور نفرت پھیلائی ہے؟ میں نے کہا کہ جی اس سے تو نفرت پیدا نہیں ہوئی۔ کیوں جی! اس سے بڑھ کر کیا نفرت پیدا ہوگی یہ بڑی اشتعال انگیز بات ہے کہ لوگ برطانوی فوج میں شامل نہ ہوں۔
آپ جانتے ہیں کہ ہم آپ کے لئے لڑ رہے ہیں ہندوستان کا دفاع کررہے ہیں، برطانیہ کا دفاع نہیں کررہے۔ میں نے کہا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر اس سے کوئی نفرت نہیں پھیلتی یہ تو ایک نقطہ نظر ہے میں نے اپنے نقطہ نظر کا ا ظہار کیا ہے اگر آپ اسے پسند نہیں کرتے تو میں کچھ نہیں کرسکتا۔میری بات سن کر انہوں نے کہاکہ باہر انتظار کریں۔ پھر مجھے تھوڑی دیر بعد دوبارہ بلایا اور کہاکہ ویل جنٹلمین ہم نے آپ کو وارننگ دینے کا فیصلہ کیا ہے مستقبل میں آپ محتاط رہیں۔ یہ تھا میرا جیل جانے کا ایک تجربہ۔
س: قیام پاکستان کے بعد
ج: کراچی سے پرچہ نکالنے کا شروع میں کوئی پروگرام نہیں تھا۔ قائداعظم نے جب یہ اعلان کیا کہ پاکستان کا دارالحکومت کراچی ہوگا، اس وقت یہ خیال ضرور آیا کہ اب یہاں دلّی میں رہنا مشکل ہو گا۔ بعد میں جو کچھ ہوا خون خرابہ اور مسلمانوں کا قتل عام اس کے بارے میں بہت کم لوگوں نے سوچا تھا۔ میرا خیال ہے کہ قائداعظم کو بھی اس کی شدت کا خیال شاید نہیں آیا ہوگا کہ غیرمسلم اتنے وحشی ہو جائیں گے کہ مسلمانوں کا اتنے بڑے پیمانے پر خون بہائیں گے۔ اس وقت یہ خیال آیا کہ کراچی سے بھی اخبار نکالاجائے اور دلّی کا اخباربھی رکھا جائے۔ بیک وقت، جیسے اب نکلتا ہے کراچی، راولپنڈی، لاہور اورکوئٹہ سے۔
میں 4؍اگست 1947ء کو بحیثیت اخبار نویس لارڈ مائونٹ بیٹن کے ڈکوٹا طیارے میں کراچی آیا۔ کراچی میں انتقال اقتدار کی تقریب دیکھی۔ آج کل جو سندھ اسمبلی ہے اس کی پریس گیلری میں بیٹھ کر ۔اس کے بعد قائداعظم کا جلوس تھاجو انتقال اقتدار کی تقریب کے بعد وہاں سے گورنر جنرل ہائوس گیا۔ ہم گورنر جنرل ہائوس کئے۔ وہاں استقبالیہ تقریب ہوئی۔اسی دن شام کو ہمارا دل تو یہاں رہنے کوبہت چاہ رہا تھا مگر پھر سمجھ نہیں آرہا تھا کہ واپس کیسے جائیں گے ،کیونکہ اخبار تو وہیں تھا ،کاروبار تو وہیں تھا سارا۔
اس دوران مجھے تھوڑا سا وقت ملا تو وہ نکال کر اسمبلی کے پاس ایک بجلی گھر ہے میکلورڈ روڈ پر،وہاں گیا ۔وہاں ایک پرنٹنگ پریس ہوتا تھا ہندو کا ،پتہ نہیں گھنشام آفسٹ پریس۔ آفسٹ مشین اس زمانے میں کچھ آگئی تھی۔ اس سے میں نے بات کی اور اس کی بلڈنگ میں ہی ایک دکان کرایہ پر لے لی اخبار کےلئے۔شام کو ہم دلّی واپس چلے گئے۔اگلے دن ہم نے دلّی میں انتقال اقتدار کی تقریب دیکھی۔یہ یادگار لمحات ضرور تھے ،لیکن دلّی میں مجھے کوئی اتنا جوش و جذبہ محسوس نہیں ہوا۔
میں اپنے کام کاج میں لگ گیا کہ پرچہ نکالنا ہے۔سوچتا تھا کہ کس طرح کریں اورکیا کریں۔ خیر،کراچی میں ہمارا پرچہ مشہور پریس میں چھپنا شروع ہوا اور وہ اس طرح شروع ہوا کہ میں یہ انتظام کرکے ، بورڈ لگاکر اور جنگ کا ڈیکلریشن لے کر چلاگیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اب کراچی سے بھی پرچہ نکالنا ہے۔ وہاں سے کچھ چیزیں لانا چاہتا تھا۔جب 1947ء میں کراچی سے واپس دلّی گیا تو وہاں بہت زیادہ فسادات شروع ہوگئےتھے۔ ہم لوگ تو پریشان ہوگئے کہ کہاں کا بیک وقت پرچہ؟
یہاں سے نکالیں یا وہاں سے نکالیں۔ وہاں سے بڑی مشکل سےمیں، میری بیوی، گود کا بچہ اور پانچوں بہن بھائی پاکستان آئے۔ وہاں سے کوئی پیسہ نہیں لاسکےتھے اورکوئی سازوسامان بھی نہیں تھا۔میرے خسر میر محمد سلطان نے پوچھا کہ اب کیا کرنا ہے، کیا کرو گے ؟ ہم نے کہا کہ یہاں سے اخبار نکالنا ہے۔ پیسے وغیرہ ہمارے پاس ہیں نہیں۔ آپ ہمیں کچھ پیسے دے دیں۔ اگر کمائیں گے تو آپ کو دے دیں گے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کتنے پیسے چاہئییں۔میں نے آہستہ آہستہ کرکے پانچ ہزار مانگا۔ انہوں نے دے دیے۔ کراچی میںچھوٹا سا فلیٹ لیا ۔پانچ ہزار سے بینک اکائونٹ کھلوایا ۔کراچی سے 15 اکتوبر 1947کو دو پیسے کا پرچہ نکالا تھا۔
س: آپ کے نزدیک صحافت کی آزادی کا کیا تصوّر ہے؟
ج: اس بارے میں بہ حیثیت صحافی یہ سمجھتا ہوں کہ میں جو کہنا چاہوں (یہ بات الگ ہے کہ وہ غلط ہے یا صحیح) ، ایک ذریعہ ہے نا میرے پاس۔ میں نے ایک اخبار نکالا ہے۔ میں جو کہنا چاہوں ، مجھے آزادی کے ساتھ وہ کہنے کی اجازت ہونی چاہیے۔اس کے مواقع ہونے چاہییں ۔ مجھ پر کسی قسم کی قد غن ،ڈر یا خوف طاری نہیں ہوجانا چاہیےکہ میں یہ بات کہوں گا تو میرے دفتر پر حملہ ہوجائے گایا لوگ میرے خلاف ہوجائیں گے۔
صحافت سیاست نہیں۔۔۔۔آزادی صحافت اور سیاست میں فرق ہے ۔۔۔ تحریر صحافت کے زمرے میں آتی ہے،تقریر نہیں۔اس کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ جو کچھ میں صحیح سمجھتا ہوں وہی حرف آخر نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صحافت کی آزادی یہ نہیں ہے کہ لٹھ لے کرکسی حکومت کے پیچھے پڑ جائوں کہ نہیں جی یہ تو خراب لوگ ہیں، یہ حکومت کرنا نہیں جانتے ،غلط قسم کے لوگ آگئے ہیں۔ حکومت پہلے والی ہی ٹھیک تھی، بالکل غلط طور پر اس کو ڈسمس کیاگیا تھا، ہم اسے نہیں مانیں گے، ہم اس کے پیچھے لگے رہیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ میں اور میرا اخبار مشکلات سے دوچار ہو جائے گا۔ اس سے صحافت کی آزادی کا مسئلہ اٹھے گا۔
بعض لوگوں نے مجھ سے کہا کہ آپ تو ہر آنے والی حکومت کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں، مارشل لاء کی حکومت ہویا سویلین حکومت ہوآپ ان کی ہاں میں ہاں ملائیں گے۔ ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ آپ کا اخبار ہر دور میں مزے کرتاہے ، ہر دور میں وہ رائٹ پر ہے۔بات یہ ہے کہ اگر میں لیفٹ میں چلا جائوں تو یا تو اخبار رہےگا یا میں۔ میرا مطلب ہے کہ اپنے ضمیر کو نقصان پہنچائے بغیر اخبار کو ہر حالت میں زندہ رہنا چاہیے اور یہ ادارہ چلتا رہےخواہ کسی قسم کی بھی حکومت آئے۔
میرا خیال ہے کہ جو حالات ہوں اس کے مطابق اخبار کو چلنا چاہیے۔ جیسے ملک چل رہا ہے، ویسے اخبار کوچلنا چاہیے۔ جہاں دیکھیں کہ کوئی غلط راستے پر چل پڑا ہے تو وہاں پر تو کہنا ضروری ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو یہ ناقابل معافی ہے۔ میں تو کم از کم اسی طرح کی پالیسی پر اخبار چلاتا رہا ہوں۔ میرے ہاں جو کام کرنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ بھئی فلاں شخص کا بلیک آئوٹ کرناہے۔اس کے خلاف ہی خبریں دینی ہیں۔
س: حکومتی دبائو کے حوالے سے آپ کو کس دور میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: حکومتی دبائو تو ہر دور میں رہا۔ لیکن اب تک کی حکومتوں میں موجودہ حکومت کو چھوڑ دیں(1990کی نواز شریف کی حکومت کی جانب اشارہ تھا)۔ ان کی طرف سے نہ اب تک کوئی دبائو ہے اور نہ اللہ کرے پڑے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ حکومت کامیاب ہو۔ کیونکہ اتنا بڑا مینڈیٹ آج تک کسی کو نہیں ملا۔ اگر اتنے بڑے مینڈیٹ کے ساتھ بھی حکومت ناکام ہو جائے تو یہ ہماری بدقسمتی ہوگی۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ پریس وغیرہ کے اوپر کوئی دبائو وغیرہ نہ ڈالا جائے کیونکہ سب نے دبائو ڈال کر دیکھ لیا ہے اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ الٹا انہیں نقصان ہی ہوتا ہے۔
بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ وہ حکومت ہمیشہ فائدے میں رہے گی جو پریس کو کھلی آزادی دے تاکہ اس پر کسی خوف و خطر کے بغیر تنقید کی جاسکے اور جو منہ پر کالے کوکالا اور سفید کو سفید کہہ سکے۔ باقی اب تک جو میرا ذاتی تجربہ ہے وہ یہ ہے کہ میں سب سے زیادہ انڈر پریشر مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں رہا ،اخباری لحاظ سے بھی اور ذاتی طور پر بھی۔ مرحوم کے زمانے میں بہت انڈر پریشر صرف اشتہارات کے حوالے سے ہی نہیں رہابلکہ راتوں کو بھی ذہنی اذیت میں مبتلا رہا صرف اس لئے کہ ایک اخبار کا مالک تھا بس!۔
یہ بات بے نظیر بھٹو کے زمانے میں نہیں تھی، بھٹو صاحب کے زمانے میں تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ بے نظیر حکومت کو پریس کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دوسرے مسائل اور معاملات سے نجات پاتیں تو پھر ہوسکتا ہے کہ اس طرف توجہ دیتیں ۔ان کے زمانے میں پریس پر اتنی پابندیاں نہیں تھیں۔ کبھی کبھی کوئی اکادکا بات ہو جاتی تھی، لیکن براہ راست نہ تو کبھی انہوں نے پریس سے محاذ آرائی مول لی اور نہ کبھی پریس کو تنگ کیا۔
س:۔ جنگ نے قومی تعمیر میں جو کردار ادا کیا ہے آپ اس سے کہاں تک مطمئن ہیں؟
ج:۔ قومی تعمیر میں جنگ کے کردار سے مطمئن نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جنگ کو قومی تعمیر میں اس سے زیادہ بڑھ چڑھ کر کردا ر ادا کرنا چاہیے تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ قوم کی تعمیر ہوئی ہی نہیں۔ اس میں خالی جنگ اخبار کچھ نہیں کرسکتا۔ اس مقصد کے لیے پوری قوم کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔ صرف ایک اخبار کچھ نہیں کرسکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اخباروں کی طرف سے قومی تعمیر کے لیے جتنا کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔ جنگ بڑا اخبار ہے اس پر زیادہ ذمہ داری ہے اس کویہ کا م زیادہ کرنا چاہیے تھا۔ ہماری سیاست نے بھی اس کو یہ کام نہیں کرنے دیا۔
یکسوئی نہیں رہی ،بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ہاں صنعتی ترقی نہیں ہوئی۔ صنعتی ترقی اس لئے نہیں ہوئی کہ پالیسیاں بدلتی رہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوئی ایک پالیسی بنادی جاتی اور یہ یقین دلایا جاتا کہ پانچ سال تک چاہے حکومتیں بدلتی رہیں، یہ پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ لیکن اس کے برعکس ہوا جو حکومت آئی 20 مہینے، دو سال ، تین سال کےلیے آئی،ایڈہاک رہی۔ ہم بھی اسی ایڈ ہاک ازم کا شکار رہے۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ حکومت ختم ہو جائے اور ہم اس حکومت کی اچھی چیزوں کو پروجیکٹ کرتے رہیں۔ لوگ کہیں گے کہ بھئی ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے، پیپلز پروگرام والے تو چلے گئے اور یہ پیپلز پروگرام کو پروجیکٹ کر رہے ہیں، اس طرح کوئی بھی مطمئن نہیں ہوگا۔
اب مثلاً پیپلز پروگرام اچھا تھا تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکومت رہے یا نہ رہے اچھے پروگرام کو تحفظ ملتا۔ یہی نقص ہماری قومی پالیسی میں بھی رہا ہے اور اخبارات کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ دوسرے اخبارات کی بات نہیں کرتا میں’’جنگ‘‘ اخبار کی بات کرتاہوں کیوں کہ یہ بڑا اخبار ہے۔ میں GUILTY محسوس کرتا ہوں کہ ہم لوگوں نے وہ کام نہیں کیا جو ہمیں کرنا چاہیے تھا۔ مستقبل میں کوشش کریں گے کہ کچھ کام کرسکیں۔