لندن (مرتضیٰ علی شاہ) ایران میں پاکستان کے سابق سفیر اور نیشنل بنک آف پاکستان کے سابق صدر ایم بی عباسی نے کہا ہے کہ سابق صد آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن میں بطور گواہ جھوٹا بیان دینے کیلئے مجھ پر شدید دباؤ ڈالا گیا تھا، جس کی وجہ سے میں نے پاکستان چھوڑ کر کینیڈا جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔ وہ اکتوبر 2008ء سے اکتوبر 2010ء تک ایران میں پاکستان کے سفیر اور 1995-96 میں نیشنل بنک آف پاکستان کے صدر رہے تھے۔ انہوں نے یہاں اپنی کتاب دی رول آف جسٹس- این انٹرپریٹیشن آف گورننس اینڈ سوشل آرڈر تھرو دی مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ کی تقریب اجرا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آصف علی زرداری کے خلاف انتقامی مہم کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ زندگی بھر میرا ضمیر مجھے اس گھنائونی کمپین کا حصہ بننے پر ملامت کرتا۔ اس تقریب میں ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی صنم بھٹو نے خصوصی شرکت کر کے ایم بی عباسی کو سپورٹ دی۔ فرنٹ لائن کلب میں منعقد ہونے والی تقریب میں پاکستان کمیونٹی کی معزز شخصیات بشمول رائٹرز سیاستدانوں اور ایکٹیوسٹس نے شرکت کی۔ زیادہ تر شرکا کا پاکستان پیپلز پارٹی سے طویل تعلق رہا۔ کتاب کے مصنف نے کہا کہ میں طویل عرصے سے بھٹو فیملی اور آصف زرداری کو جانتا ہوں، میں سکینڈل کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور زرداری نے مجھے اپنے لئے کبھی کسی غلط کاری کیلئے نہیں کہا تھا لیکن مجھے پھر بھی ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کیلئے کہا گیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں باہر چلا جائوں تاکہ بوگس بنیادوں پر آصف زرداری کو ملوث کرنے میں مدد نہیں دوں گا۔ ایم بی عباسی کی کتاب ان مضامین کا مجموعہ ہے، جن میں ترقی پذیر دنیا میں گورننس کا جائزہ لیا گیا ہے، جس کی ایک مرکزی بنیاد پر ہے کہ انصاف کے بغیر انسانیت ترقی نہیں کرے گی۔ ایم بی عباسی نے گزشتہ 20 برسوں میں زیادہ تر وقت ٹورنٹو کینیڈا میں گزارا ہے، جہاں انہیں مقامی یونیورسٹی میں لوکل گورننس ماڈل اور فلسفہ اکیڈمک اور عملی طور پر پڑھانے کا موقع ملا ہے۔ اپنی تقریر میں ایم بی عباسی نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور پیشرفت عوام کو انضاف کی فراہمی میں مضمر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو قانون کی حکمرانی یا قانون کی کسی دوسری شکل کے بجائے انصاف کی حکمرانی کی زیادہ ضرورت ہے۔ انصاف کی حکمرانی ہر ملک اور ہر سوسائٹی کیلئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے انتہائی قریب سے جائزہ لیا ہے کہ مغربی ملکوں نے انصاف کی حکمرانی کی وجہ سے کیسے ترقی کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیڈرز مغربی جمہوریتوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں لیکن وہ انصاف کی حکمرانی کے نفاذ کیلئے کچھ بھی نہیں کرتے۔ انہوں نےکہا کہ آگے بڑھنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ انہوں نےکہا کہ پاکسستان اور دیگر مقامات پر خواتین کو پدرانہ نظام کے قدیم اندرونی جبر سے آزادی دینی چاہئے۔ انہوں نے اجتماع کو بتایا کہ انصاف کی عدم فراہمی اور حکمرانوں کی جانب سے عام لوگوں کو انصاف دینے میں ناکامی کی وجہ سے آج انسانی معاشروں کو بے تحاشہ مسائل کا سامنا ہے۔ ایم بی عباسی نے کہا کہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں فلسفہ کی تعلیم کیسے حاصل کی۔ انہوں نے بتایا کہ میں اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کیلئے داخلہ لینے کی غرض سے ٹورنٹو یونیورسٹی گیا تھا لیکن میں نے فلاسفی ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا اور میں نے ایک سپیشل طالب علم کی حیثیت سے فلسفہ کو پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے محسوس کیا کہ زندگی کی تمام اخلاقی اور مورال اپلی کیشن یونانی فلسفہ سے شروع ہوتی ہیں، ان میں زیادہ مشہور افلاطون، سقراط اور ارسطو ہیں۔ فلسفے کی تقریباً تمام ڈائیلکٹس میں بنیادی مسئلہ انصاف کا علم ہے۔ ایم بی عباسی نے کہا کہ یہ مغربی ملکوں کی جانب سے آگے بڑھنے کیلئے دبائو کی وجہ سے انسانی وقار کو دنیا بھر میں بہتر بنایا جا رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ شہریوں کو اس گھٹن سے نجات دلائی جانی چاہئے جو کرہ ارض کے 50 فیصد سے زیادہ افراد کو خط غربت سے نیچے دھکیل کر محدود کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر مسلم ملکوں کو سیاسی اختلاف کا سامنا ہے، جو اندرونی اور بیرونی دونوں ہیں، جس کے نتیجے میں غیر یقینی صورت حال اور افراتفری پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا جواب صرف انصاف کی حکمرانی میں مضمر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلا اور سب سے اہم قدم ان جگہوں پر الیکٹورل سسٹم میں اصلاح کرنا ہے، ڈکٹیٹر چاہے سویلین ہو یا فوجی، ان کی جدید تاریخ میں کوئی جگہ نہیں ہے جب فوجی حمایت سے حکمران مسلط کیا جائے گا تو اصاف نچلی سطح تک نہیں پہنچے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ڈکٹیٹر کی جانب سے کیسی بھی اصلاحات کی جائیں لیکن سوسائٹی پر اس کے اثرات کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔