ملک بھر میں آج پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی 43ویں برسی منائی جارہی ہے جو 1971سے 1973تک پاکستان کے چوتھے صدر اور اسکے بعد 1973سے 1977تک ملک کے وزیراعظم بنے ان کے سیاسی پیروکار (جیالے)آج بھی انہیں ایک عظیم لیڈر کی حیثیت کا دجہ دیتے ہوئے اور متفقہ طور پر اپنا قائد کہتے ہیں۔
1977کے عام انتخابات میں انکی جماعت کا مقابلہ پاکستان قومی اتحاد میں شامل نو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد سے تھا جن میں اس وقت کی تمام بڑی جماعتیں شامل تھیں جنہوں نے انتخابات میں پیپلز پارٹی پر دھاندلی ،جعلی ووٹوں اور حکومتی مشینری کے کردار کے الزامات لگاتے ہوئے ذوالقار علی بھٹو کی کامیابی کو تسلیم کر نے سے انکار کر دیا اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا۔
اس دوران ملک ہنگاموں کی زد میں آگیا اور پانچ جولائی 1977کو جنرل ضیاء الحق نے بغاوت کرتے ہوئے بھٹو صاحب کی حکومت ختم کردی اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
ملک کا نظم و نسق سنبھالنے سمیت اس کا رروائی کو فوج نے آپریشن فئیر پلےکا نام دیا اور حقیقت یہ ہے اس سارے آپریشن میں کچھ فئیر نہیں تھا لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنر ل ضیا الحق نے سرکای ٹی وی پر آکر "میرے ہم وطنوں "سے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے ملک میں مارشل لانافذ کر نے کا اعلان کیا۔
یاد رہے کہ جنرل ضیا الحق کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انکی منکسر المزاجی ،اطاعت کی حد تک عاجزی اور خوشامد سے بڑھ کر ان کی شخصیت کی تعریفوں کے ساتھ ساتھ اپنے اقتدار کے حوالے سے ایک بے ضرر جرنیل سمجھتے ہوئے فوج میں ان کے سینئر ساتھیوں کو نظرانداز کر کے آرمی چیف کے منصب پر فائز کیا تھا لیکن یہ وہی جنرل ضیا الحق تھے جنہوں اپنے محسن کی پھانسی کے پروانے پر دستخط کیے تھے۔
جس کا اختصار کے ساتھ پس منظر اس لیے شامل تحریر کیا جا رہا ہےکیونکہ جو نئی نسل گزشتہ تین دہائیوں میں سن شعور میں آئی اورماضی قریب کے بعض اہم کرداروں اور حکمرانوں کے ناموںسے تو آشنا ہیں لیکن وجہ شہرت سےلاعلم ۔نواب محمد احمدخان قصورری ایک نامور قانون دان تھے جن کا شمار وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین میں ہوتا تھا اپنے صاحبزادے احمد رضا قصوری کے ہمراہ سفر کے دوران ان کی کار پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی اس حملے میں نواب محمد احمد خان قصوری ہلاک ہو گئے تاہم احمد رضا قصوری محفوظ رہے۔
انہوں نے اس حملے اور اپنے والد کی ہلاکت کی ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو پر عائد کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ حملہ ان کے حکم پر کرایا گیا تھا اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کرادی۔
بھٹو صاحب کی معزولی کہ کم و بیش ڈھائی ماہ بعد ستمبر 1977کو انہیں نواب محمد احمد خان کے قتل میں گرفتار کر لیا گیا اور 18 مارچ 1978کو ہائیکورٹ نے انہیں سزائے موت کا حکم سنایا۔ 6فروری 1979کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہائیکورٹ کے فیصلے کی تو ثیق کر دی اور 4اپریل کو انہیں راولپنڈی کی سینٹرل جیل میں تخت دار پر لٹکا دیا گیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین کی افسردہ یادوں کے حوالے سے آج پھر چار اپریل کا یادگار دن ہے۔
آج 43سال بعد پھر پاکستان بھر میں اور بیرون ممالک اس دن کو بھٹو صاحب کی یادوں سے منایا جائے گا تاہم 43 سال بعد اب پیپلزپارٹی کے سیاسی جیالوں سے زیادہ پارٹی کے وہ نظریاتی کارکن جو بھٹو صاحب کے بعد اُن کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو سے نظریاتی وابستگی رکھتے تھے یا پھر وہ جیالے جو بلاول بھٹو میں اپنے قائد کی شہبیہ دیکھتے ہیں وہ اس دن کو سیاسی عقیدت کے طور پر منائیں گے۔
لیکن حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ جس طرح پارٹی کے بانی چیئرمین بھٹو صاحب کا نظریہ ، فلسفہ، سوچ اور ارادے ان کے ساتھ میں بتدریج پس منظر میں چلے گئے تھے اُسی طرح پارٹی کے سنجیدہ ، وفادار اور بھٹو صاحب کی سوچ اور اُن کے افکار کی ترویج کرنے والے بھی یا توزندگی کے منظر سے چلے گئے ہیں یا پھر حالات کے پیش نظر پس منظر میں جاچکے ہیں۔ تاہم آج بھی ملک بھر میں برسی کی تقریبات ہوں گی جس طرح پانچ جنوری کو اُن کی سالگرہ منائے جانے پر کیکٹ کاٹے جاتے ہیں اور چھینا چھپٹی ہوتی ہے اُسی طرح آج اُن کے سوگ میں قرآن خوانی کی محافل ہوں گی ، پلاؤ کی دیگیں پکیں گی اور چہلم پر بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آئیں گے۔
پاکستان کے ایک قدآور اور بین الاقوامی سطح پر دنیا کے اہم لیڈروں کی صف میں شمار ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کی یاد یں اب سال میں صرف دو مرتبہ منائی جاتی ہیں اُن کی سالگرہ پر یا پھر برسی پر۔
ہر سال چار اپریل کو بھٹو صاحب کی یادیں جب تازہ ہوتی ہیں تو یہ سوال بھی ذہین میں پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھٹو صاحب کے گلے میں پھندا ڈال کر اُنہیں تختہ دار چڑھا کر اُن کاا عدالتی قتل نہ کیا جاتا تو آج کا پاکستان کیسا ہوگا۔ آج اُن کی جماعت کیسی ہوتی۔ بھٹو کا قتل کیوں کیا گیا، ایک خوفزدہ جرنیل نے اپنے انجام کے پیش نظر یا بین الاقوامی ایجنڈا کی تکمیل کے لیے۔
بھٹو صاحب کا حد درجہ اعتماد کہ اُنہیں پھانسی نہیں دی جائیگی یا پھر مقدمے کے دوران جارحانہ گفتگو اور اپنے غیر سیاسی مخالفین کو عبرتناک انجام تک پہنچانے کی دھمکیاں اور عزائم، اس کے علاوہ بھی کئی محرکات اور عوامل بھی ہوسکتے ہیں۔
اپنوں کی سازشیں اور اغیار کی گھاتیں، بھٹو صاحب نے اپنی زندگی کے آخری شب وروز راولپنڈی کی سینٹرل جیل میں جہاں اب ایک وسیع و عریض پارک، سینما ہاؤس اور فاسٹ فوڈ کے ریستوران بن چکے ہیں گزارے۔ اور اس پارک کے عین عقب میں چیف آف آرمی سٹاف ہاؤس ہے۔ اس پارک میں آنے والے بچوں اور بڑوں کو شاید ہی اس بات کا علم ہوکہ محض چند منٹ کی مسافت پر پاکستان کی تاریخ کا کیا سانحہ بپا ہوا تھا جب پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو جہاں پھانسی پر چڑھا دیا گیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پیدائش پانچ جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں ہی ہوئی جو سرشاہنواز کے تیسرے بیٹے تھے۔ جنہیں حکومت برطانیہ نے سرکا خطاب دیاتھا۔ کیونکہ سیاست ہند میں اُنہیں ایک اہم حیثیت اور بڑا مقام حاصل تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے خاندانی پس منظر ، حسب نسب اپنی اعلیٰ تعلیم و تربیت اور پھر بعد میں عوام کی پسندیدگی ، مقبولیت اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی پر بھی بڑا زغم تھا جو ایک فطری سے بات تھی اور یہی وجہ تھی کہ اُن کے ناقدین اُنہیں قدرے خود سر، انا پرست اور فیصلوں میں عدم مشاورت کرنے والی شخصیت بھی قرار دیتے تھے۔ اور اُن کی غیر فطری موت کو انہی عوامل کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ واقعہ بھی بر محل ہوگا کہ جو ریکارڈ پر ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے بعض رفقا اُنہیں یہ مشورے دے رہے تھے کہ بھٹو کو پھانسی دینے کی بجائے اُن سے رحم کی اپیل کراکے اُن سے ضمانتیں حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک جانے پر آمادہ کرلیا جائے تو یہ زیادہ مناسب فیصلہ ہوگا لیکن جواب میں جنرل ضیاء الحق بھٹو صاحب کی اس گفتگو کا حوالہ دیا کرتے تھے جس میں وہ اپنی نجی محفلوں میں جرنیلوں کو الٹالٹکانے والی باتیں کیا کرتے تھے۔ بہر حال ایک آخری کوشش کے طور پر ایک اعلیٰ افسر کو جیل میں بھٹو صاحب کے پاس بھیجا گیا۔ اُس وقت بھٹو صاحب کی کیفیات خاصی خراب تھیں ، مذکورہ افسر نے بھٹو صاحب کے سامنے رحم کی اپیل کی دستاویزات رکھیں اور اُنہیں فوجی حکومت کی پیشکش کو ’’اشارتاً‘‘ بیان کرتے ہوئے دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے قائل کیا۔
مذکورہ افسر کے مطابق بھٹو صاحب نے دستاویزات پر نگاہ ڈالے بغیر مجھ سے پوچھا ۔ تم جانتے ہو میں کس باپ کا بیٹا ہوں ۔ تو میں نے فوراً کہا جی سر۔ آپ سر شاہنوازکے بیٹے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ کیا تمہیں ضیاء الحق کے باپ کا نام معلوم ہے ؟ میری خاموشی پر انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق اور مجھ میں بہت فرق ہے ۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ سر شاہنواز کا بیٹا ایک فوجی جنرل سے رحم کی اپیل کرے گا۔ ہر گز نہیں ، ہر گز نہیں۔۔۔ اور بات ختم ہوگئی۔ تاہم اُس وقت کی تمام صورتحال سے آگہی رکھنے اور معاملات سے متعلق شخصیات کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی کے لئے معافی مانگ لیتے اپیل کر دیتے تو پھر بھی جنرل ضیاء الحق کسی صورت بھی انہیں معاف نہیں کرتے اور معافی مانگ کر بھٹو صاحب کو تاریخ اور ان کے مخالفین ایک بزدل سیاستدان قرار دیتے۔
درحقیقت جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو ختم کرنے کا فیصلہ ایک خوف کے عالم میں کیا۔ یہ خوف کیا تھا اس کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھٹو صاحب کو معزولی کے بعد پہلی مرتبہ مری سے راولپنڈی لایا گیا اور پھر وہ لاہور گئے تو ان کے شاندار استقبال کے لئے وہاں جمع ہونے والے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کئی زیادہ تھی جو انتہائی پر جوش تھے اور عینی شاہد بتاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا جو واقعی جیالے تھے اگر بھٹو صاحب حکم کرتے کہ’’ مجھے ایک آمر سے پناہ دو تو یہ کارکن انہیں حصار میں لے لیتے اور منظر بھی بدل جاتا اور تاریخ بھی‘‘۔
ضیاء الحق نے صورتحال کو بھانپ لیا تھا اور وہ سمجھ گیا تھا کہ اگر میں نے بھٹو کو زندگی بخش دی تو میری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی اسی خوف کے عالم میں جنرل ضیاء الحق نے ہر صورت میں بھٹو صاحب کو تختہ دار پر چڑھانے کا فیصلہ کیا۔ یہ 3 اپریل کی شب تھی جب راولپنڈی کے اڈیالہ جیل میں ہر طرف موت کا ایک سکوت طاری تھا ۔سپرنٹنڈنٹ جیل اور دوسرے عہدے دار واپس جانے لگے تو مسٹربھٹو نے کہا مجھے شیو کا سامان فراہم کیاجائے۔
انہوں نے کئی دن سے شیو نہیں کی تھی جس سے داڑھی کافی بڑھی ہوئی تھی۔ مسٹر بھٹو نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انگریز ی میں کہا کہ’’ میں اس داڑھی کے ساتھ نہیں مرنا چاہتا‘‘۔ انہوں نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ انہیں ایک جائے نماز اور تسبیح بھی فراہم کی جائے ۔یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اس طرح کی خواہش ظاہر کی۔ ورنہ اس سے پہلے ایک موقع پر جب اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ مسٹر بھٹو نماز پڑھنے لگے ہیں تو انہوں نے جیل حکام سے نہایت سختی کے ساتھ اس خبر کی تردید کرنے کے لیے کہا ۔ان کا خیال تھا کہ اس طرح یہ تاثر پیدا ہوگا کہ ان کے اعصاب جواب دے چکے ہیں اور ان میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی۔
اس وقت انہیں قرآن پاک کا ایک نسخہ بھی فراہم کیاگیا لیکن کسی نے انہیں ایک دن بھی اس کی تلاوت کرتے نہیں دیکھا۔ بہرکیف تمام مطلوبہ چیزیں انہیں فراہم کردی گئیں۔ شیو بنائی پھر آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور کسی قدر مسکراتے ہوئے آہستہ سے بولے اب ٹھیک ہے ۔ مسٹر بھٹو نے تسبیح اٹھالی لیکن کچھ پڑھنے یا ورد کرنے کے بجائے انہوں نے اسے اپنے گلے میں ڈال لیا۔ شام کو جیل حکام نے جب کہا کہ وہ اپنی وصیت تیار کرلیں تو انہوں نے کاغذ اور قلم مانگا اور لکھنا شروع کردیا۔ دوصفحے لکھ چکے تو نہ جانے کیا خیال آیا اور انہوں نے کاغذپھاڑ دیئے پھر مشقتی سے کہا انہیں جلادو۔ شاید ایک بار پھر یہ خیال غالب آگیا تھا کہ ان کے ساتھ ڈرامہ کیا جارہا ہے اور اب یہ تحریر لکھواکر ان کے اعصاب کی شکستگی کااشتہار دینا مقصود ہے۔
تاہم جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا ٗ ان کے دل میں ایک بے نام سا خوف اور اندیشہ پیدا ہوتاجارہا تھا ۔ رات خاموش اور قدرے خنک تھی راولپنڈی میں ایک روز قبل بارش ہوئی تھی ۔ یہ اسی کی خنکی تھی جیل کی چاردیواری سے باہر خاموشی اور ویرانی کا راج تھا لیکن جیل کے اندر خلاف معمول رات کے اس وقت بھی غیر معمولی چہل پہل تھی۔ جیل کے احاطے میں انتظامیہ، پولیس اور محکمہ جیل کے بے شماراعلی افسر موجود تھے اور پھانسی گھر کے انتظامات کابار بار جائزہ لیا جارہا تھا۔
زنانہ احاطے سے پھانسی گھر تک پورے راستے میں تقریبا دو سو گیس لیمپ جلا کر رکھ دیئے گئے تاکہ اگر بجلی اچانک چلی بھی جائے تو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایک بج کر چودہ منٹ پر جیل کا ایک ذمہ دار افسر مسٹر بھٹو کی کوٹھڑی میں پہنچا اور انہیں بتایا کہ ان کے نہانے کے لیے گرم پانی تیار ہے وہ اٹھ کر غسل کرلیں۔ مسٹر بھٹو نیم غنودگی کے عالم میں گدے پر لیٹے ہوئے تھے ٗ سنی ان سنی کرکے چپکے سے لیٹے رہے ۔ تاہم ان کے دل کی دھڑکنیں بے اختیار تیز ہورہی تھیں اور یہ وہ لمحہ تھا جب انہیں پہلی مرتبہ مکمل طور پر یقین ہوا کہ انکی زندگی کی گھڑیاں سچ مچ ختم ہونے والی ہیں اور اگلی صبح کا سورج دیکھنا انہیں نصیب نہیں ہوگا ۔ یہ سوچ کر ان کے اعصاب جواب دے گئے۔ ان پر سکتے کی سی حالت طاری ہوگئی ۔ دیکھنے والے ڈر گئے کہ کہیں ان کی زندگی کو کوئی نقصان نہ پہنچ گیا ہو۔ یا انہوں نے کوئی زہریلی چیز نہ کھالی ہو۔
چنانچہ فوری طور پر ڈاکٹر کو بلوایا گیا۔ ڈاکٹر نے انہیں چیک کیا ۔ اسٹیتھ سکوپ سے دل کی دھڑکن چیک کی، آنکھوں کی پتلیوں کا جائزہ لیا اور بتایا کہ گھبرانے والی کوئی بات نہیں مسٹر بھٹو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ رات کے ڈیڑھ بجے جیل کے بڑے دروازے کے پاس والی کوٹھڑی کادروازہ کھلا اور کسی نے تارا مسیح کو آواز دی ، تارا اٹھو تمہارا کام شروع ہونے والا ہے ۔ تارا مسیح کوٹھڑی سے نکل کر پھانسی گھر کی طرف روانہ ہوا تو اسے پھانسی گھر کے چاروں طرف بے شمار لوگ مستعد کھڑے نظر آئے۔ ان میں کئی وردیوں والے بھی تھے اور کئی وردیوں کے بغیر سفید کپڑوں میں بھی ۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے چہرے پر سوچ اور فکر کے گہرے سائے لہرائے۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
اس نے ڈیڑھ انچ قطر کا رسہ پول سے باندھا ، اپنی مخصوص گرہ لگائی اور انہیں کھینچ کر دیکھ لیا کہ ٹھیک طرح سے کام کرتا ہے اس کام میں ایک اور جلاد نے بھی اس کی مدد کی۔ پونے دو بجے سپرنٹنڈنٹ جیل نے مسٹر بھٹو کوموت کے وارنٹ کامتن پڑھ کر سنایا اب انہیں سو فیصد یقین کرنا پڑا کہ جیل حکام ان سے کوئی ڈرامہ نہیں کررہے، معاملہ واقعی ’’سیریس‘‘ ہے ۔ اس عالم میں ان کی حالت دیدنی تھی۔ دل بے اختیار بیٹھا جارہا تھا۔ چند لمحے تصویرحیرت بنے وہ سپرنٹنڈنٹ جیل کامنہ تکتے رہے۔ پھر قوت ارادی سے کام لے کر انہوں نے اپنے حوصلے کو یکجا کیا اور آہستہ سے بولے ’’مجھے وصیت لکھنی ہے کاغذ چاہیئے‘‘ انہیں بتایا گیا کہ اب وصیت لکھنے کامرحلہ گزر چکا ہے ۔ شام کو انہوں نے وصیت لکھنے سے انکار کردیا تھا۔
اب یہ انتظام ممکن نہیں ۔ پھانسی کے لیے دو بجے کاوقت مقرر تھا اور اب دیر ہوتی جارہی تھی۔ سپرنٹنڈنٹ جیل بلیک وارنٹ کامتن سنانے کے بعد انتظامات کا آخری جائزہ لینے کے لیے پھانسی گھر کی طرف چلے گئے ۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ٗ بعض اعلی فوجی ور سول افسر اور مسٹر بھٹوموت کی کوٹھڑی میں رہے ۔ پھانسی پانے والے مجرموں کو عام طور پر چست قسم کامخصوص لباس پہنایا جاتاہے لیکن مسٹر بھٹو نے یہ لباس نہیں پہنا ۔ وہ شلوار قمیض میں ہی ملبوس رہے اور پاؤں میں چپل تھی۔ انہوں نے نہانے سے بھی انکار کردیا ۔ ان کی ٹانگیں بے جان سی ہورہی تھیں اور ان میں کھڑا ہونے کی ہمت بھی نہیں رہی ۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ ایک مایوس کن منظر تھا۔ سب ان سے بلند حوصلے اور مضبوط اعصاب کی توقع رکھتے تھے۔
ڈپٹی سپرنٹنڈ نٹ جیل نے مسٹر بھٹو سے چند قرآنی آیات کے ورد کے لیے کہا .... مسٹر بھٹو خاموش رہے۔ اب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل نے ایک ہیڈ وارڈن اور چھ وارڈرن کو طلب کیا اور ان کی مدد سے مسٹر بھٹو کے دونوں ہاتھ پشت پر لے جاکر ایک رسی سے مضبوط باندھ دیئے گئے ۔ اس کے بعد دو وارڈنوں نے مسٹر بھٹو کو دائیں اور بائیں بازووں سے پکڑا اور انہیں تختہ دار کی طرف لے چلے۔ مسٹر بھٹو میں چلنے کی ہمت نہیں تھی ٗ چند قدم کے بعد ہی ان کا سانس بری طر ح پھول گیا اور ٹانگیں جواب دے گئیں ۔ قریب تھا کہ وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑتے ۔ اردگرد کھڑے وارڈنوں نے لپک کر تھام لیا ...... پتہ چلا مسٹر بھٹو صدمے سے نڈھال ہوگئے ہیں۔
متعلقہ عملے نے انہیں سہارادے کر کھڑا رکھنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ ان کی ٹانگیں بالکل ہی بے جان ہوچکی تھیں ۔ایک سٹریچر منگوا کر انہیں اس پر ڈالا گیا اور دو آدمیوں نے سٹریچر اٹھالیا۔ مشکل یہ تھی کہ وہ کبھی دائیں طرف لڑھک جاتے تو کبھی بائیں طرف ۔ چنانچہ سٹریچر کو چاروں طرف سے پکڑا گیا اور یوں مسٹر بھٹو کو پھانسی کے تختے کی طرف لے جایا گیا۔ سٹریچر اٹھا کر چلنے والوں کے ہونٹوں پر کلام اﷲ کے مقدس الفاظ تھے۔ساری جیل تلاوت قرآن پاک کی آواز سے گونج رہی تھی۔ تلاوت کلام الہی کرنے والے موت کے چبوترے کے گرد بھی کھڑے تھے کہ یہی جیل کادستور ہے۔ پھانسی کے چبوترے کے پاس پہنچ کر (جہاں مسٹر بھٹو کو پھانسی دی جانی تھی)سٹریچر رکھ دیاگیا اور انہیں اٹھنے کے لیے کہاگیا۔
مسٹر بھٹو بڑی مشکل سے اٹھ کر اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے۔ مسٹر بھٹو کو تختوں پر کھڑا کیا جاچکا تھا کہ انہوں نے خود کلامی کے انداز میں دھیرے سے کہا یہ تکلیف دیتا ہے ان کا اشارہ رسی کی طرف تھا جس سے ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے۔ تارہ مسیح لپک کر آگے بڑھا اور اس نے رسی ڈھیلی کردی ۔ گھڑی کی سوئی دو بجے سے آگے بڑھ چکی تھی۔ تارا مسیح نے ان کے چہرے پر سیاہ نقاب چڑھانے کے بعد پھندا ان کے گلے میں ڈال دیا ٗ دونوں پیروں کو ملا کر ستلی بھی باندھی جاچکی ٗ تارا مسیح تختوں سے اتر آیااور اب اس لمحے کا منتظر تھا کب سپرنٹنڈنٹ جیل ہاتھ کے اشارے سے اسے لیور کھینچنے کاحکم دیں گے۔
تختہ کھینچنے میں صرف چند ساعتیں باقی تھیں کہ مسٹر بھٹو نے انتہائی کمزور آواز میں کہا Finish it سپرنٹنڈنٹ جیل کی نظریں اپنی ریڈیم ڈائل گھڑی پر جمی تھیں ۔ یکایک انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور اٹھا ہوا ہاتھ تیزی سے نیچے گرالیا ۔ یہ اشارہ تھا لیور دبانے کا ۔ تارا مسیح کے مشاق ہاتھوں نے بڑی پھرتی سے لیور کھینچ دیا۔ دونوں تختے ایک آواز کے ساتھ اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے اور بارہ فٹ گہرے کنویں میں اندر کی جانب کھل چکے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک ذہین و فطین انسان جس نے اپنی طرز کے ایک نئے عہد کی بنیاد رکھی ...... اپنے پورے عہد اور اپنی افتاد طبع کے ساتھ خاموشی سے موت کے اس اندھے کنویں میں جاگرا ۔ اﷲ اکبر۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین اور مقبول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ایک واقعہ کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان سے موازنہ کرنا درست نہیں
گزشتہ دنوں بعض تجزیہ کاروں اور سیاسی مبصرین نے ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کے درمیان ایک مماثلت کے حوالے سے دونوں شخصیات کا سیاسی اور دور حکومت کا موازنہ شروع کر دیا جو کسی طرح بھی مناسب نہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔مماثلت کے اس موضوع کا آغاز 27 مارچ کو وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اسلام آباد کے پریڈ گرائونڈ میں ہونے والے ایک جلسہ عام میں تقریر کے دوران اس وقت ہوا جب انہوں نے کہا کہ میرے خلاف بھٹو جیسی سازش ہوئی ہے۔
مجھے بیرون ممالک سے دھمکیاں ملیں ،مجھے اقتدار سے ہٹانے کیلئے پیسہ باہر سے آیا اور لوگ ہمارے استعمال ہوئے۔انہوں نے اپنے ان الزامات کے ساتھ ساتھ اپنے موقف کے حق میں جیب سے ایک کاغذ لہراتے ہوئے کہا کہ یہ اس کا تحریری ثبوت ہے۔یہ کہہ کر کاغذ جیب میں رکھ لیا اور جلسے میں اس کاغذ کا تذکرہ خط کے حوالے سے کیا اور کہا کہ مجھے سازشوں کئی ماہ سے علم ہے وقت آنے پر اس کی تمام تفصیلات بتاؤں گا۔
اب یہ بات تو درست ہے کہ 1977 کے انتخابات میں وزیراعظم ذوالفقار بھٹو جو انتخابات کرائے تھے اس کے نتائج ان کے خلاف بننے والے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اس اتحاد نے مسترد کر دئیے تھے جو پاکستان جمہوری اتحاد کے نام سے تشکیل پایا تھا جس میں اس وقت ملک کی 9 بڑی سیاسی جماعتیں شامل تھیں ۔ یہ اتحاد جسکی سربراہی غلام مصطفیٰ جتوئی کر رہے تھے ۔ملک میں مہنگائی ،احتساب یا نااہل حکمرانی کے خلاف نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی ترقی پسندانہ سوچ ،سوشلزم اور ان کی طرز سیاست کے خلاف تھاان اقدامات کیخلاف جو وہ ملک کی غریب عوام کیلئے کرتے تھے ،روٹی ،کپڑا اور مکان کے سلوگن کیخلاف تھا۔
اس اتحاد میں خان عبدالولی خان پروفسیر غفور احمدشیرباز مزاری،نوابزادہ نصر اللہ سمیت دیگر اہم سیاستدان شامل تھے اور وزیرعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف بھی کم و بیش اسی طرز کا اتحاد تشکیل پایا۔1977کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے جب ملک گیر کا میابی حاصل کی تو اس اتحادنےالیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کئےاور بھٹو صاحب کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا۔ اس وقت بھٹو صاحب نے بھی کم و بیش ایسے ہی الزامات لگائے تھے جیسے وزیراعظم عمران خان اب لگا رہے ہیں لیکن وہ ان الزامات کے حقائق لیکر قومی اسمبلی میں گئے تھے جہاں انہوں اپنے تفصیلی موقف سے ایوان کو آگاہ کیا جبکہ عمران خان نے اس حوالے سےــ ـ" مبینہ خط" جلسہ عام میں لہرایا شاید انہوں نے اس حوالے سے کہیں پڑھا ہو یا ان کے رفقا نے بھٹو صاحب کے اس تاریخی واقعہ سے آگاہ کیا ہو کہ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں جب بھٹو صاحب کو اس اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ ان کا وقت حکمرانی اب ختم ہوا چاہتا ہے تو آخری کوشش کے طور پر انہوں نے جو اقدامات اور سرگرمیاں کیں تھیں ان میں یہ واقعہ بھی اہم تھا کہ اچانک ذوالفقار علی بھٹو راولپنڈی میں نمودار ہوئے بتایا جا تا ہے کہ راولپنڈی کے معروف راجہ بازار اور صدر کے ہاتھی چوک بھی گئے لیکن عینی شاہدین کے مطابق جنہوں نے راولپنڈی میں صدر کے گنجان آباد علاقے میں انہیں دیکھا۔ وہ اس وقت صدر میں واقع امریکن سینٹر کے سامنے ایک ٹریفک چبوترے پر کھڑے تھے اس زمانے میں ٹریفک کنٹرول کرنے والے پولیس آفیسر اس چبوتر ے پر کھڑے ہوکر ٹریفک کو رواں دواں رکھتے تھے ۔گماں یہی ہے کہ اس وقت یہاں ٹریفک سگنلز کے خود کار نظام کا آغاز نہیں ہوا تھا۔
امریکن سینٹر در اصل ایک لائیبریری تھی جو پاکستان میں امریکن سفارتخانے نے یہاں قائم کی تھی اس لائیبریری میں تمام بڑے اخبارات ،انگلش میگزین، اہم شخصیات سمیت دنیا کے بہترین مصنفین کی ہر موضوع پر کتابیں دستیاب تھیں اس لیے جڑواں شہر راولپنڈی اسلام آباد کے صحافی، دانشور، تعلیم یافتہ فنکار اور دیگر شخصیات علم و ادب اور معلومات کے زخیرے سے پرسکوں ماحول میں استفادہ کرتیں تھیں عینی شاہدین کے مطابق بھٹو صاحب کے ہاتھ میں میگا فون تھااور وہ امریکی سینٹر کے سامنے تقریر کر رہے تھے وہ کہہ رہے تھےکہ قومی اتحاد میرے خلاف ایک بڑی سازش ہے جو ایک بڑی قوت کے ذریعے میرے خلاف تیار کی گئی ہے، اس سے قبل قومی اسمبلی میں کی جانے والی اور سڑکوں پر اپنی تقریر کےدوران کہیں اور کسی بھی موقع پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے امریکہ کا نام نہیں لیا اور اس کا حوالہ سفید ہاتھی کے نام سے دیا۔
انہوں نے کہا کہ سفید ہاتھی میر ےخون کا پیاسا ہو چکا ہے لیکن میں اس کا مقابلہ کروں گاایک موقع پرانہوں نےاپنی جیب ایک کاغذ نکال کر لہراتے ہوئے کہا کہ مجھے سفید ہاتھی کی جانب سے پیغام دیا گیا ہے کہ "پارٹی از اوور" لیکن میں سفید ہاتھی کو بتانا چاہتا ہوںکہ پارٹی از ناٹ اوور اس کے کچھ ماہ بعد میں ان کا اقتدار ختم ہو گیا اور پھر جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ اب محض اس ایک واقعہ یا وزیراعظم عمران خان کی الزامات میں مماثلت سے دونوں شخصیات کا موازنہ اس انداز اور الفاظ میں کرنا کہ دونوں کو ایک صف میں کھڑا کر دیا جائے کسی طور مناسب نہیں۔