• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ آف پاکستان میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ اور موجودہ صورتِ حال پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

سپریم کورٹ میں ملک کی آئینی سیاسی صورتِ حال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے 31 مارچ کے قومی اسمبلی کے اجلاس کے منٹس منگوا لیے۔

انہوں نے ہدایت کی کہ اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری اجلاس کے منٹس پیش کریں۔

یہ سویلین کُو ہے: رضا ربانی

دورانِ سماعت پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی روسٹرم پر آ گئے۔

رضا ربانی نے کہا کہ یہ سویلین کُو ہے، مبینہ کیبل کے ذریعے ایک بیانیہ بنایا گیا جو بدنیتی پر مبنی ہے، 25 مارچ کا سیشن تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے لیے مختص ہونے کے باوجود ملتوی کیا گیا، 28 مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر کارروائی ملتوی کر دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کیا وزیرِ اعظم جن کو اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں وہ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں؟ ووٹنگ کے لیے مختص دن پر اسپیکر کی رولنگ صریحاً بد دیانتی ہے۔

اس موقع پر خاتون درخواست گزار نے کہا کہ سابق امریکی سفیر اسد مجید کو بلایا جائے تو سب سامنے آ جائے گا، اسد مجید کے خط کی وجہ سے سارا مسئلہ شروع ہوا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہم انفرادی درخواستیں نہیں سن رہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ آج دلائل مکمل ہوں اور عدالت مختصر حکم نامہ جاری کر دے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر سارے فریقین دلائل مکمل کر لیں تو حکم جاری کریں گے۔

رضا ربانی نے کہا کہ میں عدالت کو تحریری دلائل دے رہا ہوں، 15 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا، الیکشن کمیشن کا آج آنے والا بیان بہت اہم ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ بد نیتی پر مبنی ہے، عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد سے 9 بار بدنیتی پر مبنی اقدامات کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد 8 مارچ سے زیرِ التواء تھی، ڈپٹی اسپیکر نے پارلیمنٹ کے سامنے دستاویزات رکھے بغیر رولنگ دے دی، قومی اسمبلی کے رولز 28 کے تحت ڈپٹی اسپیکر کے پاس اختیارات ہوں تب بھی وہ رولنگ نہیں دے سکتا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی ہے، تحریکِ عدم اعتماد ووٹنگ کے بغیر مسترد نہیں کی جا سکتی، اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو عدم اعتماد کی تحریک کا آرٹیکل 95 بے کار ہو جائے گا۔

میاں رضا ربانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدم اعتماد آنے کے بعد اسپیکر کے پاس ماسوائے ووٹنگ کے تحریک مسترد کرنے کا اختیار نہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آرٹیکل 69 کا تحفظ نہیں رکھتی، ڈپٹی اسپیکر کی آرٹیکل 5 کو بنیاد بنا کر رولنگ خلافِ آئین ہے، آئین کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد پر دی گئی، مدت میں ووٹنگ ہونا لازمی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ صدرِ مملکت کو آرٹیکل 63 اے پر ریفرنس دائر کرنے کی ضرورت نہیں تھی، صدر کو صورتِ حال دیکھتے ہوئے وزیرِ اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا چاہیے تھا، وزیرِ اعظم عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اسمبلی نہیں توڑ سکتے، تحریکِ عدم اعتماد کو آئین کے تحت مسترد نہیں کیا جا سکتا، تحریکِ عدم اعتماد صرف تب ختم ہو سکتی ہے جب جمع کرانے والے اسے واپس لے لیں۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ 25 مارچ کے بعد قومی اسمبلی کے جو بھی اجلاس ہوئے اپوزیشن اکثریت میں تھی، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 95 کو سبوتاژ کیا، عدالت نیشنل سیکیورٹی کونسل میٹنگ کے منٹس اور کیبل طلب کرنے کا حکم دے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت ایوان کے اندر کی کارروائی نہیں، اسپیکر کے اختیارات سے تجاوز کو دیکھے، عدالت دیکھے کہ کیا اسپیکر آرٹیکل 5 کا اطلاق کر سکتا ہے؟ وزیرِ اعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے، جوڈیشل کمیشن بنا کر اسمبلی کی کارروائی پر تحقیقات کرائی جائے، عدالت 3 اپریل کی کارروائی پر حکمِ امتناع جاری کرے۔

سینیٹر رضا ربانی نے جوڈیشل کمیشن بنانے اور 3 اپریل کی اسمبلی کارروائی پر اسٹے دینے کی استدعا کرتے ہوئے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔

ن لیگی وکیل کے دلائل

ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے استدعا کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر اسمبلیاں بحال کرے۔

مخدوم علی خان نے پارلیمنٹ کی کارروائی پڑھ کر سنا دی اور کہا کہ 28 مارچ کو پارلیمنٹ کے 161 ارکان تحریکِ عدم اعتماد کے حق میں کھڑے ہوئے، شہباز شریف کو تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت دی گئی، تحریکِ عدم اعتماد پر مزید کارروائی 31 مارچ تک ملتوی کر دی گئی، رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی، 31 مارچ کو قرار داد پر ڈسکشن نہیں کرائی گئی، 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی،تاہم فواد چوہدری نے پیپر پڑھ کر سنایا جس کے بعد تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے پاس اختیار تھا کہ عدم اعتماد کی قرار داد اس طرح مسترد کرے؟ وزیرِ اعظم اکثریت کھو دیں تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے کہ وہ وزیر ِاعظم رہیں، 3 اپریل کو جو ہوا پوری قوم نے دیکھا، سارا مقدمہ یہ ہے کہ کیا ڈپٹی اسپیکر ایسی رولنگ دے سکتے تھے؟ یہ مقدمہ عوامی اہمیت کا حامل ہے، وزیرِ اعظم پارلیمان میں اکثریت کھو بیٹھے تھے، تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ تک اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہیں ہو سکتا تھا۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ کارروائی سے دو اہم باتیں سامنے آتی ہیں، عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے سے متعلق 161 اراکین کے ووٹ آئے، ایوان نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کے حق پر اکثریتی ووٹ دیا، اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی اجازت دی، 3 اپریل کو وفاقی وزیر کو وقت دیا، پھر ڈپٹی اسپیکر نے تحریک مسترد کر دی۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 95 پارلیمانی جمہوریت کا دل ہے، اس سے انحراف پارلیمانی جمہوریت سے انحراف ہے، ایوان کی اکثریت کے اعتماد کے بغیر وزیرِ اعظم کا جاری رہنا خلافِ جمہوریت ہے، اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد اجلاس ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا، تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا طریقہ کار آرٹیکل 95 میں دیا گیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اسپیکر کے اختیارات سے متعلق آرٹیکل 69 میں قومی اسمبلی کے رولز آتے ہیں یا نہیں؟

مخدوم علی خان نے بتایا کہ آئین کہتا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد عددی برتری سے منظور ہو گی، اسپیکر عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں روک سکتا، بلوچستان اسمبلی 1999ء میں عدالتی حکم سے دوبارہ بحال ہوئی، آئینی تشریح کا معاملہ ہو تو آرٹیکل 69 آڑے نہیں آتا، ایک بار تحریکِ عدم اعتماد پیش ہو گئی تو اگلا مرحلہ اس پر ووٹنگ ہے، ووٹنگ نہ کرانا پروسیجرل بے ضابطگی نہیں بلکہ آئینی خلاف ورزی ہے، قومی اسمبلی کے رولز ایوان کا طریقہ کار چلانے سے متعلق ہیں، کوئی ایسا رول نہیں کہ آرٹیکل 95 میں دیے گئے طریقہ کار سے تجاوز کرے، واضح ہے کہ رولز آئین کی شقوں سے تجاوز کر کے نہیں بنائے گئے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 91 اور 95 میں بے ضابطگی پر اسپیکر کو تحفظ حاصل ہے؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر کو تحریکِ عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں، اسمبلی رولز آئین کے آرٹیکل 95 سے بالاتر نہیں ہو سکتے، ڈپٹی اسپیکر آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کے طریقہ کار پر آئین خاموش ہے، کیا ایک بار 20 فیصد اراکین کی حمایت سے تحریک پیش ہونے کے بعد اسپیکر کا اختیار نہیں رہتا؟ کیا اسپیکر تحریک پیش ہونے پر صرف ووٹنگ کرا سکتا ہے؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اگر یہ تصور کیا جائے کہ سوائے اسپیکر کے وزیرِ اعظم کے ساتھ کوئی نہیں تو آرٹیکل 95 کا اطلاق نہیں ہو گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت کے بعد بحث کا مرحلہ آتا ہے، تحریکِ عدم اعتماد کے آئینی یا غیر آئینی ہونے پر بحث ہوئی؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد پر کوئی بحث نہیں ہوئی، اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی ہے، عدالتی نظرِ ثانی ہو سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے سوال پروسیجر کا نہیں، ہمارے سامنے سوال ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی کیا آئینی حیثیت ہے؟ دوسرا سوال یہ آیا ہے کہ کیا اسپیکر کو رولنگ پر عدالتی نظرِ ثانی کا اختیار ہے؟

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آئین کے احکامات رولز سے بالادست ہوتے ہیں۔

ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کے آرٹیکل 95 کے خلاف ہے، رولنگ آئینی احکامات کے خلاف ہے، یہ ضابطے کی کارروائی کا معاملہ نہیں، وزیرِ اعظم برقرار رہیں گے یا نہیں فیصلہ ایوان ہی کر سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اصل سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ غیر آئینی رولنگ کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے، ایک شخص ایوان کی اکثریت کو سائیڈ لائن نہیں کر سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلے اس نکتے پر مطمئن کریں کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ صرف قواعد کی خلاف ورزی نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 69 اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کا اظہار ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے پہلے سے لکھی ہوئی رولنگ پڑھی، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ کے اختتام پر اسپیکر کا نام بھی پڑھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسپیکر کے خلاف بھی تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جا سکتی ہے، اسی لیے ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ ہے۔

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ہو تو وہ اجلاس کی صدارت نہیں کر سکتے۔

عدالت نے حکم دیا کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کو اختیارات تفویض کیے گئے تھے یا نہیں؟ اس سے متعلق نعیم بخاری متعلقہ دستاویزات کے ساتھ معاونت کریں گے۔

اس کے بعد چیف جسٹس نے 31 مارچ کے قومی اسمبلی کے اجلاس کے منٹس منگوا لیے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آئین یہ کہتا ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی ہر غیر قانونی حرکت پر فیصلہ دے سکتی ہے؟ سپریم کورٹ پارلیمانی کارروائی یا رولنگ غیر قانونی قرار دینا شروع کر دے تو مقدمات کے انبار لگ جائیں گے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ پڑھتے ہوئے اسپیکر کا نام بھی لے لیا تھا، اجازت چاہتا ہوں کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پاس کرنے کی ویڈیو جمع کراؤں۔

جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر اسپیکر سے تحریری اجازت لیے بغیر رولنگ پاس کر سکتا ہے؟ ڈپٹی اسپیکر کا اسپیکر کے اختیارات استعمال کرنا آئینی ہے یا غیر آئینی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری پریکٹس نہیں کہ ریاستی پالیسی یا فارن پالیسی کے معاملات میں مداخلت کریں۔

سپریم کورٹ نے مخدوم علی خان کو 10 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ اس کے بعد آپ دلائل کے لیے کتنا وقت لیں گے؟

سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین نے 5 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ کی رائے ہے کہ عدالت کو آئین و قانون کے معاملات دیکھنے ہیں، پالیسی معاملات میں نہیں جانا۔

اس موقع پر مخدوم علی خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ فاضل عدالت اس مقدمے میں بدنیتی کے حوالے سے قرار دے چکی ہے، قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اصول قانون ہے، اسپیکر کی رولنگ ذاتی مفاد کے لیے بدنیتی پر مبنی اقدامات میں آتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جج صاحبان کا روزہ ہے، ہمیں نماز کے لیے اٹھنا ہے، عدالتی کارروائی میں کچھ دیر کا وقفہ کر رہے ہیں، آج ہم درخواست گزار سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو سن لیں گے۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع

سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ میں 10 لائنوں میں بیان کر دیتا ہوں، پنجاب میں ممبرز کو معطل کر رہے ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی کارروائی کل قانون کے مطابق ہو گی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہہ دیا ہے کہ کل اجلاس ہونے دیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پنجاب میں صورتِ حال اسلام آبادکی صورتِ حال کی ہی ایکسٹینشن ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بتائیں کل وزیرِ اعلیٰ کی ووٹنگ ہوگی یا نہیں؟

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ کل پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہو گا۔

جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ پنجاب میں ووٹنگ کرا دیں، یہ سارا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب آئینی ضرورت ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے استعفیٰ دیا لیکن وہ نئے وزیرِ اعلیٰ کے انتخابات تک قائم مقام ہیں، پنجاب اسمبلی کے اطراف کے ہوٹلوں میں ممبران کو ٹھہرایا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کل اسمبلی اجلاس آئین کے مطابق ہو گا، کل اجلاس کے بعد معاملے کو دیکھ لیں گے۔

اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ 40 ممبران کو ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے ووٹ دینے سے روک دیا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ یہ غلط کہہ رہے ہیں۔

صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسپیکر کو اختیار نہیں کہ اپنی مرضی سے قرار داد مسترد کر دے، اس طرح تو اسپیکر کے خلاف کوئی قرار داد آئے تو وہ کہے گا یہ بیرونی سازش ہے۔

سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ مخدوم علی خان کے دلائل اپناؤں گا۔

صلاح الدین ایڈووکیٹ کے دلائل کے بعد پیپلز پارٹی کے وکیل شہباز کھوسہ نے دلائل دیے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل منصور عثمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ووٹ کی گنتی سیکریٹری کرتا ہے، اسپیکر نہیں، آرٹیکل 95 کے تحت اسپیکر کا کردار صرف مانیٹرنگ کا ہے، آرٹیکل 95 کے تحت اسپیکر کا محدود کردار ہے، پاکستان بار کونسل کی ہدایات کے مطابق انہیں واقعے پر شدید تشویش ہے۔

صلاح الدین احمد نے کہا کہ اسپیکر کسی صورت آئین کی تشریح کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔

بابر اعوان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کے روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ میرے دلائل میں کچھ وقت لگے گا، مناسب ہو گا کہ کل دلائل کا آغاز کروں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بیرسٹر علی ظفر! آپ کتنا وقت لیں گے؟

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ چند گھنٹوں میں دلائل مکمل کر لوں گا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ میری درخواست یہ ہے کہ ایک سائیڈ کو آج سنا گیا، کل دیگر وکلاء کو سن لیں، مجھے پرسوں دلائل کا موقع دیں، بطور اٹارنی جنرل یہ میرا آخری کیس ہو گا۔

بی این پی مینگل کے وکیل مصطفیٰ رمدے نے اپوزیشن جماعتوں کے دلائل اپنا لیے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ نگران حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے لیے بہت محترم ہے، اسپیکر کے اختیارات اور ان کو حاصل تحفظ پر بات نہیں کرنا چاہتے۔

سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ فریقین کے وکلاء بابر اعوان، بیرسٹر علی ظفر اور نعیم بخاری کل دلائل دیں۔

عدالتِ عظمیٰ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

سیاسی کارکن سپریم کورٹ میں داخل، نعرے بازی

دوسری جانب پولیس کی ناقص سیکیورٹی کے باعث سیاسی جماعتوں کے کارکن سپریم کورٹ کے اندر گھس آئے۔

اس موقع پر سپریم کورٹ کے احاطے میں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے کارکنان آمنے سامنے آگئے اور سیاسی کارکنان نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی۔


رپورٹرز کے عدالت میں داخلے پر پابندی

دورانِ سماعت رپورٹرز کے عدالتِ عظمیٰ میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

پولیس کے مطابق پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے ممبرز کے سوا کسی اور صحافی کو داخلے کی اجازت نہیں۔

صحافیوں کو پارکنگ کے مین گیٹ سے سپریم کورٹ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔

گزشتہ سماعت میں کیا ہوا؟

گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بحث کرائے بغیر ووٹنگ پر کیسے چلے گئے، عدالت ہوا میں فیصلہ نہیں کرے گی، عدالتی سولات کے جوابات دینا ہوں گے، ہم بھی جلد فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بحث کرانے کی اجازت نہ دینا طریقہ کار کی خامی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بادی النظرمیں ڈپٹی اسپیکر نے اسپیکر کا وہ اختیار استعمال کیا جو ڈپٹی اسپیکر کا اختیار نہیں تھا۔

قومی خبریں سے مزید