اسلام آباد (رپورٹ: رانا مسعود حسین، جنگ نیوز) عدالت عظمیٰ میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کیخلاف مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے جمع کروائی گئی .
تحریک عدم اعتماد کو بغیر ووٹنگ کے ہی مسترد کر دینے کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اسپیکر آئین کے آرٹیکل 5 کا حوالہ بھی دے تو بھی تحریک عدم اعتماد کومسترد نہیں کرسکتاہے ، جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا ہے اسکی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے.
ووٹنگ سے پہلے تحریک عدم اعتماد پر بحث ہوتی ہے،اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کیلئے کونسا دن دیا تھا ؟تحریک عدم اعتماد پر ڈائریکٹ ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے؟
ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں 175اراکین اسمبلی کو مطعون کیا گیا ہے، اسپیکر ایوان کی کارروائی کو کنٹرول کرتا ہے ،لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 69کا دائرہ کارکیا ہے؟
جب تحریک عدم اعتمادپر ووٹنگ کا فیصلہ ہوا ہے تویا تو یہ منظور ہوگی یا نامنظور؟ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کا احترام ہے لیکن فیصلہ سب کو سن کر دینگے.
ہوا میں فیصلہ نہیں کرسکتے، بیان بازی نہیں، دیکھیں گے ڈپٹی اسپیکر کو رولنگ کا اختیار ہے بھی کہ نہیں، دوران سماعت معزز جج صاحبان نے ریمارکس دیئے کہ تحریک عدم اعتماد پر اسمبلی میں بحث کرانا ضروری ہے، اسپیکر بحث کے بغیر ووٹنگ پر کیسے چلے گئے.
بظاہر اسپیکر عدم اعتماد تحریک مسترد نہیں کرسکتا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ضابطہ کی خلاف ورزی ہے یا آئین کی، اپوزیشن کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر صرف پریذائیڈنگ آفیسر تھے، ہمارا کیس اسپیکر کی پروسیجرل غلطی کا نہیں آئینی خلاف ورزی کا ہے.
انکا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دینے سے پہلے اپوزیشن کا موقف نہیں سنا گیا،تمام اپوزیشن کو غداری کا ملزم بنادیا گیا، عدالت نے فاروق نائیک کی معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کردی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پانچ ججز میں سے کسی پر اعتراض ہے تو بتائیں ہم چلے جائیں.
دوران سماعت فاضل عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ کیا ڈپٹی اسپیکر، قائم مقام اسپیکر کے طور پر اسپیکر قومی اسمبلی کے اختیار ات استعمال کرسکتا ہے ؟کیا اسپیکر قرارداد مسترد کرسکتا ہے، رولنگ درست تھی یا غلط۔
جسٹس منیب اختر نے کہا ہے کہ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 69کے تحت اسپیکر کی رولنگ کو تحفظ حاصل ہے.
لیکن سوال یہ ہے کہ اختیار تو اسپیکر کا ہے کیا اسپیکر کی جگہ ڈپٹی اسپیکر بھی اس اختیار کواستعمال کرسکتا ہے؟کیا ڈپٹی اسپیکر نے اختیارات سے تجاوز تو نہیں کیا ہے؟
میری رائے میں ڈپٹی اسپیکر نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، فاضل چیف جسٹس نے پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائک کو کہا عدالت کو بتائیں کہ یہ رولنگ کیسے غیر قانونی ہے؟
اسپیکر کس مرحلے پر تحریک عدم اعتماد کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتا ہے؟ اسپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل 5 کا سہارا لیاہے، کوئی عدالتی نظیر پیش کریں جس میں عدالت نے آرٹیکل 69 کی تشریح کی ہو کہ اسپیکر کس اسٹیج پر تحریک عدم اعتماد کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتا ہے؟
انہوں نے کہاکہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں پارلیمانی کمیٹی کا بھی ذکر ہے، اپوزیشن نے جان بوجھ کر کمیٹی میں شرکت نہیں کی ہے.
پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں سارا معاملہ رکھا گیا تھا، تمام اپوزیشن جماعتوں کے وکلا ء عدالت کو اس سوال کا جواب دیں،یہ بہت اہم معاملہ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ جب عدم اعتماد کی تحریک ایوان میں کارروائی کیلئے منظور ہوجاتی ہے تو کیا اب صرف اس پر رائے شماری ہی ہوتی ہے ؟اسپیکر کی رولنگ کا اختیار ختم ہوجاتا ہے؟
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے یاپارلیمانی طریقہ کار کی خلاف ورزی ہوئی ہے .
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائک نے دلائل دیتے ہوئے مختلف عدالتی نظائر پیش کیں اور موقف اختیار کیا کہ اسپیکر کا اقدام اگر بدنیتی پر مبنی اور غیر قانونی ہو تو عدالت اس کا جائزہ لے سکتی ہے،ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دیکر آرٹیکل 95کو غیر موثر کردیا ہے۔
انہوں نے عدالت سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف حکم امتناع جاری کرنے اور تحریک عدم اعتماد کی کارروائی مکمل کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی لیکن عدالت نے استدعا مسترد کردی اور چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ تمام فریقین کا موقف سن کر ہی اس کیس کا فیصلہ جاری کیا جائیگا۔