فرحی نعیم
میں کائنات کی وہ قیمتی متاع ہوں، جس کو اللہ نے بڑے پیار سے تخلیق کیا، جسے دنیا میں رحمت بناکر بھیجا گیا، جس کی حفاظت گھر کے طاقتور اور مختاروں کے سپرد کی۔ میں سر کے تاج کا وہ قیمتی موتی ہوں جس کی قدر جوہری ہی جانتا ہے۔ سیپ جو موتی کی حفاظت کرتا ہے۔ اسے قطرے سے گہر بناتا ہے۔ میں وہ رنگوں کی قوس ِقزح ہوں جواپنے گھر اپنے خاندان کی آبیاری کرتی ہے۔ جس کے ذمہ نسل نو کی ایسی تربیت ہے جو معاشرے کو ایک مفید کارآمد انسان بنادے۔
میں وہ چمکتے سورج کی کرن ہوں جو درد سہہ کر اپنے خاندان کے درد جذب کرتی ہوں۔ جو سماج کی برائیوں کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ میرے بچے، میرا گھر، میرا سرمایہ، لعل و گوہر سے بھی زیادہ۔ مجھے اپنے گھر، خاندان اور اس سے بھی بڑھ کر معاشرے میں سچائی کے رنگ بکھیرنے ہیں۔ منافقت و دھوکے کے کچے رنگوں سے بچانا ہے۔ اگرچہ اس کے لیے مجھے قربانی وسمجھوتے کی چادر ہی کیوں نا اوڑھنی پڑے۔ میں وہ خوشبو جس کی مہک اگرچہ دھیمی ہے لیکن رنگ پکا اور چوکھا۔ مجھے اس خوشبو سے اپنے گلستان، اپنے گھر کو مہکانا ہے۔
اپنے چمن کلیوں کو پاکیزگی کے پھولوں سے مہکانا ہے انہیں نیک اوصاف سے تروتازہ کرنا ہے۔ کون کہتا ہے میں کمزور ہوں؟ میں تو بہت بہادری ،جرات کا استعارہ ہوں، طاقت کا وہ سرچشمہ جوسوچ کا دھارا بدل دے۔ میں عورت ہوں، نگہبان ہوں، اپنے خاندان کی عزت، محبت، وقار کی علامت ہوں۔ میں مرد کی طاقت و کامیابی کی پشت بان، نسل نو کی معمار۔ میں خاندان کا اجالا، مجھے کیوں کمزوری، لاچاری کی علامت سمجھا جارہا ہے۔ میں تونسلوں کی تعمیر کی وہ مضبوط چٹان ہوں، جس کو توڑنا آساں نہیں۔ عورت آبادی کا نصف ہے۔
اگرچہ کہیں کہیں اس کو اب بھی پیر کی جوتی، بے وقوفی کی علامت بناکر پیش کیاجاتا ہے۔ لیکن حقیقت سے آنکھیں چرانے والے خود بزدل اور کم ہمت ہوتے ہیں آج کی عورت لیاقت، ذہانت، شجاعت، اطاعت، عبادت ہرجیت میں یکتا ہے۔ اس نے اپنی لیاقت کے جھنڈے تو گاڑے ہی ہیں وہ ہر میدان میں اپنی شجاعت وذہانت کے رنگ بھی بکھیر رہی ہے۔ اس کے آنچل میں پشت رنگی جو قیمتی نگینے ٹکے ہوئے ہیں ان میں سب سے قیمتی اور نایاب نگینہ اس کی حیا عزت وآبرو ہے۔
اللہ نے جتنے بھی قیمتی موتی اس کی اوڑھنی میں پروئے ان میں سب سے چمک دار یہی ہے، جس کا خاص خیال رکھنا صرف اور صرف اسی ہی کی ذمہ داری ہے۔ یہ انمول ہے۔ عورت ازل سے انمول ہے۔ اس کو اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے خاندان ومعاشرے کو فیض یاب کرنا ہے۔ جہالت کی رسموں کو، لاعلمی کے اندھیروں کو، سماج کی جھوٹی رواجوں کو، معاشرے کی اندھی ریتوں کو اپنی ذات کے رنگوں سے اجالا پھیلانا ہے۔
علم وعمل کا اجالا، فکر وافکار اللہ کی قربت اور اس کی رضا کی تائید کی روشنی، اسلام کا نور اس کی ہدایت کا نور سماج اسی وقت منور ہوگا جب سمت کا تعین کرنے والے بھی درست ہوں۔ اور بحیثیت عورت، ہم نے ہر رشتے میں اجالا پھیلانا ہے۔