عام طور پر آپ نے روز مرہ زندگی میں دھوکہ دینے والے بہت لوگ دیکھیں ہوں گے جو ہمارے دکھ کا سبب بنتے ہیں لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ زمینی فضاء جس کی وجہ سے اس سیارے پر جاندار موجود ہیں، وہ بھی ہمیں دھوکہ دیتی ہے؟جی ہاں!، جو چیز ہم آسمان میں دیکھتے ہیں، اصل میں اس جگہ پر کوئی شے موجود ہی نہیں ہوتی!! یہ کوئی سازشی نظریہ نہیں بلکہ اس بات کو سائنس بھی ثابت کرتی ہے، بہت سے لوگوں نے اپنے بچپن میں یہ تجربہ ضرور کیا ہوگا کہ اگر ایک گلاس میں پانی بھر کر اس میں سے کسی بھی روشن چیز کو دیکھا جائے تو اس چیز کی شکل بہت بگڑی ہوئی دکھائی دے گی،
اس کے علاوہ یہ چیز بھی دیکھی ہوگی کہ اگر آپ پانی سے بھرے گلاس میں ایک پینسل ڈالیں تو دیکھنے میں ایسا معلوم ہوگا جیسے پینسل آدھی ٹیڑھی ہوگئی ہو، لیکن جیسے ہی اس کو پانی سے باہر نکال کر دیکھا جاتا ہے تو یہ پہلے کی طرح سیدھی ہوتی ہے، تو ایسا کیا ہے کہ ایک ہی چیز کی 2 صورتیں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں؟
سائنسدانوں نے اس عمل کو ’’ریفریکشن ‘‘کا نام دیا، سائنسی اصطلاح میں ریفریکشن ایک ایسا عمل ہے، جس کے مطابق اگر روشنی ایک میڈیم سے دوسرے میڈیم میں داخل ہوگی تو وہ ایک سیدھے راستے پر نہیں رہے گی بلکہ ایک مخصوص زاویے پر مڑ جائے گی (لیکن ایک چیز میں روشنی کی شعاؤں کا زاویہ ایک ہی رہتا ہے) میڈیم کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے جس، میں گیس، مائع حالت اور ٹھوس چیزیں شامل ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ زمینی فضاء میں بہت سی گیسیں موجود ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ آبی بخارات بھی موجود ہیں، اس لیے جب روشنی زمین کی فضاء میں داخل ہوتی ہے تو اس میں بھی ریفریکشن کا عمل ہوتا ہے جسے ’’فضائی ریفریکشن‘‘ کہا جاتا ہے۔روشنی جیسے ہی فضاء میں داخل ہوتی ہے تو وہ تقریباً 0.833 ڈگری کے زاویہ پر مڑ جاتی ہے، مثلاً اگر آپ کو سورج افق سے 20.833 ڈگری اونچا دکھائی دے رہا ہو تو درحقیقت سورج 20.833 ڈگری پر نہیں بلکہ اُفق سے 20 ڈگری اونچائی پر ہوگا! یہ 0.833 ڈگری کا فرق فضاء کی وجہ سے پیدا ہوگا۔
اس لیے سائنسدان جب بھی فلکیاتی حسابات کرتے ہیں تو وہ اس فرق کو ضرور مد نظر رکھتے ہیں، کیوں کہ اس ذرا سے فرق کی وجہ سے بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں، مثلا ًجب زمین سے نوخلائی گاڑی کو سیارہ مشتری تک بھیجنا تھا تو سائنسدانوں نے اس کے جانے کا راستہ پہلے ہی کاغذ پر بنا لیا تھا، جس میں یہ فرق بھی زیر غور لایا گیا تھا، اگر یہ 0.833 ڈگری کا فرق نظر انداز کردیا جاتا تو خلائی گاڑی سیارہ مشتری سے ہٹ کر کسی دوسری طرف چلی جاتی۔
اسی طرح یہ بات بھی انتہائی حیرت انگیز ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت اگر ہمیں سورج عین اُفق پر (یعنی 0 ڈگری زاویہ) پر نظر آرہا ہو اور اگر ہم یہ نظارہ بنا فضاء کے دیکھیں تو سورج اُفق سے 0.833 ڈگری نیچے دکھائی دے گا، یعنی طلوع ہی نہیں ہوا ہوگا، یہی بات غروب آفتاب کے لیے بھی صحیح ہے کہ جب ہم سورج کو اُفق پر دیکھتے ہیں تو اصل میں وہ اُفق سے نیچے جاچکا ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ آج ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ زمین کے گھومنے کی رفتار اتنی ہے کہ آسمان میں سورج ہمیں 0.25 ڈگری کا زاویہ ایک منٹ میں طے کرتا دکھائی دیتا ہے، اس حساب سے سورج 0.833 ڈگری کا زاویہ تقریباً 3 سے 4 منٹ میں طے کرے گا۔
اب اگر ہم اس اوپر دی گئی مثال کو ہی لیں تو اس طرح ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ سورج حقیقتاً طلوع ہونے سے 4 منٹ پہلے ہی اُفق پر دکھائی دینے لگتا ہے اور اسی طرح شام کے وقت سورج حقیقتاً غروب ہونے کے 4 منٹ بعد بھی ہمیں اُفق پر دکھائی دے رہا ہوتا ہے، اسی طرح پورے دن کے دورانیے میں 8 منٹ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات چل رہی ہوگی کہ اگر فضاء ہمیں نظر کا دھوکہ دے کر دن کا دورانیہ 8 منٹ بڑھا سکتی ہے تو کیا ہم جو طلوع و غروب آفتاب کا وقت حسابات کے ذریعے نکالتے ہیں وہ اصل طلوع و غروب کا وقت ہوتا ہے یا فضاء کی موجودگی میں طلوع و غروب کا وقت ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ متعدد حسابات میں ہم اس 0.833 ڈگری زاویے کے فرق کو مد نظر رکھتے ہیں اور مختلف طلوع و غروب اور صبح صادق کے اوقات نکالتے ہیں لیکن اگر انسانوں نے خلاء میں کوئی مشن بھیجنا ہو تو اس خلائی گاڑی کے لیے راستے کا تعین کرتے ہوئے یہ فرق حسابات میں سے نکال دیا جاتا ہے، تاکہ ہمیں کسی بھی اجرام فلکی کی اصل جگہ معلوم ہوجائے۔
بہرحال، قدرت کے بہت سے کرشمے ایسے ہیں کہ انہیں دیکھنے کے بعد سائنسدان بھی کچھ وقت کے لیے سوچ میں پڑ جاتے ہیں، لیکن یہ بات قابل قدر ہے کہ ایسی کوئی چیز نہیں جس کے بارے میں انسان غور و فکر نہ کرے، کیوں کہ انسانی دماغ کائنات کی کھوج میں تا قیامت لگا رہے گا۔