آغا سید حامد علی شاہ موسوی
خواتین کی ذلت و پستی کے بدترین دور جس میں نومولود بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا اور عورتوں کو باعثِ ننگ و عار سمجھا جاتا تھا، ایسے میں پورا عرب معاشرہ ایک خاتون پر رشک کرتا نظر آتا ہے، کتنی پاکیزہ خاتون تھیں، جن کی عظمت کے سامنے مردوں کی برتری کی قائل قوم کا سر عقیدت سے جھکا نظر آتا ہے اور عورت کو حقیر و کمتر جاننے والے جاہلیت کا عہد اس بی بی کو طاہرہ ماننے پر مجبور نظر آتا ہے ، خواتین کے لیے سیاہ ترین دور میں آفتاب و مہتاب کی طرح جگمگاتا ہوا وہ پاک و پاکیزہ نام اسلام کی خاتون اول، محسنہ اسلام ،ملیکۃ العرب امّ المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کا ہے، جنہیں خالق کائنات نے عالمین کی عورتوں کی سرداری کامنصب دیا، جنہیں 25سال تنہا نبی اکرم ﷺکی رفاقت کا یگانہ شرف ملا ،خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی رسالت کی مصدقۂ اوّل ہونے کا اعزاز ملا ، اسی بی بی کی آغوش میں وہ خاتون جنت پروان چڑھیں ،جو قیامت تک نسل رسالت ؐ کی ضامن بنیں اور سب سے بڑھ کر اسی نے نبی کریم ﷺکی نصرت کرکے تاریخ انسانیت کے سب سے بڑے اور ابدی اسلامی انقلاب کو پروان چڑھایاجو تاابد الآباد قائم رہے گا۔
حضرت خدیجہ ؓ اپنی ہر فضیلت میں یگانہ و یکتا نظر آتی ہیں ۔آپ کی ذات اسلام میں خواتین کے کردار کے بارے میں اسلام دشمنوں کے پھیلائے تصورات کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔
محققین اس بات پر متفق ہیں کہ ابتدائے اسلام کو اگر افرادی قوت حضرت ابوطالب ؓنے فراہم کی تو مالی امداد حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے فراہم کی ان ہستیوں کی امداد صرف افرادی و مالی ہی نہیں سماجی، سفارتی، اخلاقی، دفاعی تبلیغی میدانوں میں بھی نمایاں ترین نظر آتی ہے ،اسی لئے جب اعلان نبوت کے دسویں سال اسلام کی خاطر شعب ابی طالب کی مشکل ترین آزمائش جھیلنے کے بعد دونوں ہستیاں دنیا سے رخصت ہوئیں تو ہادی بر حق نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے اس پورے سال کو ’’عام الحزن ‘‘قرار دیا۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے جدائی پر رسول کریم ﷺکا یہ حزن و ملا ل آپﷺ کی تمام حیات پر محیط نظر آتا ہے۔ حضرت خدیجہ ؓکی جدائی صرف نبی کریم ﷺکا ذاتی غم و حزن نہ تھا، بلکہ ان ہستیوں کی تائید سے محرومی کے بعد تبلیغ اسلام کے مرکز کا مکہ میں رہنا محال ہو گیا اور نبی کریم ﷺکو خانہ کعبہ اوراپنے جد ،ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کے آباد کئے شہر مکہ کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت پر مجبور ہو نا پڑا۔
ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ عرب کے عالی نسب اور دانشور خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ کا شجرۂ نسب چار پشتوں کے بعد رسول خداﷺ سے جا ملتا ہے ۔ معتبر مورخین کے نزدیک آپ عام الفیل سے تین سال قبل پیدا ہوئیں۔ کتب تاریخ میں آپ کی عمر کے حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں۔
جرأت و بہادری اور مظلوموں کی طرف داری حضرت خدیجہؓ نے میراث میں پائی تھی جس زمانے میں یمن کے بادشاہ ’تبع‘ نے حجر اسود کو اکھاڑ کر اپنے ساتھ یمن لے جانا چاہا توحضرت خدیجہؓ کے والد خویلد حجر اسود کے تحفظ کےلیے اٹھ کھڑے ہوئے اور بادشاہ یمن اپنے ارادے پر عمل نہ کر سکا۔ آپ کے جد اسد بن عبد العزی پیمان ’حلف الفضول ‘ کے نمایاں اراکین میں سے تھے ۔یہ پیمان عرب کی اعلیٰ کردار ہستیوں نے باندھا تھا کہ ہم مظلومین کی حمایت کریں گے اوربے آسرا لوگوں سے معاونت کریں گے۔
حضرت خدیجہؓ کی بے خوفی اور جرأت و بہادری کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہو گی کہ جب پورا عرب دین اسلام کی تبلیغ کے باعث نبی کریم ﷺکے خون کا پیاسا تھا۔ کم سن حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے ہمراہ خویلد ابن اسد کی شیردل بیٹی نبی کریم ﷺکے ساتھ کعبۃ اللہ کے سامنے علانیہ نماز ادا کرنے سے کبھی نہ ہچکچائیں۔
کسی بھی انقلاب اور تحریک کو کامیاب بنانے کےلیے مالی قوت کی اشد ضرورت ہوا کرتی ہے آغاز اسلام سے مدینہ کی پہلی مساجد کی تعمیر تک حضرت خدیجہ ؓ کا سرمایہ اور دولت اسلام کی ترویج کا بنیادی ذریعہ تھے۔ آپ اس قدر متمول تھیں کہ آپ کا کاروبار تجارت شام ،مصر، حبشہ تک پھیلا ہوا تھا۔ سیکڑوں اونٹ آپ کے کارواں میں شامل تھے۔ تاریخ کی کتب میں مذکور ہے کہ شام جانے والے قافلہ تجارت میں جتنا مال تجارت تمام رؤسائے عرب کا ہوتا تھا ،اتنا مال تنہاحضرت خدیجہ ؓکا ہوا کرتا تھا۔(طبقات ابن سعد۔سیرت ابن ہشام ) آپ نے یہ سارا مال نبی کریمﷺ کے قدموں پر نچھاور کردیا۔
اسلام قبول کرنےوالے غلاموں اور کنیزوں کی رہائی حضرت خدیجہؓ کے مال کے ذریعے ممکن ہوئی ، ہجرت حبشہ میں شامل تمام مردو زن کی آمد و رفت اور قیام حبشہ کے مصارف حضرت خدیجہؓ نے ادا کئے ، شعب ابی طالب میں پورے خاندان بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کی قید سخت کے دوران پورے قبیلے کی کفالت حضرت خدیجہؓ کے اسباب سے ہوئی ، ہجرت مدینہ کے تمام اخراجات ، عالم اسلام کی پہلی مسجد قبا کے لئے خریدی جانے والی زمین کی قیمت کی ادائیگی میں حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کا مال شامل تھا، ہجرت مدینہ کے بعد نادار اور غریب مسلمانوں کو کفار مکہ سے آزاد کروا کے مدینہ تک لانے میں مال آپ نے ادا کیا۔
مختصر یہ کہ حضرت خدیجہؓ کے اسلام اور انسانیت پر احسانات کا احاطہ کسی انسان، کسی تحریر یا کتاب میں کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ اسلام کی عمارت حضرت خدیجہ ؓ کی قربانی سے تعمیر ہوئی ، اس عمارت کی بنیادوں کو استحکام آپ کے مال و اسباب سے ملا ، آپ نے صرف پیغام اسلام کی آبیاری نہیں کی، بلکہ اس کی حفاظت کےلیے ایسی اولاد کی تربیت کی جواسلام کی پاسبان بن گئی۔
بعثت کے دسویں سال 10رمضان کو اسلام کی عظیم محسنہ دنیائے فانی سے کوچ کرگئیں ۔ نبی کریمﷺ کی رفیقہ حیات حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ اور نگہبان، حضرت ابو طالب کی رحلت پرحضرت علی ابن ابی طالب ؓکا مرثیہ پوری امت مسلمہ کی ترجمانی ہے۔ میری دونوں آنکھوں، تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ تم ان دونوں بزرگ ہستیوں کے وصال پر خوب آنسو بہاؤ، کیونکہ ان دونوں نے اسلام کے لئے بہت ہی جاں بازی اور غمگساری سے کام کیا ہے۔ ان دونوں کا کوئی مثل و ثانی نہیں۔
ایک تو اس سردار مکہ حضرت ابو طالب پر روؤ،جو رئیس مکہ ہیں اور رئیس مکہ حضرت عبدالمطلب کے لخت جگر اور نور نظر ہیں۔ دوسرے سیدۃ النساء حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ پر آنسو بہاؤ جنہوں نے سب سے پہلے نماز ادا فرمائی۔انہیں اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ فطرت عطا فرمائی ،آپ کو زمانہ جاہلیت میں بھی طاہرہ ،پاکیزہ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ آپ بہت بابرکت اور طیب طاہر تھیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے درجات و فضائل بیان فرمائے ہیں۔
حضرت خدیجہؓ ایثار و وفا کا مینارہ نور ہیں ، آپ طبقہ نسواں کا افتخار ہیں ، آپ محسنہ اسلام ہیں ، ناصرہ شریعت ہیں ، محسنہ انسانیت ہیں،آپ کے کردار و عمل کو اجاگر کرنا ہر مسلم فرد، ہر مسلم ریاست اورہر با ضمیر انسان کی ذمہ داری ہے کیونکہ حضرت خدیجہؓ کی سیرت و کردار اسلام کی عکاس ہے۔آپ کی سیرت اسلام کی صداقت کی مظہر ہے ۔آپ کا کردار نبی کریمﷺ سے محبت کا آئینہ دار ہے۔ آپ کی سیرت اسلام کی عظمت کی درخشاں داستان ہے، حضرت خدیجہؓ کی عظمت کردار اور ایثارو وفا پر صرف خواتین ہی نہیں، ہر کلمہ گو سدا نازاں رہے گا۔