• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مجھے نہیں لگ رہا کوئی ٹیم مستقبل میں پاکستان آنے سے انکار کرے گی

آسٹریلوی کرکٹ ٹیم پاکستان میں ڈیڑھ ماہ گذارنےاورتینوں فارمیٹ کے سات انٹر نیشنل میچ کھیلنے کے بعد واپس پہنچ چکی ہے ،آسٹریلوی کھلاڑی پاکستان کی میزبانی اور کرکٹ کی کوالٹی پر تعریف کررہے ہیں۔ پی سی بی چیئرمین رمیز راجا کا کہنا ہے کہ اس کامیاب دورے کے بعد اب مجھے نہیں لگ رہا کہ کوئی ٹیم مستقبل میں پاکستان آنے سے انکار کرے گی آسٹریلوی ٹیم کے دورہ کرنے کے بعد اب کسی بورڈ کے پاس اپنی ٹیم پاکستان نہ بھیجنے کا جواز نہیں رہا، مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہوگئیں اندازہ نہیں تھا کہ چیئرمین بنتے ہی نیوزی لینڈ کی ٹیم والا واقعہ ہوجائے گا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے فیصلے کے بعد معلوم نہ تھا کہ کیا ہوگا جبکہ آسٹریلیا کیخلاف سیریز کو کامیاب بنانے کیلئے کافی راتیں جاگ کر گزاریں ٹی ٹوئنٹی کے مزاج کی وجہ سے لوگ ٹیسٹ کرکٹ میں تحمل نہ دکھا سکے، مدتوں بعد ایک کوالٹی ٹیم کیخلاف ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ سیریز کھیلی۔

پوری دنیا کی نظریں آسٹریلیا کی سیریز پر تھیں ، آسٹریلیا سے جو صحافی آئے وہ بھی اچھے پیغامات لے کر گئے ہیں، اب کسی ملک کے پاس جواز نہیں کہ پاکستان کا دورہ نہیں کرے۔ رمیز راجا نے پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیموں کو 38 روزہ تاریخی دورے میں شاندار اور سنسنی خیز کرکٹ کھیلنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ 15 روز پر مشتمل3 ٹیسٹ میچز کی سیریز کے فاتح کا تعین سیریز کے آخری گھنٹے میں ہوا جب کہ محدود طرز کی کرکٹ میں دونوں ٹیموں کی جانب سے اعلیٰ معیار کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیا، اس دوران دونوں ٹیموں کی طرف سے ایک دوسرے کے لیے جس احترام کا مظاہرہ کیا گیا وہ مثالی اور کرکٹ کے کھیل کی بھرپور ترجمانی تھی۔ دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے میدان کے اندر اور باہر اپنے رویے کے ذریعے اسپرٹ آف کرکٹ اور کھیل کی اقدار کو پروان چڑھایا۔ آسٹریلیا کی ٹیم24سال بعد پاکستان کا دورہ کررہی تھی۔پنڈی سے شروع ہونے والی ٹیسٹ سیریز لاہور میں آسٹریلیا کی فتح کے ساتھ ختم ہوئی۔

ون ڈے سیریز پاکستان نے دو ایک سے جیتی پھر آسٹریلیا نے ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل تین وکٹ سے جیت کر دورہ ختم کیا۔رمیز راجا کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کے کھلاڑی اور آفیشلز اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کے بعد پاکستان سے حسین یادیں لیے اپنے گھر روانہ ہوئے ہیں، جہاں وہ پاکستان کے بڑے وکیل اور خیر سگالی کے سفیر بنیں گے۔ جس طرح دونوں ٹیموں نے اس سیریز کے ذریعے پاکستان کے اندر اور باہر شائقینِ کرکٹ کے دل جیتے ہیں، اس پر عالمی کرکٹ بھی ان کی شکرگزار ہے، بلاشبہ اس تاریخی سیریز کے انعقاد سے پاکستان اور عالمی کرکٹ کے رتبہ میں بھی اضافہ ہواہے۔ اس سیریز کے لیے اپنے بہترین دستیاب کھلاڑیوں کو پاکستان بھیجنے پر وہ تہہ دل سے کرکٹ آسٹریلیا کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں، اس کے ساتھ وہ پی سی بی کے عملے کے بھی مشکور ہیں کہ جنہوں نے پی ایس ایل 7 کے فوری بعد منعقدہ اس سیریز کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 

وہ پاکستان کرکٹ کے پرجوش فینز کے بھی شکر گزار ہیں ۔جنہوں نے تینوں وینیوز پر دونوں ٹیموں کی دل و جان سے حوصلہ افزائی کرکے سیریز کو بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا۔ رمیز راجا نے کہا کہ آسٹریلین کرکٹرز کو بھی احساس تھا کہ وہ پاکستان کیلئے اپنا حصہ ڈال سکیں، لوگوں نے آسٹریلیا کا دورہ خراب کرنے کی کوشش کی مگر آسٹریلیا نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا۔ امید ہے ویسٹ انڈیز کےخلاف سیریز عام سیریز کے طور پر کریں گے جبکہ چار ملکی کرکٹ کیلئے کافی باتیں ہورہی ہیں، لیگز کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے ملکوں کے درمیان کرکٹ کم ہونے لگی ہے۔ 

جب تک پچز ٹھیک نہیں ہوتی، بیٹنگ ٹھیک نہیں ہوگی، سیزن ختم ہوا ہے اب وکٹوں پر کام کریں گے، آسٹریلیا سے کیوریٹر بلارہے ہیں۔ آسٹریلیا کے ماہر کیوریٹر اس ماہ پاکستان آکر پاکستانی پچوں کو ٹھیک کرنے کے لئے پی سی بی کو جامع پلان دیں گے۔ پچوں پر کام کرنے والے ہیں۔ آسٹریلوی کیوریٹر اپنے ساتھ مٹی بھی لارہا ہے۔ رمیز راجا نے جب پی سی بی چیئرمین کا چارج لیا تو ان سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ نیوزی لینڈ نے پنڈی میں میچ سے چند گھنٹے پہلے سیکیورٹی کا بہانہ بناکر سیریز کھیلنے سے انکار کردیا۔چند دن بعد انگلینڈ نے بھی اپنی سیریز ملتوی کردی۔

رمیز راجا نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے فیصلوں کو جواز بناکر سخت گیر موقف اٹھایااس کافائدہ یہ ہوا کہ آسٹریلیا نے دورہ پاکستان کی تصدیق کی بلکہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے بھی دوبارہ پاکستان آنے کی حامی بھری۔ رمیز راجا نے کہا ہے کہ دو ملکوں کے دورہ پاکستان سے انکار کے بعد آسٹریلوی ٹیم کا دورہ خواب لگ رہا تھا ہمیں سیکیورٹی سمیت کئی محاظوں پر چیلنج کا سامنا تھا۔ پاک آسٹریلیا سیریز سے پی سی بی کو دو ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے اس لئے ہم نے کمرشل نکتے سے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔

پنڈی ٹیسٹ کے دوران پشاور میں ایک دھماکا بھی ہوگیا۔ہمارے پرستاروں کاکرکٹ ٹیم اور کرکٹ سسٹم پر اعتماد بحال ہورہا ہے۔2004میں پاک بھارت سیریز کے بعد یہ بہت بڑی سیریز ہوئی ہے۔بھارت سے بھی تماشائی پاکستان آئے تھے۔ اب کوئی وجہ نہیں ہے کہ دنیا کی دوسری ٹیمیں پاکستان کا دورہ نہ کریں۔ میں کرکٹ ٹیم کو داد دیتا ہوں جنہوں نے فائٹنگ اسپرٹ دکھائی ہے۔ ٹیم کی کارکردگی کے بعد اب بچے اپنے اہل خانہ کے ساتھ میچ دیکھنے آرہے ہیں۔ پاکستان کی ٹی شرٹ فروخت ہورہی ہیں ہماری سوونیئر شاپ پر دباو ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کا مزاج ٹی ٹوئینٹی والا ہے جبکہ ٹیسٹ کرکٹ دیکھنے کے لئے توجہ اور وقت درکار ہوتا ہے۔

جب ٹیسٹ میں نتائج نہیں آرہے تھے تو شائقین اکتانے لگ گئے کہ نتائج نہیں آرہے انہوں نے پچوں پر تنقید شروع کردی۔تماشائیوں کی غلطی نہیں ہے ہم مدتوں بعد بڑی ٹیم کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیل رہے تھے۔ آف دی فیلڈ ہم نے آسٹریلوی صحافیوں کو اپنا سفیر بناکر بھیجا۔ آسٹریلوی صحافیوں نے پاکستان میں سیکیورٹی نہیں لی اب وہ واپس جاکر پاکستان کی اچھی تصویر پیش کررہے ہیں۔ رمیز راجا نے کہا کہ آسٹریلیا کو پاکستان کو ہرانے کے لئے آخری گیند تک ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا۔ آسٹریلیا اور پاکستانی تماشائیوں کی جانب سے بڑی سپورٹ ملی۔

آسٹریلیا کے کھلاڑیوں نے ہمیں تسلیم کیا اور اچھا تاثر لے کر اپنے وطن واپس گئے ہیں۔ میں آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کی جانب سے دہمکی آمیز ای میل کے باوجود دورہ مکمل ہوا۔سیکیورٹی پر ہم کسی طرح سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔کراچی اور لاہور میں70,70 کمرے بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹیم کی کارکردگی میں مستقل مزاجی آرہی ہے۔پاکستان ٹیم کو ابھی فٹنس پر بہت کام کرنا ہے۔انفرا اسٹرکچر کو بہت بہتر کرنا ہے۔

پاکستان میں2022کا سال بڑا سال ہے اس لئے ہمیں کارکردگی میں مزید بہتری لانی ہے۔اس ٹیم میں مستقل مزاجی اور کمنٹمنٹ ہے،بھارت کو ورلڈ کپ میں ہرانے کے بعد ہماری کرکٹ بہت مقبولیت ملی ہے۔ میرے دور میں یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ رمیز راجا نے کہ میں نے جیسے ہی چارج سنبھالا تو ایک بھونچال آگیا۔ پہلے نیوزی لینڈ اور پھر انگلینڈ نے پاکستان کا دورہ ختم کردیا۔ہم نے یہ معاملہ آئی سی سی سطح پر اٹھایا۔ ہماری پبلک ریلشنگ،آئی سی سی، ٹیسٹ کھیلنے والے ملکوں اور میٖڈیا میں اچھے طریقے سے سامنے آئی اور ہم نے اپنا کیس مضبوط انداز میں پیش کیا۔ آسٹریلوی کرکٹرز خوشگوار یادوں کے ساتھ اب اپنے گھروں میں ہیں اور اپنے اہل خانہ اور دوستوں کو پاکستان کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ رمیز راجا نے درست کہا ہے کہ اب غیر ملکی ٹیموں کو پاکستان آنے سے روکنا مشکل ہے۔ اس سال ویسٹ انڈیز، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ نے بھی پاکستان آنا ہے۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید