• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے۔ 9اپریل کی جیسےجیسے رات بڑھتی گئی۔ غالبؔ نے اس قدرٹوک ٹوک کر یاد کرایا کہ پھر غالبؔ زبان پہ تھا۔ ’’یہ جانتا اگر تونہ گھر کو لٹاتا میں‘‘۔ کونسا گھر؟ وہی نہ جس کے بارے میں وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد کہا تھاکہ میں پرائم منسٹر ہائوس اور آفس استعمال نہیں کروں گا۔ یہاں میں ایک منفرد، بین الاقوامی یونیورسٹی بنائوں گا۔اس سلسلے میں دنیا بھر سے تعلیمی ماہرین بلائے گئے۔ خرچہ ہوا۔ کوئی بات نہیں کہ سامنے اتنے مسائل منہ کھولے کھڑے تھے کہ اکیلے انہیں حل کرنے کی سکت نہیں تھی۔ وہ خواب و خیال کی یونیورسٹی، بس نعروں کی نذر ہوگئی۔ وہ دفتر جس کو استعمال نہ کرنے کا اعلان کیا تھا، وہیں سے رات گئے، واپسی بھی۔ آپ نے سارا ن بہت میٹنگز کیں۔ اسپیکر کو باقاعدہ پٹی پڑھائی اور بہت اچھی پٹی پڑھائی کہ اس نے ووٹنگ کرانے کے حکم نامے کو درخور اعتنا نہ سمجھا مگر رات کے بارہ بجے جب عدالتیں کھل گئیں، چیف جسٹس آگئے تو مردِ آہن اسپیکر نے یہ کہہ کر عہدہ چھوڑا کہ میری وزیراعظم عمران خان سے 25سال سے زیادہ کی دوستی ہے۔ اس کو میں نہیں چھوڑ سکتا۔ اس دوران صحافیوں نے جرأت کرکے سوال کیا تو اپنی اصلیت پر اتر کر مغلظات پر اتر آئے اور پھر ووٹ ووٹ کے شور کے بیچ اپنی کرسی چھوڑی۔ اب اسمبلی کا ماحول ایک دم گرم ہوگیا۔ پورا پاکستان جاگ رہا تھا۔ دنیا بھر کا میڈیا رپورٹ کر رہا تھے کہ ایک چھناکے کی آواز آئی۔ پرائم منسٹر ہائوس چھوڑ کر جانے والے نے مجھے بہت کچھ یادکرا دیا۔ ایسے منظر تو گزشتہ 70برس میں بار بار دیکھے تھے۔ مگر سلامت رہیں وہ 174 اراکین، جو عمر میں مجھ جیسے تھے۔ استقامت کے ساتھ 12گھنٹے بیٹھے رہے۔ نماز ادا کرتے، روزہ کھولتے اور بار بار یک زبان کھڑے ہو کر ووٹنگ ووٹنگ کا مطالبہ کرتے رہے۔ تاریخ میں اعلیٰ عدالت کے فیصلے کے ساتھ ان ممبران کی استقامت وعزم کی داستان سنہری حرفوں میں لکھی جائے گی۔ پاکستان میں ہر سربراہ اور حکومت کے جانے کے بعد، ایک طرف مٹھائیاں بٹتی ہیں اور دوسری طرف نعرہ بازی ہوتی ہے۔ یہ قوم اتنی جذباتی ہے کہ حکمرانوں کے ہٹنے اور مارشل لا لگنے پر بھی مٹھائی بانٹ کر شرمندہ ہوتی ہے اور پھر اس کا بھگتان بھی اٹھا تی ہے۔ مشرف کا زمانہ بھی دس بارہ برس چلا۔ قوم کو اب بھی عقل نہیں آئی اور سب مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھنے لگے، انگریزی اور ماں کی بچپن کی ہدایتیں ہم آمیز ہوئیں۔ نوجوان خون نے بزرگوں کی باتوں کو دھیان سے سنا۔ ماں کے بعد، آصفہ کواپنا ہم دم بنایا اور سیاست کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا کہنے لگا کہ ہمارا دوسری پارٹیوں سے اختلاف ہےمگر ایک نکتے پر متفق ہوکر 10اپریل کو سیاست میں نیا رنگ بھرنے کے لیے، آصفہ کے ساتھ گھر جاکر وہ دونوں آخری بال سے کھیلتے رہے۔ اور عمران خان اپنا منہ ہاتھ میں لیے، بنی گالہ کے گھر میں دیواروں سے نہیں، ٹوئٹر کے واسطے سے دنیا بھر کو اپنا نقطہ نظر سناتے رہے۔ اب انہیں ریاست ِ مدینہ یاد نہیں آئی۔ پیرنی کاصدمہ اور دھچکا تو پہلے ہی زخموں کی طرح دل میں سنبھالا ہوا تھا۔ یہ وہ کرکٹر تھے جو میچ ہارنے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ جن کے اندر کینہ اتنا زیادہ تھا کہ ہر روز اور ہر لمحے چوروں، ڈاکوئوں اور لٹیروں کی بات سعودی عرب ہو کہ اقوام متحدہ کا فورم، ہرجگہ ٹیپ کا مصرعہ یہی ہوتا تھا۔ گرچہ ان کا موقف ٹھیک تھا۔ مگر نیب کے نام پر بیٹھے افسران بھی جانتے تھے کہ ہر جانے والے کے بعد، ایسے ہی لفافے کھلتے ہیں۔ وہ اگران کا ساتھ دیتے تو کیا ہمارے دفتری بابوئوں کے ہاتھوں پھنس نہ جاتے۔ مگر دونوں طرف چالاکیاں ہوتی رہیں۔ نئے سے نیا افلاطون روز شام کو الف لیلیٰ سناتا رہا۔ کچھ برسوں بعد، اپنا پیٹ سنبھالتا اورگھر چلا جاتا۔ علاوہ ازیں ہر وزیر، اپنے اپنے محکمے میں مرضی کی بھرتیاں کرتا رہا۔ ماحولیات کی وزیر اپنے بال سلیقے سے آگے کرکے دوپٹہ اوڑھتی رہی۔ گلیشیئر پگھلتے رہے۔ دنیا بھر میں گرمی بڑھتی رہی اور ہمارے سربراہ بار بار کہتے رہے ’’گھبرانا نہیں‘‘۔

حکمران امریکہ کا نام لے لے کر قوم کو ڈرا کر، روس کا ریڈ اسکوائر دیکھنے کے بعد، اعلامیہ کے بغیر ہی وطن واپس لوٹ کر جدید بھٹو بننے کی کوشش میں، نئے جال میں کسی کو نہ پھنسا سکے۔ بنی گالہ کا گھر جو جمائما بی بی کے پیسوں سے بنا تھا، اس گھر کو مصرکے بادشاہ فاروق اورشہنشاہ ایران کی طرح، خواب گاہ کی جانب لوٹ گئے۔ اب شہرزاد کی طرح ہر رات نئی کہانی سنائیں گے۔ اس میں یہ شامل نہیں ہوگا کہ فی الوقت ملک میں غربت کتنی بڑھی ہے۔ ڈالر کیسے سر پر ناچ رہا ہے اور اسٹیٹ بینک نے کیا سوچ کے انٹرسٹ ریٹ بڑھایا ہے؟ اب داستان کا نیا باب شروع ہوتا ہے۔ شہباز شریف کو جو لوگ جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ یہ بہت محنتی، بہت غصے والے اور پاکستان میں جو لوگ Doersہیں، ان میں نمایاں شخصیت ہیں۔ انہیں کرتب دکھانے بہت اچھے آتے ہیں۔ مثلاً پنجاب میں دوروپے کی روٹی، کچھ عرصہ خوب چلی۔ کمپیوٹر نوجوانوں میں خوب تقسیم کئےگئے۔ ڈیفنس سے لے کر ٹھوکر نیاز بیگ تک بہت اچھی سڑکیں بنیں۔ اس کے باوجود نہ اسکولوں اور نہ پڑھنے والے بچوں کی تعداد بڑھی۔ لوکل باڈیز کو جیسے مشرف کے دور میں اہمیت دی گئی تھی اس کو بھی پس ِ پشت ڈال دیا گیا۔ وہ ماضی تھا اور اب حال بتاتا ہے کہ ٹی سی ایس والوں نے بھی موبائل پر دستخط لینے اور کاغذ کے بغیر طریقوں کو فروغ دینا شروع کیا ہے۔ پھر ہمارے دفتروں کی فائلوں اور کلرکوں کی لمبی لام ڈوری سے نجات کیسے حاصل ہوگی۔ عمران خان بھی جاتے ہوئے ایک فائل ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔

ہر چند یہ حکمرانی صرف چھ ماہ کے لیے ہے۔ اس دوران نیا بجٹ، دنیا بھر سے تعلقات استوار کیسے ہوں گے؟ کب تک ہم اپنے ہر بارڈر کو افغانستان سامان لے جانے اور پاکستان اور ہندوستان کےدرمیان لڑائی لڑائی کھیلتے رہیں گے؟ ہمارے کسی بھی ہمسائےسے اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ ہم دالیں تک غیر ممالک سے مہنگے داموں خریدتے رہے ہیں۔ ابھی جون میں نیا بجٹ کس برتے پر بنے گا کہ بجلی والے تو کہہ رہے ہیں کہ بجلی کے ریٹ 27روپےبڑھائے جائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین