معزز قارئین ، یہ بات تو طے ہے کہ ملک کی ترقی کے لیے اعلیٰ تعلیم اورسائنس و ٹیکنالوجی انتہائی اہم ہیں ،اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے عمدہ فیکلٹی ممبران و جدید تعلیمی و تحقیقی سہولتوں سے لیس ہوں۔ افسوس کہ پاکستان میں موجود بیشتر جامعات ان سہولتوں سے مکمل محروم ہیں البتہ جامعہ کراچی کی حدود میں ایک ایسا طلسماتی ادارہ موجود ہے جو ترقی پذیر دنیا میں بے مثال کارکردگی کامظاہرہ کررہا ہے۔ یہ بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی اور حیاتیاتی سائنسز(آئی سی سی بی ایس) ہے۔ اس ادارے کی بنیاد پروفیسر سلیم الزماں صدیقی (مرحوم) نے 1967میں جامعہ کراچی میں شعبہ کیمیاکے ایک حصے میں رکھی تھی۔ میں نو سال کی پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تربیت کے بعد کیمبرج (لندن) سے واپس آیا۔ پروفیسر صدیقی کی عمر اس وقت تقریباً 75 برس تھی، انہوں نے مجھے شریک ڈائریکٹر مقرر کیا اور ایک اعلیٰ درجے کے عمدہ کارکردگی کے حامل ادارے کے قیام کی ذمہ داری سونپی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے کسی کرشمے سے کم نہیں تھا۔ حکومت کے پاس اس وقت بہت کم فنڈز دستیاب تھے، لہٰذا ہم نے بین الاقوامی سطح کی بڑی فنڈنگ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ 20سال کے دوران جرمنی (48 لاکھ ڈی ایم)، جاپان (23لاکھ جاپانی ین)، امریکہ (80لاکھ ڈالر) اور برطانیہ (10لاکھ پاؤنڈ) سے بھاری گرانٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس کے علاوہ دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سےبھی بڑی تعداد میں گرانٹس حاصل کی گئیں۔ ان فنڈز اور حکومت کی معاونت سے اس مرکز نے تیزی سےترقی کی، جہاں امریکہ یا یورپ کی بیشتر جامعات میں دستیاب تحقیقی سہولتوں سے بھی بہتر سہولتیں موجود ہیں۔ اس عمدہ تحقیقی ماحول نے اعلیٰ ترین معیار کے تحقیقی کام کو آگے بڑھانے میں معاونت فراہم کی اور یہ ادارہ پوری دنیا میں عمدہ کارکردگی کی حقیقی مثال کے طور پرمشہور ہوگیا۔
گزشتہ برسوں میں بہت سے نوبل انعام یافتگان نے اس ادارے کا دورہ کیا ہےجو سائنسی تحقیق کا معیار دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ آئی سی سی بی ایس میں تحقیقی ماحول کی تعمیر میں میری خدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے جاپانی نوبل انعام یافتہ پروفیسر ریوجی نیوری نے لکھا کہ’’میں نے دو دہائیوں کے دوران پروفیسرعطا رحمٰن کی سرگرمیوں کا انتہائی مودبانہ انداز سے جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے جوہری مقناطیسی گونج اسپیکٹرواسکوپی کے شعبے میں شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ ان کا کارنامہ صرف ان کے اپنے اصل سائنسی کام تک محدود نہیں ہے۔ ‘‘میں نے 2000 میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے اس ادارے کی قیادت چھوڑ دی تھی جب مجھے وفاقی وزیر سائنس اور بعد میں چیئرمین ایچ ای سی مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اس کی قیادت پاکستان کے ایک اعلیٰ سائنسدان پروفیسر اقبال چوہدری کر رہے ہیں۔
ایک زبردست بین الاقوامی مقابلے کے بعد اس ادارے کو عالمی اکیڈمی برائے سائنس کے عمدہ کارکردگی کے مرکز کے طور پر منتخب کیا گیا۔ ٹی ڈبلیو اے ایس اٹلی کے شہر ٹرایسٹ میں ہمارے مشہور نوبل انعام یافتہ سائنس دان پروفیسر عبدالسلام نے قائم کیا تھا اور ٹی ڈبلیو اے ایس گزشتہ چار دہائیوں سے دنیا بھر سے طلبا کو پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تربیت کے لیے آئی سی سی بی ایس بھیج رہا ہے۔ اس کے علاوہ آئی سی سی بی ایس کو ڈبلیو ایچ اونے ڈبلیو ایچ او تعاون مرکز برائے پیسٹیسائیڈ تجزیے کے طور پر بھی منتخب کیا تھا۔ انتہائی مسابقتی انتخاب کے عمل کے بعد اسے کیمیائی سائنسز میں او آئی سی عمدہ کارکردگی کے مرکز برائے کیمیائی سائنسزکے طور پر منتخب کیا گیا۔ اسے یونیسکو عمدہ کارکردگی کے مرکزکے طور پر بھی منتخب کیا گیا ہے اور یونیسکوکی طرف سے ہر سال بہت سے غیر ملکی طلبا کو تربیت کے لیے اس ادارے میں بھیجا جاتا ہے۔ اس کے فیکلٹی ممبران نے پاکستان کے کسی بھی دوسرے تعلیمی مرکز کے مقابلے میں کہیں زیادہ سول ایوارڈز اور بین الاقوامی انعامات سمیت بہت سے بین الاقوامی اعزازات حاصل کئے ہیں۔ ان میںایک نشان امتیاز،پانچ ہلال امتیاز،چودہ ستارہ امتیاز،چودہ تمغہ امتیاز اور برطانیہ کی جامعہ کیمبرج سمیت علیٰ غیر ملکی جامعات سے ڈاکٹریٹ کی بہت سی اعزازی ڈگریاں شامل ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کے دو پروفیسر (پروفیسر سلیم الزماں صدیقی اور میں) معزز رائل سوسائٹی (لندن) کے فیلوز منتخب ہوئے ہیں۔گزشتہ 360سال میں مسلم دنیا سے صرف 5 سائنسدانوں نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے، پروفیسر اقبال چوہدرری نے حال ہی میں اسلامی جمہوریہ ایران سے انعام جیتا ہے۔ مختلف جرمن جامعات اپنے طلبا کو پی ایچ ڈی کی سطح اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تربیت کے لیے پاکستان بھیجتی رہی ہیں اورسو سے زائد جرمن طلبا کو اس چمکتے ہوئےتعلیم کے جزیرے میں تربیت دی گئی ہے جس کا بہت سے صدور، اوروزرائے اعظم نے دورہ کیا ہے۔
اس کی کامیابی کی وجوہات بہت سی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ یہ ایک پرعزم اورشاندار قیادت میں کام کر رہا ہے، اعلیٰ معیار کی فیکلٹی ہے جسے کارکردگی کے سخت اشاریوں کے ساتھ اپنا کام کرنا ہوتاہے، بہترین تکنیکی عملہ ہے جو جدید آلات پر نہ صرف ماہرانہ طریقے سے کام کر سکتا ہے بلکہ حساس آلات کے آپریشنز کو بحال بھی رکھ سکتا ہے۔ ساتھ ہی ادارے کا مستقل بنیادوں پر غیر ملکی سائنسدان و ماہرین کے ذریعے بین الاقوامی تجزیہ شامل ہے۔ غرض بہتر سے بہترین کے حصول میں دراصل جہدِمسلسل ہی اس ادارے کی کامیابی اور ترقی کا راز ہے۔