• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریم فاطمہ

کمرازور دار آوازوں سے گونج رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ کسی بات پر زور وشور سے بحث ہورہی ہے۔ برابر کے کمرے میں سوئی ہوئی دادی اماں کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے آوازوں پر کان لگائے تو اسامہ کی آواز، ’’ہم تو بڑا ہال بک کروائیں گے، اس سے مہمانوں پر رعب پڑے گا۔‘‘۔ سعد بولا ، ’’ارے بس کرو، ہال ڈھونڈ نا تو ابو کا کام ہے۔ یہ بتائو افطار پارٹی کا مینو کیا ہوگا؟‘‘ تمہیں توہر وقت کھانے کی فکر رہتی ہے۔ افطار میں کیا ہوگا!‘‘ عائشہ نے نقل اتاری۔

’’پارٹی؟‘‘ دادی جان سے سوچا ’’ انہوں نے پھر سننے کی کوشش کی ۔ اس بار حمزہ کی آواز آئی ’’میں تو مہنگا جوڑا خریدوں گا، پھر دیکھنا ! میرے دوست کیسے مجھے دیکھیں گے۔‘‘ حمزہ خیالوں میں گم ہوگیا۔ ’’بس ،سعد ہنستے ہوئے بولا۔ ’’ میں تو تھری پیس سوٹ لوں گا جو میں نے پرسوں بازار میں دیکھا تھا۔‘‘ ’’اوہ! تھری پیس سوٹ، افطار پارٹی ہے، کوئی برتھ ڈے پارٹی یا ولیمہ کی دعوت نہیں، ‘‘ ’ عائشہ نے مذاق اُڑتے ہوئے کہا۔ 

اچھا تو افطار پارٹی کا ارادہ ہے، وہ بھی ہال میں تاکہ خوب دھاک جمے ’’دادی اماں نے سوچا ۔ انہوں نے چپل پہنی اور آرام سے چلتی ہوئی اس کمرے میں داخل ہوئیں، جہاں یہ چاروں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ کمرے میں داخل ہو کر انہوں نے ایک نظر چاروں پر ڈالی اور کہا ’’ہوں… خبردارٖ! کوئی افطار پارٹی نہیں ہوگی۔ سمجھے؟ ’’چاروں ہونقوں کی طرح دادی کو دیکھنے لگے۔ حمزہ بولا۔ ’’لیکن کیوں، دادی جان؟‘‘ بس میں نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا ’’اتنا کہہ کر دادی باہر چلی گئیں۔ وہ چاروں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ عائشہ بولی۔ ’’افطار کے بعد میں آج ہی ابو اور دادا سے بات کروں گی۔ افطار پارٹی ضرور ہوگی،کچھ ہی روزے تو رہ گئے ہیں۔‘‘ سب نے اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔

افطار کے بعد چائے کے دوران انہوں نے سب کچھ ابو اور دادا کے روبرو بیان کیا۔ دادی جان صحن میں بچھے تخت پر بیٹھی چھالیہ کاٹ رہی تھیں۔ ’’ہوں‘‘ دادا جان نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا ’’اچھا خیال ہے۔ افطار پارٹی ضرور ہونی چاہئے اور پھر بچوں کی خوشی بھی اسی میں ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔‘‘ ’’لیکن…‘‘ اسامہ بولا ’’دادی جان کو اعتراض ہے۔ 

وہ اجازت نہیں دے رہیں۔ ’’ہائیں… وہ کیوں؟‘‘ دادا جان حیرت سے بولے ’’وہ تو ہر معاملے میں ہمیشہ بچوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔‘‘ آپ ان سے بات کر یں ناں۔‘‘ حمزہ نے منت کرتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا چلو بلائو انہیں‘‘ دادا جان نے کہا۔ چاروں فوراً دوڑے دوڑے گئے اور دادی جان کو بلا لائے۔ ’’بھئی بچے افطار پارٹی کرنا چاہ رہے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ سنا ہے آپ نے انہیں منع کردیا ہے‘‘۔ دادا جان نے کہا۔

’’ افطار کروانا تو نیکی کا کام ہے۔‘‘ ابو نے بھی مداخلت کی۔ ’’ہم اتنے لوگوں کو روزہ افطار کروائیں گے تو کتنا ثواب ملے گا۔‘‘ سعد ڈرتے ڈرتے بولا۔ دادی جان مسکراتی ہوئی صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگیں، ’’ اللہ ثواب بھی نیت دیکھ کر دیتا ہے‘‘۔ عائشہ فوراً بولی تو کیا ہوگیا ہماری نیتوں کو؟ افطار کروائیں گے لوگوں کو یہی نیت ہے ہماری۔‘‘

’’خوب جانتی ہوں میں کیا نیت ہے؟ ’’دادی جان سر ہلا کر بولیں ’’یہ کیا مہنگا اور خوبصورت ہال ہوگا، ڈھیر سارا کھانا ہوگا، مہنگے ترین کپڑے پہنیں گے اور خوب دھاک بٹھائیں گے دوستوں اور رشتہ داروں پر یہ بھی نہ سوچا کہ غریب دوستوں اور رشتہ داروں کے دل پر کیا بیتے گی۔ ثواب ملتا ہے کسی کو اس نیت کے ساتھ افطار کروانے سے کہ اللہ ہم سے خوش ہوگا اس نیت سے نہیں کہ ہمارا رعب پڑے گا کہ دیکھو ہم کس قدر امیر ہیں۔ ’’دادی جان کہتی چلی گئیں۔ 

دادا جان نے حیرت سے چاروں بچوں کی طرف دیکھا ’’کیا واقعی؟ تم لوگوں کا یہی ارادہ تھا؟‘ چاروں کے سر ندامت سے جھک گئے۔ دادی جان نے پھر کہنا شروع کیا ’’نیت یہ ہو کہ اللہ ہم سے خوش ہوگا اور غریبوں کو بطور خاص بلایا جائے اور دکھاوے کا کوئی کام ہرگز نہ ہو۔ سادگی سے دعوت ہو تو میں فوراً انتظام کروائوں گی۔‘‘ 

دادی جان اتنا کہہ کر خاموش ہوگئیں۔ کچھ دیر تک کمرے میں خاموشی چھائی رہی پھر اسامہ بولا ’’ہمیں معاف کردیں دادی جان ، واقعی ہم لوگوں نے بہت غلط سوچا تھا۔‘‘ اب دادی جان نے اٹھ کر چاروں کے سروں پر ہاتھ پھیرا۔ دادا جان بولے ۔ ’’بس بھئی پھر طے ہوا۔ افطار کی دعوت ضرور ہوگی لیکن …‘‘ چاروں نے ایک ساتھ کہا ۔ ’’سادگی سے‘‘ ’’شاباش !‘‘ دادا جان نے کہا۔ ابو کہنے لگے۔ ’’بس پھر رمضان کی چھبیس تاریخ پکی۔‘‘ یہ سننا تھا کہ اسامہ حمزہ ، سعد اور عائشہ خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔