• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند سال قبل خلا میں بھیجی گئی دوربین’’ ہبل‘‘نےایک ستارہ دریافت کیا ہے، یہ ہبل دوربین کونظر آنے والا اب تک کا سب سے دور واقع ستارہ ہے۔ ماہرین فلکیات نے اس کو ’’ائیر نڈل ‘‘ کا نام دیا ہے۔ ائیر نڈل کے معنی ‘‘طلوع ہوتی روشنی ‘‘ کے ہیں۔ اس ستارے کی روشنی کوہم تک پہنچنے میں 12.9 ارب سال لگے ہیں۔ عام طور پر دور بینیں اتنے فاصلے پرصرف لاکھوں ستاروں پر مشتمل کہکشائوں کی نشان دہی کرسکتی ہیں ،مگر ہبل ،اس ستارے کی الگ سے تصویر لینے کے لیے ایک ایسے قدرتی عمل کو کام میں لائی جو زوم سے ملتا جلتا ہے۔

یہ عمل گریو یٹیشنل لیسنگ کہلاتا ہے ۔ ماہرین کے مطابق اگر نظر کی لائن میں بہت سی کہکشائوں کا جمگھٹ ہوتو مادّے کی اس عظیم جسامت میں موجود اجرام سے نکلنے والی روشنی کو گریویٹیشنل پُل موڑ کر اُجاگر کردیتا ہے۔ویسے تو ایسا دوسری کہکشائوں کے ساتھ ہوتا ہے ،مگراس بارائیر نڈل لینس ایفیکٹ یعنی عد سے کے اثر کے سب سے کار آمد حصے میں آگیا تھا ۔امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم کا کہنا ہے کسی چیز کی اتنی بلند میگنیفیکیشن کا نظر آنا بہت بڑی کام یابی ہے ۔اگر ٹھیک زاویہ نظر مل جائے تو باآسانی میگنیفیکیشن ہزاروں گنا تک بڑھائی جا سکتی ہے، جیسا کہ اس معاملے میں ہوا ۔

اس سے پہلے سب سے زیادہ دوری کا ریکارڈ بنانے والے ستارے کا نام آئکارس تھا۔ اس کی تصویر بھی ہبل نے کھینچی تھی۔ اس سے نکلنے والی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں 9 ارب سال لگے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے بِگ بینگ کے محض 900 ملین برس بعد دیکھا گیا ہے۔ یعنی جب کائنات اپنی موجودہ عمر کے حساب سے 6 فی صدپرانی تھی۔ ہبل سے لی گئی تصویر میں ایک نقطے سے زیادہ کچھ نظر نہیں آ رہا۔ یہ نقطہ بھی ہلالی شکل کی ایک روشنی ہے جو لینس یا عدسے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور اسے ’’سن رائز آرک‘‘ ( طلوع آفتاب کی قوس) کا نام دیا گیا ہے۔

ماہرین فلکیات کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس ستارے کے بارے ابھی تو بہت کچھ جاننا باقی ہے۔مثلاً ائیرنڈل کی جسامت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا گیا۔ یہ ہمارے سورج سے کم سے کم 50 گنا زیادہ بڑا ہے ،مگر اس کا انحصار میگنیفیکیشن کی درست مقدار کے تعین پر ہی ہو سکتا ہے۔ شاید اس کی جسامت 50 گنا سے زیادہ ہو۔ لیکن پھر بھی اس کا شمار اب تک نظر آنے والے بڑے ستاروں میں ہی ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہبل نے جس چیز کو دیکھا ہے وہ جوڑے کی شکل میں ہو مطلب دو ستارے قریب قریب مدار میں گردش کر رہے ہوں۔بعض ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ ائیرنڈل یکتا ستارے کی بجائے انتہائی قریب پائے جانے والے ستاروں کا جھرمٹ بھی تو ہو سکتا ہے، مگر ویلچ کا کہنا ہے کہ اُس عمل کی بھی ایک حد ہے۔ 

انہیں یقین ہے کہ ہبل نے ایک یا زیادہ سے زیادہ دو ستاروں کی تصویر حاصل کی ہے۔قیاس کا ایک حیران کن پہلو اس نئے ستارے کی شکل سے متعلق ہے۔نظریے کے اعتبار سے کائنات میں چمکنے والے ابتدائی ستاروں میں صرف ہائیڈروجن اور ہیلیم گیسیں تھیں۔ ماہرین فلکیات انھیں پاپولیشن III ستارے کہتے ہیں۔ جب ان ستاروں اور ان کے بعد پیدا ہونے والے ستاروں میں بھاری دھاتوں کی ملاوٹ ہوئی تو اس کے بعد ہی وہ فضا وجود میں آئی، جس میں آج ہم زندگی گزار رہے ہیں، مگر سورج کی 50 گنا کمیت والا ستارہ بہت تھوڑے عرصے تک ہی جل سکتا ہے، شاید زیادہ سے زیادہ 10 لاکھ سال تک، جس کے بعد اس کا ایندھن ختم ہو جائے گا اور وہ مر جائے گا۔لیکن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ائیر نڈل کی چمک کو ہزاروں کے عنصر سے بڑھایا جاتاہے ۔یہ ایک ایسی صورتحال ہےجو دوسرے قدیم ستاروں کے ساتھ نہیں دہرائی جاسکتی ہے۔ڈرہم یونیورسٹی کے ماہر فلکیات گیلوم مہلر کا کہنا ہے کہ شاید یہ سب سے قدیم ستارہ ہو جسے ہم بگ بینگ کے بعد دیکھیں گے۔

اسی لیے بگ بینگ کے بعد ایک ابتدائی ستارے کے 900 ملین (90 کروڑ) سال تک زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ایسے الگ تھگ ماحول میں پایا جائے جہاں گیس میں کسی طرح کی ملاوٹ نہ ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ناممکن تو نہیں ،مگر مشکل ضرور ہے ۔ان کو توقع ہے کہ نئے ستارے ائیر نڈل میں بھی کچھ بھاری دھاتیں شامل ہوئی ہوں گی،مگر ہمارے ماحول میں جتنی موجود ہیں ان سے تو کم ہوں گی۔

دوسری جانب یہ امکان بھی ہے کہ یہ پاپولیشن III ستارہ ہو ۔مزید تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے ستارے کہکشائوں کے بیرونی حصوں میں پائے جا سکتے ہیں۔ ہبل کو 1990 ءمیں لانچ کیا گیا تھا اور اگرچہ اب اس کی جگہ نئی دوربین لینے والی ہے، مگر ہبل حیران کن دریافتیں منظر عام پر لانےمیں مصروف ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کی پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر جینیفر وائزمین کا کہنا ہے کہ ’’ہبل خلائی دوربین بالکل ٹھیک کام کر رہی ہے، یہ بہت طاقتور دوربین ہے‘‘۔ سائنسی اعتبار سے ہمیشہ کی طرح کار آمد ہے اور ہماری نظریں اب اس سائنسی تحقیق پر ہے جو ہبل آنے والی دنوں میں کرے گی۔ اس خلائی دوربین کے ذریعے ہم کائنات کے بارے میں وہ جان سکیں گے ،جس کے بارے میںہمیں پہلے کبھی علم نہیں تھا۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید