• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر سیّد عطا ء اللہ شاہ بخاری

’’غزوۂ بدرٔ‘‘ اسلام اور دین کی سربلندی کا ابدی پیغام ہے۔حق وباطل کے اس معرکے میں اسلام غالب اور کفر مغلوب ہوا۔ اس فتح سے مسلمان قریشِ مکہ کے مقابلے میں ایک فریق بن چکے تھے اور یہ وہ حقیقت تھی، جس کا قریش تصوّر بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس ذلّت آمیز شکست سے قریش کو پہلی مرتبہ مسلمانوں کی عسکری قوت اور جداگانہ معاشرتی حیثیت کا احساس ہوا۔پیغمبرِ اسلام ﷺ نے جنگ کے موقع پر بارگاہِ رب العزت میں جو دُعا مانگی تھی، اُس میں یہی حقیقت مضمر تھی۔آپﷺ کی دُعا یہ تھی: اے اللہ،اگر تیری یہ مُٹّھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر قیامت تک تیری عبادت نہ ہوگی‘‘۔

آپ ﷺ نے غزوۂ بدر میں جو خطبہ دیا ، وہ حسب ذیل ہے:’’حمدوثناکے بعد آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جن امور پر اللہ تعالیٰ تمہیں آمادہ کررہاہے، ان ہی کی میں بھی تمہیں دعوت دیتاہوں اور ان ہی باتوں سے میں تمہیں روکتا ہوں، جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔ اللہ کی شان بہت عظیم ہے۔ نہ معلوم وہ تمہارے کس عمل سے خوش ہوکر تمہیں کیا دے دے۔ کس خواہشِ نفس پر قابو پانے کا کیا صلہ عطا فرما دے۔ اللہ حق کا حکم دیتاہے، سچائی کو پسند کرتا ہے۔ نیکی کرنے والوں کو ان کے اخلاصِ مراتب کے اعتبار سے نوازتا ہے۔ اسی نیکی کے ساتھ اس کی یاد کی جاتی ہے اور اسی نیکی کی وجہ سے اس کے درجے قائم ہوتے ہیں۔

نیکی تو ایک ہی ہوتی ہے، لیکن جس درجے کا اخلاص اور اسے انجام دینے کی جتنی زبردست خواہش ہوتی ہے،اسی لحاظ سے اجر کے درجات میں کمی و زیادتی ہوتی ہے۔ اللہ نے تمہیں حق کی میزان بنادیا ہے، تم جانتے ہو وہی نیکی قبول ہوگی جو اللہ کی خوش نودی کے لیے ہو اور جنگ کے وقت چوٹ سہہ جانے اور مقابلے میں قوت برداشت واستقامت کے لحاظ سے تمہارے افکار دُور ہوں گے اور غم سے نجات پائو گے، اور آخرت میں بھی نجات تمہاری قوتِ برداشت کے اندازے پر ملے گی۔ اللہ کے نبی تمہارے درمیان موجود ہوں گے، جو گناہ اور کم درجے کی چیزوں کی طرف تمہیں جانے سے بچاتے ہیں۔ نیکی اور بلند درجوں کی باتوں کا تمہیں حکم دیتے ہیں۔ 

اس بات سے شرم کروکہ اللہ تعالیٰ تمہاری ایسی باتوں پر مطلع ہو، جس سے وہ نفرت کرتا اور غضب ناک ہوتا ہے۔ دیکھو اللہ نے اپنی کتاب میں تمہیں کیا احکام دیے ہیں اور کچھ ایسے واقعات اللہ نے تمہارے سامنے پیش کردیے ہیں، جن کی تعمیل کے خوش کن نتائج تمہارے سامنے آچکے ہیں اور اس نے کن کن نعمتوں سے تمہیں سرفراز کیا ہے۔ تم بہت کمزور اور بے وقار تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں غالب اور باوقار بنادیا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پر پوری قوت سے عمل کرو، تمہارا رب خوش ہوجائے گا اور صبرو برداشت کے موقع پر اپنے رب کو امتحان دے کر ان نعمتوں کے مستحق بنو، جن کا اللہ تعالیٰ نے تم سے وعدہ کیا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوگی۔ اس کی مغفرت سے سرفراز ہوںگے۔ بے شک اس کا وعدہ حق ہے۔ اس کی بات سچی ہے۔ اس کی نافرمانی بڑے عذاب کو دعوت دیتی ہے۔ بے شک ہمارا تمہارا وجود اس حیّ وقیوم کی حیات بخشی سے ہے اور اس حیّ و قیوم کے نظم قیام عالم سے ہماری زندگی کی منزلیں گزررہی ہیں۔ ہم اس سے توقع قائم کرتے ہیں۔ اسے مضبوطی سے تھامتے ہیں۔ اسی پر بھروسا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے ۔اللہ ہمیں اور سب مسلمانوں کو بخش دے۔‘‘

یہ موقع جنگ کا تھا اور مسلمانوں کو آخرت طلبی اور نیکیوں میں سبقت کی دعوت دی جارہی تھی، قلوب کو متوجہ کیا جارہا تھا، تاکہ دنیا طلبی کا کوئی شائبہ نہ آنے پائے۔ کسی موقع پر آپﷺ نے مسلمانوں کو نہ ظلم پر آمادہ کیا، نہ خوں ریزی پر ابھارا، ہاں سرفروشی کے موقع پر جان چُرانے سے ضرور روکا۔ موت کو آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود راہِ حق پر جمے رہنے کی تلقین کی۔ آپﷺ نے اپنے اس خطبے سے مسلمانوں کے اندر یہ بصیرت پیداکردی کہ محض نفسانی جذبے کی بناء پر بڑی سے بڑی قربانی بھی نہ صرف یہ کہ بے وزن ہوجائے گی بلکہ دنیا و آخرت کی رسوائی کا سبب بنے گی۔