عارف سیالکوٹی
علامہ اقبال نے پیغامی شاعری کے دور میں قدم رکھتے ہی اپنی خداداد قابلیت سے حالات کا جائزہ لیا۔ وقت کے تقاضوں کو جانچا، ملت کے جمود و تعطل کے اسباب پر نظر ڈالی، حیات انسانی کی زوال پذیر قدروں پر انگلیاں رکھیں اور زمانے کے بدلتے ہوئے رجحانات کا عمیق نظر سے مطالعہ کیا اس میں شک نہیں اول اول آپ نے بھی دوسرے بہی خواہان وطن کی ہم نوائی میں کئی ایسی نظمیں کہیں ہیں جن سے بے پناہ جذبہ حب الوطنی آشکار ہوتا تھا۔
لیکن برادران وطن کی تنگ نظری، خود غرضی اور شاطرنہ چالوں نے بہت جلد آپ کو اپنا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ یورپ کی استعمار پرستانہ پالیسی ہندوئوں کی خود غرضانہ سیاست، مطلب پرستانہ ذہنیت اور منافقانہ رویہ کے پیش نظر آپ نے اسلامیان ہند کو حجازی نغمات کی لے سے آشنا کرنے اور ان کے مسائل کو اسلامی آداب سیاست کی روشنی میں حل کرنے کا عزم بالجزم کر لیا۔ جو آپ کی دانست میں مسلمانوں کی دنیوی اور اخروی نجات کا ضامن تھا۔ اس اہم نتیجہ پر پہنچے کے بعد آپ ایک مومنانہ شان سے یوں نطق سرا ہوئے۔ ؎
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا
اپنے اس مقصد کو تقویت دینے اور اسے حل کرنے کے لئے آپ نے مغربی ممالک کی بالعموم اور اسلامی ممالک کی بالخصوص سیاحت بھی فرمائی۔ مغربی ممالک کی سیاحت نے آپ پر ان ملکوں کی مادہ پرستی اور لادینیت کو ظاہر کیا۔ آپ کو یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ یہ لوگ دنیوی علوم کے لئے تو بری طرح کوشاں ہیں لیکن خدا پرستی اور روحانیت سے مطلقاً بے بہرہ ہیں۔ ان کی بے راہ روی حد سے بڑھی ہوئی دنیا پرستی، عشرت طلبی اور مادی ترقی انہیں ہلاکت اور تباہی کے گڑھے کی طرف لے جا رہی ہے۔
سائنس جیسی خداداد قوت کا غلط استعمال، مہلک آلات حرب و ضرب کی ایجادات اور خفیہ جنگی تیاریاں نہ صرف ان کے اپنے لئے بلکہ امن عالم کے لئے بھی خطرے کا پیش خیمہ ہیں اور اسلامی ممالک کی سیاحت نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا۔ آپ نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں اور دھڑکتے ہوئے دل سے محسوس کیا کہ صداقت کا پرستار صراط مستقبم کا داعی، امن عالم کا علم بردار، اخوت و مساوات کا مبلغ اور فخر موجودات کو کائناٹ کی ہر شے سے عزیز تر رکھنے والا مسلمان بھی دنیا کی محبت میں بری طرح اسیر ہے۔ اس کی خدا پرستی، خود پرستی میں تبدیل ہو رہی ہے اور وہ مغرب کی بظاہر چمکتی ہوئی تہذیب کا دلدادہ ہے اور تہذیب اقبال کی نظر میں ؎
نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ خروش
لہٰذا آپ نے مسلمانوں کو ان الفاظ میں تہذیب افرنگ سے بچنے کی تلقین کی ؎
گرچہ ہے دل کشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال، دانہ و دام سے گزر
وطن پرستی کے نظریے نے ہی ممالک اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اور ان کی عظیم قوت کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ اس نظریئے نے مسلمانوں کو اخوت سے بھی یکسر بیگانہ کر دیا اور مسلمان وطنی اور نسلی رشتے کو اسلامی رشتے پر ترجیح دینے لگے۔ علامہ کی دور بین اور حقیقت شناس نظروں نے ان پر یہ تلخ حقیقت بھی واضح کر دی تھی کہ ہندی مسلمان تو جذبہ اخوت کے تحت فی الواقعہ اسلامی ممالک کے غم میں گھلا جا رہا ہے۔ ہندوہستان سے افغانستان ہجرت کرنے والے مسلما نوں کا حشر بھی آپ کے سامنے تھا۔
ان ناقابل تردید حقائق نے علامہ کو ان ملکوں کی طرف سے بڑی حد تک مایوس کر دیا۔حکیم الامت نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان غیر اقوام پر تکیہ کریں۔ لہٰذا علامہ نے ان حالات میں یہ فیصلہ کیا کہ جو کچھ بھی کرناہے خدا کے بھروسے پر ہمیں خود کرنا ہے۔ ان عوامل کے علاوہ مقامی سیاست آئے دن کے فرقہ وارانہ فسادات مسلمانوں کے جانی اور مالی نقصانات، ہر شعبہ زندگی میں متحدہ قومیت کے علم برداروں کا بے جا تسلط اور مسلمانوں کی محرومی نے بھی علامہ کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا کہ احیائے ملت اور بقائے اسلام کے لئے ہندوستان کے اندر ایک ایسے گوشہ عافیت کا وجود ازبس ضروری ہے جہاں افراد ملت پوری آزادی مکمل اطمینان اور دل جمعی سے اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس ملک کا دستور مرتب کر سکیں اور اپنی عملی زندگی میں اسلام کو پوری طرح نافذ کر سکیں آپ نے اپنے اس مقدس خیال کوآل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد منعقدہ 1930ء کے خطبہ صدارت میں ان الفاظ میں واضح فرمایا۔
’’اسلام ہی وہ سب سے بڑا جود ترکیبی تھا جس سے مسلمانان ہند کی تاریخ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمور ہوئے جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے اور جن سے متفق اور منتشر افراد بتدریج متحد ہو کر ایک متمیز و متعین قوم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں حقیقت میں یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں شائد ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا۔ علامہ برادران ملت کو تمام سیاسی، نسلی، لسانی، وطنی اور جغرافیائی تعلقات کو ختم کرنے اور ایک مرکز پر جمع ہونے کی دعوت ان الفاظ میں دیتے ہیں:۔ ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولؐ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری
فی الحقیقت ملت اسلامیہ کا اتحاد ہی علامہ اقبال کی شاعری کا محور و مرکز تھا وہ ہمیشہ مسلمانوں کی شان و شوکت کے لئے دعا گو رہتے۔
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفویؐ خاک میں ہر بت کو ملا دے
آپ کی مردم شناس نظروں نے بھانپ لیا کہ ہندی مسلمانوں میں ایک ایسی ہستی ہے جو اس عظیم الشان کاروں کی قیادت کر سکتی ہے اور اگر فضل خدا شامل حال رہا تو اس کارواں کو بخیر و عافیت منزل مقصود تک بھی لے جا سکتی ہے۔ یہ علامہ کی بلند پایہ شخصیت تھی جس نے مسٹر محمد علی جناح جیسی عدیم المثال ہستی کو انگلستان سے واپسی پر رضا مند کر لیا۔ جناح صاحب ہندوستان آئے اور مسلمانوں کی قیادت قبول کر لی۔ آپ کی بے لوث خدمت اور بہترین قیادت کے پیش نظر عوام نے آپ کو قائداعظم کے لقب سے سرفراز کیا۔ قائد اعظم اور آپ کی جماعت (مسلم لیگ) نے علامہ کے فیصلے، نظریے اور نعرے کو حرف بہ حرف اپنایا۔
مسلم لیگ نے 1940ء میں لاہور کے تاریخی اجلاس میں پاکستان کو اپنا نصف العین قرار دیا۔ پاکستان کی مختصر ترین اور بہترین تشریح کرتے ہوئے کہا گیا ’’پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ‘‘ اور قرآن و سنت کو پاکستان کے آئین کی اساس بتایا گیا۔ حصول آزادی اور پاکستان میں اسلامی نظام حیات کے نفاذ کے اعلانات نے مسلمانان ہند کو بڑی سے بڑی قربانی دینے پر تیار کر دیا اور قائداعظمؒ کے ہاتھوں مفکر اعظم کا تخیل بہت جلد حقیقت میں بدل گیا۔ پاکستان کے تصور کو مجذوب کی بڑ کہنے والے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے 14 اگست 1947ء کو پاکستان عالم وجود میں آگیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ: ؎
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے