آسیہ عمران
اس کی باتیں اس ماحول میں نئی ضرور تھیں لیکن لگتا تھا جیسے برسوں سے کہیں اندر رچی بسی ہوں۔ وہ کہہ رہی تھی۔ میں اپنی سلطنت کی ملکہ ہوں کسی کو اپنی راجدھانی میں مداخلت نہیں کرنے دیتی بیٹا ہو یا شوہر مدد پر آمادہ ہو تو بھی میری ماتحتی میں کام کرتا ہے کہ مجھے کچھ بھی اپنی جگہ،اپنے مقام سے ہٹا ہوا پسند نہیں۔ گزشتہ ہفتے کی بات ہے رمضان کی تیاری کر رہی تھی۔ شوہر نے مدد کے ساتھ کئی چیزوں کی ترتیب بدلنی چاہی ۔میرے تیور دیکھ کر مسکراتے ہوئے معذرت کرنے لگے۔
میں سرشار سی ہوئی ،انہیں معذرت کرنی بھی چاہیے تھی آخر میرے دائرہ کار میں انہوں نے مداخلت کی کوشش کی تھی۔میری فطرت ہی شاید بنانے والے نے ایسی بنائی ہے۔مجھ سے بات کرتے بھی نرمی کی تاکید ہے کہ مجھے نازک آبگینہ سے تشبیہہ دی گئی۔ کوئی مجھ پر حکم چلائے قطعاً اچھا نہیں لگتا، شاید اس لئے کہ میں اپنی الگ سلطنت ،الگ دائرہ کارکے لئے بنائی گئی ہوں۔ پیار کے دو بول سے سب کچھ کر نے کو تیار ہوتی ہوں ایسے میں ناممکن بھی ممکن لگتا ہے۔ بس یہی وجہ تھی سب چھوڑ چھاڑ کر چلی آئی۔ تمھارا کہنا ہے کیے کرائے پر پانی پھیر آئی میرا موقف ہے کہ وقت پر درست سمت اختیار کی شاید مزید وہاں رہتی تو آرڈر کا ماحول میری حساسیت، نازک پن سبھی کچھ نگل جاتا۔
میں عورت پن سے ہی محروم ہو جاتی۔ مرد بننا بھی کوئی قابل ستائش عمل ہے کیا؟ عورت تو عورت ہی اچھی لگتی ہے۔ کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟ اس نے استفہامی انداز سے دیکھا میں جو چپ چاپ اسے سنتی جارہی تھی۔ اس کے پوچھنے پر جوابیہ سوال کیا ۔ آرمی جوائن کرنا توتمھارا بچپن کا خواب تھا اس کا کیا ہوا؟ اس کی قیمت بڑی تھی ادائیگی ممکن نہ تھی ۔ نہ پلٹتی تو عمر بھر پچھتاتی وہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے بولی۔ ملک وقوم کی خدمت کے تو کئی محاذ میرے دائرہ کار ، میری دسترس میں ہیں۔ ٹیچر، ڈاکٹر ،لیکچرر اچھی ماں، بیوی، بیٹی ،بہو بن کر، اپنے دائرہ کار میں بہت کچھ کرنے کو ہے۔خدمت کے معانی اور دائرہ کار واضح نہ ہوتو بسا اوقات فساد بن جاتی ہے ۔ اس کی باتیں جیسے دل میں اتر رہی تھیں۔
یہی نکتہ تھا جسے پہلے کوئی سمجھا نہ پایا تھا ۔ میری کیفیت شاید سمجھ رہی تھی تبھی گویا ہوئی۔ ہمارااصل مسئلہ کچھ اور ہے وہ یہ کہ ہمارے مرد اور ہمارے گھر کی عورتیں ہمیں اسپیس نہیں دے پارہے، قدر دانی نہیں کر پا رہے۔اب میں نے طے کیا ہے۔ یہ چشمہ ،اس کا مصنوعی پن عیاں کرنا ہے۔ کوشش کرنی ہے ان جالوں کو ہٹانے کی۔ اپنے حقیقی مسائل کا پتہ لگا کر اس کے حل کی طرف جانا ہے۔ کل ہی ایک سہیلی گھر آئیں ۔ اسےکندھا چاہیے تھا تھوڑا، گرجیں ، برسیں پھر بولیں۔ میاں بس کما کر سمجھتے ہیں حق ادا کر دیاباقی سب بوجھ میرے سر پر ہیں اب مزید اٹھا نہیں پا رہی ۔رازداری سے پوچھا تعریف کرتے ہیں۔
حوصلہ دیتے ہیں ۔کہنے لگی یہی تو اصل بوجھ ہے ۔آخر کبھی تو کہہ دیں تم بہت اچھا مینج کرتی ہو میری عورت پن کی تسکین کریں۔تسلی اسے چاہیے تھی لیکن سبق کے کئی در میرے لئے کھلے تھے۔ ہم عورتوں کی نفسیات نے مردوں کو بتائی کہ یہ ٹیڑھی پسلی سے بنی ہیں، انھیں سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ٹوٹ جائیں گی۔ ان سے پیار سے کام لینا ۔ جان بھی وار دیں گی۔یہ دو ملاقاتیں تھیں ،جنھوں نے اس رمضان کو میرے لئے گزشتہ رمضان المبارک کی نسبت بہت الگ بنا دیا کہ میری سوچ و فکر میں انقلاب اپنا دائرہ کار معلوم ہوا تھا۔
قرآن کریم سے تعلق اس مبارک مہینے میں بڑھ ہی جایا کرتا ہے۔ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش سے زندگی میں نئے در وا ہوئے ہیں۔ سحری، افطاری کی تیاری اس دوران اللہ کا ذکر، رب سے باتیں ،آیات قرآنی پر غور وفکر نے اپنی انفرادیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس مقام کا احساس ہوا ہے جو رب کریم نے مختلف رشتوں کے حصار میں مجھے دیا ہے۔گھر کا ہر فرد چھوٹے بڑے معاملہ میں مجھے ہی تلاشتا ہے۔
میرے ہونے کو محسوس کرتا ہے۔ مجھ سے مشورہ لیتا ہے یہ سب کتنی بڑی نعمت ہے جتنا سوچتی ہوں اتنا ہی تشکر کا احساس گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے ۔اچانک ہی اپنی دوست کی ایک ملاقات یاد آئی ہے۔ باجی بہت شکریہ آپ کی بروقت رہنمائی نے بھٹکنے سے بچا لیا۔ شکریہ ادا کرتی، دعائیں دیتی چادر لپیٹے وہ عورت چلی گئی۔
گزشتہ ماہ اس کی ملاقات ایک خواتین این جی او کے آفس میں اس عورت سے ہوئی تھی ۔ وہاں منتظر خاتون کو ایک ورکر سمجھارہی تھی اچھا گھر، رہن سہن ، سہولیات سب تمھارا حق ہے شوہر سے مانگو، نہیں دیتا تو علیحدگی لے لو تم کوئی غلام تھوڑی ہو جو اتنا ظلم و ستم بر داشت کرو۔ بہت اچھا کیا میری بات مان کر یہاں چلی آئیں تمھارے سارے مسئلے اب حل ہو جائیں گے۔ اتنے میں محترمہ کا بلاوا آگیا گھنٹہ بھراندر نہ جانے کیا بات چیت تھی جو ہوتی رہی وہ نکلی تو ساتھ میں میری دوست بھی نکل آئی خاتون پرجوش تھی کہہ رہی تھی۔
ہم عورتیں خواہ مخواہ ہی پستی رہتی ہیں۔ اب ایسا نہیں ہوگااب میاں کو اینٹ کا جواب پتھر سے ملے گا۔وہ اس وقت ہواؤں میں کچھ بھی سمجھنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ میری دوست نے اسے اپنا کارڈ دیا اور کہا میرا سینٹر تمھارے گھر کے قریب ہی ملنے آؤ گی تو اچھا لگے گا ، وہ خوش ہوگئی۔ چند ہی دن گزرے تھے کہ اس کا فون آگیا۔ قریبی فیملی پارک میں ملیں۔ معلوم ہوا خاتون کا شوہر کلرک حلال کمانے والا سادہ سا انسان ہے۔جو کماتا ہے بیوی کے ہاتھ پر رکھتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بڑھتی مہنگائی نے گزرا مشکل کر دیا ہے۔روزانہ کی چخ چخ سے تنگ آ کر ہی اسے کسی نے مسئلہ کے حل کے لئے یہ راہ دکھائی تھی۔ میری دوست نے سوال کیا شوہر اپنے پاس کتنے رکھتا ہے؟
کہنے لگی سب کچھ مجھے دے دیتا ہے۔ روزانہ کا کرایہ تک مجھ سے لیکر جاتا ہے۔ اپنے تو کپڑے جوتے تک اپنے نہیں لیتا کتنے ہی سالوں سے چند سوٹوں پر گزارا ہے۔ دوستوں میں تو اڑاتا ہی ہوگا؟ بولی بالکل نہیں۔ پھر تو بے چارہ وہ مظلوم ہوا سب کچھ تم پر تمھارے بچوں پر لوٹا دیتا ہے ۔ تھکا ہاراگھر آتا ہےتو ایسے میں اسے تو گھر کا سکون تک میسر نہیں۔ سوچ رہی ہوں کوئی این جی او شوہر کے حقوق کے لیے بھی ہونی چاہیے۔
جو اسے بیوی بچوں کے ستم سے بچائے انھیں اپنے حقوق لینے پر ابھارےبات سنجیدہ تھی۔ وہ حیرت سے دیکھنے لگی۔ باجی میں نے ایسے تو کبھی سوچا ہی نہیں۔ تب میری سہیلی نے اسے سمجھایا میاں بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ یہ تو عورتوں کی تنظیم نے اسے مقابلے میں کھڑا کر ڈالا ہے۔ اس نے مشورہ دیا اب تو گھر بیٹھے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اگر کھانا اچھا بنا لیتی ہو تو اس سے کاروبار شروع کر لو۔ میں تمھاری معاونت کروں گی۔ سوچ کا زاویہ کیا بدلا کہ اسے کئی راہیں نظر آنے لگیں۔ باجی میں کل یہیں آپ سے ملتی ہوں اور چلی گئیں۔
دوسرے دن کہہ رہی تھی باجی میں نے اپنی دوست کے ساتھ آن لائن کام کا سوچا ہے اب میں مینیج کر لوں گی۔ کل سے شرمندگی کا تاثر ہے اتنی ناشکری کیسے ہو گئی۔ گھر ہے بھرم ہے بچے ہیں دو وقت کھانے کو عزت سےمل جاتا ہے کافی ہے۔ واقعی میری بھی ذمہ داری بنتی ہے کچھ کروں۔ بس جی آپ کا شکریہ آپ نے آنکھیں کھول دی ہیں، شاد رہیں دل خوش کر دیا ہے۔ اب گھر میں بھی سب خوش ہیں۔ چند ہی دنوں میں سب مرجھا کر رہ گئے تھے۔ سوچ میں تبدیلی اصل تبدیلی ہے۔ یہ اسی رمضان کی دین ہے