سیاست دانوں سے بصد احترام گزارش ہے کہ دنیائے سیاست میں ان کا جو بھی جی چاہے کریں مگر براہِ کرم ہماری قومی زبان کا حلیہ نہ بگاڑیں۔یوں کبھی کبھار جوشِ خطابت میں کبھی اور کہیں زبان لڑکھڑا جائے تودوسروں سے بھی التماس ہے کہ اس بھول چوک کا تماشا نہ بنائیں اور اس الٹ پلٹ کا شکار ہوجانے والے لفظ کو ازراہِ تمسخر یوں ہزار بار نہ دہرائیںکہ وہ زبان کا حصہ بن جائے۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ کبھی کسی نے کہنا چاہا ہوگا کہ ’ٹانگیں کانپیں گی‘ اور وہ بے چارہ شاید نو آموز ہوگا، وہ کہہ گیا’ کانپیں ٹانگیں گی‘۔وہ دن آج کا دن، ہر ایرے غیرے نے اٹھتے بیٹھتے ’کانپیں ٹانگیں گی‘ کہنا شروع کردیا اور اب تو یہ فقرہ اتنی باقاعدگی سے بولا جانے لگا ہے کہ ہم لاکھ چاہیں کہ ٹانگوں کو ٹانگیں کہیں مگر منہ سے کانپیں ہی نکلنے لگا ہے۔ یہ کسی اور کا نہیں، ہمارے سیاست دانوں کا کیا دھرا ہے۔
اسی طرح ایک اور فقرہ ہے جو سیاسی گفتگو میں بولا جانے لگا ہے حالانکہ بہت ہی مضحکہ خیز لگتا ہے۔ کہنا یہ تھا کہ مخالف کو پتہ لگ جائے گا۔ کہنے لگے ہیں کہ ’ان کو لگ پتہ جائے گا۔ اچھے بھلے فقرے کو مروڑ کر اسے کارٹون بنا دیا اور یہ نہیں کہ اپنی اصلاح کرلیں،جی نہیں۔ باقاعدگی سے کہنے لگے ہیں’لگ پتہ جائے‘۔ یہ تو دو مثالیں ہیں، خدا جانے کتنی اور مثالیں ہوں گی جن کے ہمارے کان اتنے عادی ہوگئے کہ ہم ان ہی کو اپنی مہذب زبان کا حصہ سمجھنے لگے ہیں۔ ایک اور بھیانک بدسلوکی یہ ہوئی ہے کہ ان ہی سیاسی طوطوں نے ہمارے اچھے بھلے، اپنے اندر مردانہ وجاہت لیے ہوئے لفظ ‘عوام‘ کو مونث بنادیا ہے:عوام یہ کررہی ہے، عوا م وہ کر رہی ہے‘ مطلب یہ کہ یہ صرف زبان ہی کی نہیں، مردوں کی بھی بے حرمتی ہے۔اب چوں کہ سیاست کا کاروبار ایسا ہے کہ اس میں بہت زیادہ بولنا پڑتا ہے، سیاست دانوں پر لازم آتا ہے کہ اپنی زبا ن کی تربیت کرتے رہیں۔ایک بار کسی نے کیا اچھی بات کہی کہ سیاست دانوں کو ادب پڑھایا جائے۔ایک لفظ بدل دیا جائے تو یہی بات موتیوں میں تولی جانی چاہئے: سیاست دانوں کو ادب سکھایا جائے۔دونو ں کی اشد ضرورت ہے۔ اچھا ادب پڑھیں، عمدہ ناول اور شستہ شاعری پڑھیں تو اس سے لاکھوں کا بھلا ہوگا۔ بات کرنے کا سیلقہ آئے گا۔ گفتگوپر نکھار آئے گا اور بات کتنی ہی غیر سیاسی ہو،کانوں پر گراں نہیں گزرے گی۔او رجب میں ادب سکھانے کی بات کرتا ہوں تو میری مراد وہ ادب ہے جوہمارے معاشرے سے اٹھتا جارہا ہے، اٹھنے بیٹھنے کا ادب، بول چال کا ادب، اور خاص طورپرکھانے پینے کا ادب کیونکہ سیاست اور اقتدار میں یہ ادب اٹھتے بیٹھتے کام آنا ہے اور دوسرے سارے آداب اس کے آگے ہیچ ہیں۔
ہائے ہمارے بڑوں کا دور اپنا سارا مال اسباب سمیٹ کر ایسا گیا کہ یادوں کے سوا کوئی نشانی بھی نہ چھوڑی۔ہمارے نہایت محترم عاشق حسین بٹالوی مرحوم اپنا زمانہ بیان کرتے کرتے جذباتی ہوگئے۔ ان ہی کے الفاظ نقل کرتا ہوں:مولانا ظفر علی خاں کو تو آپ جانتے ہیں،وہ فتنہء محشر تھے۔ پچیس سال تک مولانا ظفر علی خان نے موچی دروازے کے باغ میں کھڑے ہوکر اپنی خطابت کے جوہر دکھائے۔اور جو ان کی تقریروں کی زبان تھی وہ عام زبان نہیں تھی بلکہ وہ ہمیشہ مسلمانوں کو زاہد گان ِ توحیدکہا کرتے تھے۔ اور کبھی خدا کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ کہتے تھے :بربّ ِکعبہ اور برطانوی ملوکیت کی دھجیا ںفضائے آسمانی میں اُڑتی نظر آئیں گی۔ اور رجعت قہقری، اور جوحکومت کے خوشامدی لوگ تھے ان کو کہا کرتے تھے:تملقِ پیش گانِ ازلی اور کاسہ لیسان ِسرمدی۔ یہ ان کی بولنے کی زبان تھی۔تو انہوں نے پچیس سال تک ا س زبان میں تقریریں کیں۔ او ر لاہور کے ناخواندہ اور ان پڑھ مسلمانوں کہ یہ الفاظ زبانی یاد ہوگئے تھے، معنی وہ نہیں سمجھتے تھے۔
میں نہیں کہتا کہ آج کے سیاست دان اس قدر عربی اور فارسی میں ڈوبی ہوئی زبان بولیں۔ میں جب اصرار کرتا ہوں کہ ان لوگوں کو ادب سکھایا جائے تو میرا اشارہ مہذب لب و لہجے کی طرف ہوتا ہے۔ہماری زبان کو تو یہ برتری حاصل ہے کہ کیسی ہی مخالفت اور مخاصمت ہو، اردو کا لہجہ اور لفظوں کا چناؤ بات میں رس گھول سکتا ہے۔ مگر آج کی سیاست سے آپ جناب رخصت ہوا اور تو تکار داخل ہوگئی۔ ہمیں اپنی جس تہذیب پر ناز ہے اس میں شائستگی کا تڑکا لگا ہوا ہے جو اسے دوسری زبانوں سے افضل بناتا ہے۔ہمارا دھیما پن، ہماری آہستگی اورسنجیدگی ہماری زبان میں بد تمیزی اور بد تہذیبی کو داخلے کی راہ نہیں دیتی۔گفتگو ہی ماحول بناتی یا بگاڑتی ہے۔ جس وقت میں لندن میں بیٹھا یہ عبارت لکھ رہا ہوں،برطانوی وزیر اعظم پر بُرا وقت پڑ ا ہے۔وہ ملک کی پارلیمان میں جھوٹ بولے تھے۔بس قیامت ہو گئی۔ اب سارا ملک پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ گیا ہے اور ہر ایک یہی بات کہہ رہا ہے کہ وزیر اعظم کو نکالا جائے مگر اس کے لیے جو لفظ چنے ہیں وہ یہ ہیں:مسٹر بورس جانسن اس منصب کے اہل نہیں۔
سوچیں تو اس میں ہتک بھی ہے۔ اور اس میں تہذیب بھی ہے۔