• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رضوانہ وسیم

دروازے کی گھنٹی بجی تو حاطب بھاگ کر دروازے پر گیا پوچھا کون ہے؟ باہر سے فقیر نے صدا لگائی بیٹا اللہ کے نام پر کچھ دے دو، میں صبح سے بُھوکا ہوں۔ فقیر کی آواز سن کرحاطب کا پارہ چڑھ گیا۔’’ کیا مصیبت ہے! میں ویڈیو گیم کھیل رہا تھا ،فقیر کی گھنٹی سے سب کچھ گڑبڑ ہو گیا ،اس نے غصے سے کہا ،’’جاؤ بابا جاؤ آئندہ اس گھر کی گھنٹی مت بجانا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ پیر پٹختا ہوا گیٹ کھولے بغیر اندر آ گیا۔

اس کے پاپا ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے پوچھا کہ،’’ بیٹا کون آیا تھا‘‘؟ ’’ پاپا وہی فقیر آیا تھا ہر وقت اسے کچھ کھانے کو چاہیے ہوتا ہے میں تو پریشان ہو گیا ہوں کتنی دفعہ منع کیا ہے لیکن یہ پھر آ جاتا ہے ۔حاطب نے جھنجھلا کر کہا۔

پاپا نے کہا، ’’بیٹا! ایسے نہیں کہتے تم اللہ کا شکر ادا کرو کہ اللہ نے تم کو ہر نعمت سے نوازا ہے، تمہیں اس قابل بنایا ہے کہ تم کسی کی ضرورت پوری کر سکتے ہو۔ میرے بیٹے بھوک بڑی بُری چیز ہوتی ہے، یقیناََ وہ بہت بھوکا ہوگا اور سائل کو کبھی نامراد نہیں لوٹاتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالٰی ناراض ہو جاتے ہیں۔

حاطب نے کہا،’’ پاپا مجھے تو کبھی اس طرح بھوک نہیں لگتی یہ فقیر تو مجھ سے بھی بڑا ہے، اسے کیوں اتنی بھوک لگتی ہے کہ ہر وقت آ جاتا ہے۔‘‘

پاپانے کہا،’’کیونکہ تمہیں ہر چیز ضرورت سے پہلے ہی مل جاتی ہے، اس لیے تمہیں اس کی قدر ہے نہ احساس ہے۔ بہرحال پاپا کے سمجھانے پر حاطب نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ کسی مانگنے والے کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرے گا۔ خاص کر رمضان المبارک میں اس ماہِ مبارک میں دل کھول کر ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے۔

اس رمضان حاطب بھی روزے رکھ رہا تھا، اس دن افطار سے کچھ دیر پہلے، امی نے بھی حاطب کو سمجھایا کہ روزے میں ہر اُس کام سے بچنا چاہیے جو اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے۔ کسی سے لڑائی جھگڑا، بدتمیزی، چغلخوری، کسی کا مذاق اڑانا یہ سب کام منع ہیں اور ویڈیو گیم کھیلنے کے بجائےقرآن پاک کی تلاوت کیا کرو، نماز پڑھا کرو، ، نیک کام کرو اور کوشش کرو کہ آپ کی ذات سے کسی کی دل آزاری نہ کرو۔ حاطب نے وعدہ کیا کہ وہ سب سے، اچھے بچوں کی طرح رویہ رکھے گا۔

دوسرے دن چھٹی تھی، دوپہر کے بعد حاطب کے دوست آگئے انہوں نے اسے کرکٹ کھیلنے کو کہا، امی نے منع بھی کیا لیکن اس نے کہا کہ میں تھوڑا سا کھیل کرآ جاؤں گا لیکن جب وہ کھیل سے واپس آیا تو اس کا بُرا حال تھا کیونکہ گرمی بہت تھی اور بھاگ دوڑ کی وجہ سے پیاس سے اُس کا بُرا حال ہو رہا تھا۔ افطار میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ امی نے حاطب کو نہانے بھیج دیا تا کہ نہا دھو کے نماز پڑھ لے۔ نہانے کے بعد اُسے کچھ سکون ملا لیکن بھوک بڑی شد ت سے لگ رہی تھی۔ اذان سے 20 منٹ پہلے پھر وہی فقیر آگیا’’ اللہ کے نام پر کچھ دے دو‘‘۔

حاطب گیٹ پر گیا اور بڑی عزت سے اس فقیرسے کہا کہ،’’ آپ انتظار کریں میں ابھی کھانا لے کر آتا ہوں۔‘‘ اس نے اپنی امی سے جاکر کہا تو انہوں نے افطاری اور بریانی پیپر پلیٹ میں رکھ کر دی۔

حاطب کے پاپا یہ دیکھ کر مسکرانے لگے، انہوں نے پوچھا،’’ کیوں بیٹا آج تمہیں فقیر کو دیکھ کر غصہ نہیں آیا‘‘؟ حاطب نے کہا،’’ نہیں پاپا غصہ تو حرام ہے اور آج تو میں نے بھوک کی شدت کو خود محسوس کیا ہے آج مجھے پتا چلا کہ اگر کسی کو کھانا نہ ملے تو وہ کیسا محسوس کرتا ہے ‘‘۔

حاطب کے پاپا کو بہت خوشی ہوئی کہ ان کے بیٹے نے اپنی غلطی سے سبق سیکھ لیا تھا اور روزے کی بدولت اسے دوسرے کی بھوک اور پیاس کا بھی احساس ہو گیا ہے، انہوں نے کہا ’’بیٹا! ہماری اسلامی عبادات ہمیں دوسروں کے دکھ کا احساس دلاتی ہیں۔

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اذان کی آواز آ گئی اور سب لوگ روزہ افطار کرنے کے لیے دسترخوان پر آگئے۔

افطار کی دعا کے ساتھ کھجور اور شربت سے روزہ افطار کیا گیا کھانا پیٹ میں گیا تو دل سے حاطب نے اللہ کا شکر ادا کیا اور افطاری کے بعد سب نماز کے لیے اٹھ گئے۔