……مجید لاہوری……
زہے قسمت ہلال عید کی صورت نظر آئی
جو تھے رمضان کے بیمار ان سب نے شفا پائی
پہاڑوں سے وہ اترے قافلے روزہ گزاروں کے
گیا گرمی کا موسم، اور آئے دن بہاروں کے
اٹھا ہوٹل کا پردہ، سامنے پردہ نشیں آئے
جو چھپ کر کر رہے تھے احترام حکم دیں آئے
ہوئی انگور کی بیٹی سے ’’مستی خان‘‘ کی شادی
کھلے در مے کدوں کے اور ملی رندوں کو آزادی
نوید کامرانی لا رہے ہیں ریس کے گھوڑے
مسرت کے ترانے گا رہے ہیں ریس کے گھوڑے
مبارک ہو کہ پھر سے ہو گیا ’’ڈانس‘‘ اور ’’ڈنر‘‘ چالو
خلاص اہل نظر ہوں گے ہوا درد جگر چالو
نماز عید پڑھنے کے لیے سرکار آئے ہیں
اور ان کے ساتھ سارے طالب دیدار آئے ہیں
یہی دن اہل دل کے واسطے امید کا دن ہے
تمہاری دید کا دن ہے ہماری عید کا دن ہے
……احمد فراز……
تجھ سے بچھڑ کر بھی زندہ تھا
مر مر کر یہ زہر پیا ہے
چپ رہنا آسان نہیں تھا
برسوں دل کا خون کیا ہے
جو کچھ گزری جیسی گزری
تجھ کو کب الزام دیا ہے
اپنے حال پہ خود رویا ہوں
خود ہی اپنا چاک سیا ہے
کتنی جانکاہی سے میں نے
تجھ کو دل سے محو کیا ہے
سناٹے کی جھیل میں تو نے
پھر کیوں پتھر پھینک دیا ہے
……دلاور فگار……
ریڈیو نے دس بجے شب کے خبر دی عید کی
عالموں نے رات بھر اس نیوز کی تردید کی
ریڈیو کہتا تھا سن لو کل ہماری عید ہے
اور عالم کہتے تھے یہ غیر شرعی عید ہے
دو دھڑوں میں بٹ گئے تھے ملک کے سارے عوام
اس طرف سب مقتدی تھے اس طرف سارے امام
بیٹا کہتا تھا کہ کل شیطان روزہ رکھے گا
باپ بولا تیرا ابا جان روزہ رکھے گا
بیٹا کہتا تھا کہ میں سرکاری افسر ہوں جناب
روزہ رکھوں گا تو مجھ سے مانگا جائے گا جواب
باپ کہتا تھا کہ پھر یوں بام پر ایماں کے چڑھ
روزہ بھی رکھ اور روزے میں نماز عید پڑھ
آج کتنا فرق فل اسٹاپ اور کامے میں تھا
باپ کا روزہ تھا بیٹا عید کے جامے میں تھا
اختلاف اس بات پر بھی قوم میں پایا گیا
چاند خود نکلا تھا یا جبراً نکلوایا گیا
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی