اسلام آباد (انصار عباسی) قومی احتساب بیورو (نیب) کے جاری کردہ پریس ریلیز کا مواد دیکھیں تو اس میں فرح خان کیخلاف انکوائری شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس پریس ریلیز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ یہ خالصتاً ٹیکس سے جڑا معاملہ ہے جسے ایف بی آر کو دیکھنا چاہئے لیکن نیب کی اس معاملے میں بر وقت مداخلت کو نئے حکمرانوں کے حق میں ’’تبدیلی کی ہوائوں‘‘ کا چل پڑنا سمجھا جا رہا ہے۔
فرح خان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا لیکن ان پر الزام ہے کہ انہوں نے عمران خان کے دور میں مال بنایا۔ نیب کے پریس ریلیز میں توجہ ان کی دولت میں بتدریج اضافے اور غیر ملکی دوروں پر مرکوز رکھی گئی ہے۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تمام معاملہ ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور اسی ادارے کو فرح خان سے تحقیقات اور سوالات کرنا چاہئیں۔ نیب یہ معاملہ کیوں اٹھائے گا؟ جیسا کہ بیورو ماضی میں کرتا آیا ہے، یہ وہ پالیسی ہے جس کے تحت شہباز شریف کی زیر قیادت اس اتحادی حکومت کو خوش کیا جا رہا ہے جس کے ارکان کو ڈرایا، دھمکایا گیا، ہراساں کیا گیا، گرفتاریاں کی گئیں اور کرپشن کے کیسوں میں گھسیٹا گیا تھا۔
ادارے کے چیئرمین بھی وہی تھے جن کی قیادت میں نیب سابق وزیراعظم عمران خان کو خوش کرتا رہا۔ نیب کی جانب سے فرح خان کا کیس اٹھانا ایک سوچی سمجھی چال ہے کیونکہ وہ سابق خاتون اول بشریٰ خان سے قریبی تعلق رکھتی ہیں۔
فرح خان کیخلاف انکوائری عمران خان اور ان کی اہلیہ کیلئے پریشان کن ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس سے وزیراعظم شہباز شریف، شریف فیملی، زرداری فیملی اور حکومت میں شامل دیگر رہنما خوش ہوں گے۔
گزشتہ چار سال کے دوران، نیب نے اُس وقت کے کئی اپوزیشن رہنمائوں کیخلاف کیسز بنائے جن میں موجودہ وزیراعظم شہباز شریف بھی شامل ہیں۔ وہ پہلے نیب نیازی گٹھ جوڑ کا الزام لگاتے تھے اور کہتے تھے کہ اپوزیشن والوں کو جعلی کیسوں میں پھنسایا جا رہا ہے۔
اس کے برعکس، پی ٹی آئی کی حکومت میں نیب نے پی ٹی آئی اور ق لیگ کے حکومتی رہنمائوں کیخلاف کرپشن کیسز پر معاملات طے کیے یا پھر انہیں نظر انداز کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب اپنے قیام سے لیکر یہی کچھ کرتا رہا ہے۔ حکمرانوں کی خواہشات پر عمل کرکے سیاسی جوڑ توڑ کیلئے اپوزیشن کو ڈرانا دھمکانا اور نقائص سے پر تحقیقات کے ذریعے یا پھر فرینڈلی استغاثہ کے ذریعے حکمرانوں کے کرپشن کیسز پر معاملات طے کرلینا وہ چالیں ہیں جو نیب اپنی بقا کیلئے بھرپور انداز سے استعمال کرتا رہا ہے۔
نون لیگ اور پیپلز پارٹی والے نیب سے اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس کے کردار سے شدید پریشان تھے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں نے 2006ء کے میثاقِ جمہوریت میں وعدہ کیا تھا کہ نیب کو ختم کیا جائے گا اور اس کی جگہ احتساب کا ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے گا۔
تاہم، نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے وعدوں کو نظر انداز کیا اور نقائص سے پر تحقیقات اور فرینڈلی استغاثہ کی مدد سے نیب کو استعمال کرکے اپنے اپنے کیسز طے کیے۔ کئی انکوائریاں اور انوسٹی گیشنز کو دبا دیا گیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی وعدہ کیا تھا کہ آزاد احتساب کا نظام لایا جائے گا لیکن وہ بھی نیب کے جال میں پھنس گئے اور نیب نے اپوزیشن والوں پر کیسز بنا کر عمران خان کا دل جیت لیا۔
اپوزیشن والوں کو پکڑا گیا، ڈرایا دھمکایا گیا، عدالتوں میں گھسیٹا گیا۔ تاہم، شاید ہی کسی کیس میں نیب اپوزیشن والوں کو سزا دلوا سکا۔ اس کی بجائے، اعلیٰ عدلیہ نے کئی مرتبہ مختلف کیسز میں اختیارات سے تجاوز کرنے، سیاسی جوڑ توڑ کرنے اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے پر نیب کی سرزنش کی۔
عمران خان اپنی حکومت میں نیب کے کام سے لطف اندوز ہوتے رہے جبکہ اُس وقت کی اپوزیشن (موجودہ حکمران) جعلی کیسز بنانے پر نیب پر تنقید کرتی رہی۔ اب جبکہ اپوزیشن والوں نے عمران خان کو حکومت سے نکال باہر کرکے خود حکومت سنبھال لی ہے، تو نیب اپنی پرانی روش برقرار رکھی ہے اور اچھے وقت پر قلابازی کھائی ہے۔
نون لیگ اور پیپلز پارٹی والے جب اپوزیشن میں تھے تو کہتے تھے کہ نیب کو ختم کیا جائے لیکن اب جب یہ دونوں جماعتیں حکومت میں آچکی ہیں تو لگتا ہے کہ وہ نیب کی اس تبدیلی سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ فرح خان کو شاید گرفتار کر لیا جائے، ان کے ذریعے نیب عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی ہراساں کرسکتا ہے۔
اس سے نیب مضبوط ہوگا۔ تاہم، اصل احتساب کہیں نظر نہیں آئے گا۔ نیب کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ احسن جمیل گجر گجرانوالہ کے سابق چیئرمین ضلع کونسل رہ چکے ہیں اور فرح خان سابق سرکاری عہدیدار کی اہلیہ ہیں، چونکہ وہ سابق سرکاری عہدیدار کی اہلیہ ہیں اسلئے نیب قانون کے تحت ان کے کردار کا نوٹس لیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فرح خان کیخلاف اسلئے تحقیقات ہو رہی ہیں کیونکہ ان کے شوہر سابق سرکاری عہدیدار ہیں، تحقیقات کے دوران ان کے شوہر کو بھی انکوائری اور انوسٹی گیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔