آسیہ عمران
اسلام میں زندگی کا کوئی چھوٹا سا عمل بھی بے مقصد نہیں ۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ عبادت ہے۔ ہم رمضان المبارک اللہ کے حکم کے مطابق خیر وبرکات سمیٹنے میں گزارتے ہیں۔ زکوٰۃ ،صدقات معاشرے کے کمزور طبقوں کو مضبوط کرنے میں لگاتے ہیں۔ اپنے آپ کو اندر باہر سے پاک صاف کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت عید کی صورت میں انعام سے نوازتا ہے۔ عیدگاہ میں لوگوں کا اکٹھا ہونا ،عید گاہ کی طرف اللہ کی بڑائی بیان کرتے جانا ،بلا تفریق ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے ایک رب کے سامنے جھک جانا گویا لمحہ لمحہ بلند تر مقاصد سے جڑا منظم ،مرتب سلسلہ اورنظام ہے۔ اخوت ،نیک تمناؤں کا اظہار ،ملت اسلامیہ کے لئے دعائیں اس بابرکت اجتماع کا حصہ ہیں ۔آج کےدور میں جب خوشیاں بھی مادّی چیزوں سے وابستہ ہو کر رہ گئی ہیں ۔ بدلتے وقت کے ساتھ خوشی کے انداز بھی بدلتے رہے ہیں، اسی لیے آج کی عید ماضی کی عید سے خاصی مختلف ہے۔
وہ بھی کیا دن تھے جب چاند رات کو چوڑیاں ،گوٹے کناری والا لباس ،نئی سینڈل پہننے کے خوش کن تصور سے نیند نہ آتی تھی۔ یہ دن گویا ہواؤں میں اڑنے کا دن ہوتا تھا۔ عید کا چاند سبھی چھت پر جاکر دیکھتے اس دن اس خوشی میں افطاری بھی بھول جایا کرتے، ایک دوسرے کو مبارکباد یں دینے لگتے۔ ایک دن پہلے سے ہی عید کی کچھ تیاریاں کر لی جاتیں۔ چوڑیاں بیچنے والی عورتیں گھر گھر آتیں کلائیں چوڑیوں سے بھر دیتیں۔ کوئلے والی استری دہکائی جاتی۔ بچے بڑے سبھی کا عید کا لباس کلف لگا کر استری کیا جاتا۔ٹوپیوں کو بطور خاص دھو کر نیل لگایا جاتا۔ عید کی صبح شیر خرمےکی بھینی بھینی خوشبو سے ہوتی۔
چچا جان آوازیں لگا کر فجر میں سب بچوں کو اٹھا دیتے۔ سویاں پکائی جاتیں، عید گاہ جانے کی تیاری، ہر طرف کپڑے جوتے، جرابوں کا شور خوب گہما گہمی ہوتی۔ بڑے بوڑھے نماز عید کے بارے میں بتاتے تکبیر کی یادہانی کراتے عیدگاہ آنے جانے کےالگ راستے اختیار کیے جاتے۔مرد نماز پڑھ کر آتے تو خاندان کے بزرگوں سے ملتے ہوئےگھر آتے۔ بچّے سب کو عید کے کپڑے دکھا تے، پھر انہیں ایک ،ایک روپیہ عیدی ملا کرتی۔ اہمیت کا انوکھا سا احساس دن بھر گھیرے رکھتا، سب گلے ملتے۔ رشتہ دار وں کی پرجوش آمد وقتاً فوقتاً گھر میں قہقہے گونجتے رہتے۔ کسی مضبوط درخت پر رسی کی پینگھ ڈالی جاتی۔ آس پڑوس کی سب لڑکیاں جمع ہوجاتیں۔
دن بھر جھولا جھولنے ،کھیلنے کود نے، گھلنے ملنے اور باغوں میں دوڑنے میں گزر جاتا۔ رشتہ داروں میں میٹھے کے ساتھ عیدی بھیجنے کا بھی رواج تھا۔ اسی گہما گہمی ،رشتوں کے نرم گرم احساس میں خوشیاں ہر سو رنگ جماتیں، رونقیں سمیٹے نہ سمٹتیں۔ یہ بچپن کی عیدیں تھیں۔ وقت آگے بڑھا اور عید کے رنگ جد اہوتے گئے۔ آہستہ آہستہ عید کے مزے بھی ماند پڑتے گئے۔ منہدی، کپڑے، سہیلیوں کا سنگ ہوتا۔ کبھی عید پر کسی رشتہ دار کے گھرچلے جاتے یا ہمارے ہاں کوئی آجاتا۔ اب تو سب کچھ ہی بدل گیا۔