مختار احمد
ابرار ایک کمپنی میں ملازمت کرتا تھا۔ وہ ایک محنتی اور ایماندار تھا ۔اس کے دو جڑواں بچے تھے۔ ارسلان اور بتول۔ بتول کو سب پیار سے مْنّی کہتے تھے۔ دونوں دس سال کے تھے۔ دونوں چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے۔ ابرار کی بیوی انیسہ بہت سلیقہ مند تھی۔ اس سال کمپنی کو بہت فائدہ ہوا توکمپنی کے مالک نے ملازمین کو بونس دینے کا اعلان کیا۔ اس خبر سے ملازمین میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
یہ خوشی اس لیے بھی زیادہ تھی کہ عید قریب تھی۔بونس کے ملنے کی وجہ سے سب کو اطمینان تھا کہ بچوں کے کپڑوں اور جوتوں کا آسانی سے انتظام ہو جائے گا۔ ابرار کی بیوی چاہتی تھی کہ کپڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے جوتے بھی خریدیں کیوں کہ جوتے دو سال پرانے ہوگئے تھے۔ عید میں ابھی چند روزے باقی تھے کہ ابرار کی تنخواہ کے سارے پیسے ختم ہوگئے۔ اس نے بونس کی رقم سے کچھ پیسے نکال کربیوی کو دئیے۔ عید سے دو روز قبل میاں بیوی بچوں کے ساتھ بازار گئے۔ ارسلان اور مْنّی بہت خوش تھے۔ بازار ان کے گھر کے قریب ہی تھا۔ وہ پیدل ہی وہاں پہنچ گئے۔
عید کی وجہ سے بازار میں بہت رش تھا۔ دکان دار دگنے دام وصول کررہے تھے۔یہ صورت حال دیکھ کرابرار کی بیوی کو بہت مایوسی ہوئی کیوں کے ان کے پاس زیادہ رقم نہیں تھی۔ بہت دھکے کھانے اور جِھک جِھک کرنے کے بعد انہوں نے مْنّی کی چمکدار فراک ، ارسلان کے لیےجینز کی پینٹ اور ایک شرٹ خرید لی۔ مْنّی کی فراک پر سنہری رنگ کی تاروں اور سلمہ ستاروں کا کام تھا، اس لیے اس کے کپڑے ارسلان کے کپڑوں سے زیادہ مہنگے تھے۔
کپڑوں کی خریداری کے بعد ان کے پاس بارہ سو روپے بچے تھے۔ انیسہ سوچ رہی تھی کہان بارہ سو روپوں میں سے اگر دو سو روپے ارسلان کے بنیان اور مْنّی کی چوڑیوں اور مہندی کے الگ کردئیے جائیں تو بچتے ہیں ہزار روپے۔ان میں دو جوڑی جوتے کیسے آئیں گے۔
بچوں کو جب پتہ چلا کہ جوتوں کے لیے پیسے کم پڑ رہے ہیں تو مْنّی بولی۔ ’’امی۔ آپ ارسلان کو جوتے دلا دیں، میرے جوتے تو ابھی اچھی حالت میں ہیں۔‘‘
’’میں چاہتا ہوں کہ آپ مْنّی کو بکل والی پمپی دلا دیں۔ اتنے اچھے کپڑوں پر وہ پرانے جوتے پہنے گی تو مزہ نہیں آئے گا۔ اس کی سہیلیاں دیکھیں گی تو کیا کہیں گی‘‘۔ ارسلان نے کہا۔
ابرار ان کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔ جب وہ خاموش ہوئے تو اس نے کہا۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ ہمارے دونوں بچے ماشااللہ بہت سمجھدار اور ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہیں۔ میری اپنی رائے یہ ہے کہ ہم قرعہ اندازی کرلیتے ہیں، پرچی میں جس کا بھی نام نکلے گا جوتے اسی کے آئیں گے‘‘۔
یہ تجویز ارسلان اور مْنّی کوبہت پسند آئی۔ابرار نے دو کاغذوں پر بچوں کے نام لکھ کر ان کو لپیٹا اور دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کر ان کو خوب ہلانے کے بعد ہاتھ بیوی کی طرف کر دئیے۔ اس نے ایک پرچی نکالی، تو اس میں ارسلان کا نام تھا۔ ارسلان کو ذرا خوشی نہیں ہوئی وہ تو چاہتا تھا کہ جوتے اس کی بہن کے آئیں۔ مْنّی بہت خوش تھی، پرچی میں اس کے بھائی کا نام نکلا تھا۔ اب اس کے جوتے آئیں گے، عید والے روز وہ ان جوتوں کو پہن کر ٹھاٹ سے اپنے دوستوں کے ساتھ گھومے گا۔
جوتوں کی دکان پر زیادہ رش نہیں تھا۔ ارسلان کے جوتے مْنّی نے پسند کیے ۔ اس نے ان کو پہنا پھر دکان میں چل پھر کر بھی دیکھا۔ جوتے نو سو ننانوے روپے کے تھے۔ ابرار نے ایک ہزار کا نوٹ ملازم کو دیا اور جوتوں کا ڈبہ اٹھا لیا۔وہ لوگ جانے کے لیے مڑے تو کاوٴنٹر والے ملازم نے ارسلان کو آواز دے کر روکا اور ایک روپیہ اس کے حوالے کرتے ہوئے بولا۔ ’’یہ آپ کا بقایاہے‘‘۔
گھر آکرامی نے کپڑے اور جوتے الماری میں رکھ دیے۔ وہ کچھ چپ چپ سی تھیں۔ مْنّی کے جوتے نہ آنے کا افسوس تھا۔ چاند رات کی خوشیوں کا کیا کہنا۔ مْنّی نے اپنے ہاتھوں پر امی سے مہندی لگوائی۔ عید کے روز سب جلدی اٹھ گئے۔ ارسلان نہا کر باہر نکلا تو اس پر پینٹ قمیض بہت جچ رہی تھی۔ارسلان نے مْنّی سے کہا۔ ’’الماری سے میرے جوتوں کا ڈبہ لادو۔‘‘ مْنّی جوتوں کا ڈبہ لے آئی۔ ارسلان نے ہنس کر کہا، اچھا اب تم ایک کام اور کرو۔ ڈبے میں سے جوتے نکالو‘‘۔
اب ان کی امی سے برداشت نہ ہوسکا انہوں نے درشت لہجے میں کہا۔ ’’ارسلان تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ یہ کام تم خود کیوں نہیں کرتے۔ اتنی دیر میں مْنّی ڈبہ کھول چکی تھی، پھر اس کے منہ سے حیرت بھری آواز نکلی۔ ’’امی یہ کیا؟‘‘
انیسہ نے جلدی سے پلٹ کر دیکھا اور خود بھی حیران رہ گئی۔ مْنّی کے ہاتھ میں کالے رنگ کی چمکتی ہوئی پمپی تھی، وہ ہی پمپی جو مْنّی کو بہت پسند تھی، ارسلان مسکرا رہا تھا۔ انیسہ نے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔ ’’تمہارے جوتے کہاں ہیں؟‘‘۔
’’امی۔ میں نے رسید دکھا کر اپنے جوتے دکان دار کو واپس کردیے تھے جب اس نے ایک روپیہ دینے کے لیے آواز دی تھی اور ان کے بدلے مْنّی کے لیے پمپی لے لی تھیں۔ مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ میں نئے جوتے پہنوں اور میری بہن پرانے جوتے پہن کر عید منائے۔ میری گولک میں کچھ پیسے جمع تھے میں نے وہ پیسے دے کر موچی سے اپنے پرانے جوتے بالکل نئے جیسے کروا لیے ہیں‘‘۔
امی کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ وہ ارسلان کو پیار کر کے بولی۔ ’’ تم ایک بہت اچھے بھائی ہو۔ ‘‘
ابرار اور ارسلان عید کی نماز پڑھ کر آئے تو مْنّی نئے کپڑے پہن کر تیار ہو چکی تھی۔ اس کے کپڑے تو خوبصورت لگ ہی رہے تھے مگر بکل والی پمپیوں کا تو جواب ہی نہیں تھا۔ وہ اس پر خوب جچ رہی تھی۔